ظفر آغا
’ جیسے کو تیسا ‘ آخر ہندوستان کے صبر کا پیمانہ چھلک اُٹھا اور پچھلے ہفتہ ہندوستانی سیکورٹی کمانڈوز نے پاکستان میں گھس کر پاکستانی دہشت گرد کیمپس تباہ کردیئے۔ پاکستانی فوج دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی اور پاکستان کی ہندوستان کے خلاف نیوکلیئر بم استعمال کرنے کی دھمکی بھی دھری کی دھری رہ گئی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے دہشت گردی کے خلاف اپنا وعدہ نبھایا اور وہ کام جو پچھلے کئی وزرائے اعظم کرنے سے گریز کررہے تھے مودی نے پاکستان کے خلاف کرکے پاکستان کی دہشت گردانہ پالیسی کو کافی حد تک کھوکھلا کردیا۔ اس کے لئے مودی قابل مبارکباد ہیں۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ سرحد کے دونوں جانب جنگی حالات ہیں۔ دونوں طرف فوجیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنے اپنے فوجی کمانڈروں کے حکم کا انتظار کررہی ہیں۔ کسی بھی جانب سے ذرا سی لغزش ایک خطرناک جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے جو نہ صرف ہند۔پاک کے حق میں بلکہ عالمی امن کے لئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ کیا ہند و پاک ایک دوسرے کے خلاف ایک اور جنگ پر آمادہ ہیں؟۔
آثار تو جنگ کے ہیں، فوجیں کمر بھی کس چکی ہیں لیکن جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے ہندوستان نے یہ اعلان کردیا ہے کہ جنگ کی شروعات ہماری طرف سے نہیں ہوگی، لیکن نریندر مودی نے ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا تھا کہ اگر پاکستان کی جانب سے ذرا سی بھی چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے تو پھر پاکستان کے خلاف ہندوستان کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا۔
اس کی مثال ہندوستان نے پچھلے ہفتہ پاکستان کو دے دی ہے۔ پاکستان کی جانب سے پچھلے کچھ عرصہ سے مستقل دہشت گردی کی بے ہودہ حرکتیں ہورہی تھیں۔ پہلے پٹھان کوٹ فوجی ہوائی اڈہ پر حملہ ہوا، پھر کشمیر میں حالات نازک ہونے پر پاکستان نے وہاں دخل اندازی کی اور آخر پچھلے ماہ اڑی فوجی کمانڈ آفیسر پر باقاعدہ دہشت گرد حملہ ہوا جس میں ہمارے 17 فوجی جوان مارے گئے۔ پھر جب پاکستان کو وارننگ دی گئی تو پاکستان کے وزیر داخلہ نے نیو کلئیر ہتھیار کی دھمکی دی۔
وزیر اعظم نے اب پاکستان کو جواب دینے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجہ میں ہمارے فوجیوں نے سرحد پار جاکر پاکستانی دہشت گرد کیمپس تباہ کئے۔ یعنی ہماری جانب سے عمل کا ردِ عمل ہوا۔ چنانچہ یہ واضح ہے کہ اگر پاکستان کوئی حرکت کرتا ہے تو ہندوستان اس کا منہ توڑ جواب دے گا خواہ اس کا نتیجہ جنگ ہی کیوں نہ ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں پاکستان کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے؟۔ ابھی تو پاکستانی حکمران سکتہ میں ہیں۔ پاکستانی فوج اور سویلین حکومت کو اس بات کی قطعاً امید نہیں تھی کہ ہندوستان کی جانب سے کوئی فوجی کارروائی ہوسکتی ہے۔ آخر ممبئی جیسے دہشت گرد حملے کے بعد جب کچھ نہیں ہوا تھا تو پھر اب کیا ہوتا، اسی دلیل نے شاید پاکستان کو اڑی میں شرارت کرنے پر اُکسایا۔
مودی نے وہی کیا جو وہ دہشت گردی کے سلسلہ میں وزیر بننے سے قبل کہتے چلے آرہے تھے۔ چنانچہ اُمید کے برخلاف جب ہندوستان نے پاکستان کو جواب دیا تو پاکستانی نظام سناٹے میںآگیا۔ پہلا ردِ عمل تو یہ ہوا کہ ادھر سے یہ اعلان ہوا کہ یہ تو ہوا ہی نہیں یعنی ہندوستانی فوجی پاکستانی سرحد میں نہیں آئے۔ پاکستان کے پاس اس کے علاوہ چارہ ہی کیا تھا کہ وہ سرے سے جھوٹ بولے کیونکہ اگر وہ جھوٹ نہیں بولتا اور تسلیم کرتا تو پھر اس کو ہندوستان کے خلاف اپنی نیو کلیر دھمکی استعمال کرنی پڑتی۔ پاکستانی نظام اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ وہ نیوکلیئر ہتھیار کا استعمال نہیں کرسکتا آخر وہ کیوں؟۔
پاکستانی نظام ابھی بھی ایسے ہاتھوں میں ہے جن کو اس بات کا اندازہ ہے کہ نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے کے خود ان کے لئے کیا نتائج ہوں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کوئی دوسری جنگ عظیم کی طرح نہیں ہے کہ امریکہ اپنے ملک سے لاکھوں میل کی دوری پر جاکر جاپان پر ایٹم بم گرادے اور اس کے اثرات امریکہ پر نہ ہوں۔ ہند ۔ پاک کی تاریخ یہ ہے کہ مشکل سے ابھی 70برس قبل یہ دونوں ملک ایک تھے، بھلے ہی بٹوارے نے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدیں کھینچ دی ہوں، لیکن ابھی بھی یہ حال ہے کہ کشمیر میں اڑی پاکستانی سرحد سے تین کلو میٹر دور ہے اگر پاکستان ہندوستان پر نیوکلیئر ہتھیار گراتا ہے اور یہاں تباہی ہوتی ہے تو خود پاکستانی عوام بھی اس تباہی سے محفوظ نہیں رہیں گے، اور پھر کیا ہم نیو کلیئر ہتھیار کا استعمال نہیں کریں گے؟ پاکستانی فوج اور نواز شریف دونوں یہ بخوبی سمجھتے ہیں اس لئے کم از کم ابھی پاکستانی نظام ہندوستان کے خلاف باقاعدہ جنگ پر آمادہ نہیں ہونا چاہیئے۔
اب پاکستانی نظام محض فوجی جنرلوں اور نواز شریف جیسے سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ پاکستانی نظام کا تیسرا جز جہادی عناصر ہیں جوہوش سے زیادہ جوش سے کام لیتے ہیں۔ یہ عناصر ہندوستان دشمنی پر ہی زندہ ہیں، اگر وہ ہندوستان کے آگے دب گیا تو پھر اس کا کوئی مصرف ہی نہیں ۔ ان حالات میں پاکستانی نظام کے جہادی عناصربھلے ہی ابھی خاموش ہوں اور جھوٹ بول کر اپنی عزت بچانے کی کوشش کرے لیکن ان عناصر میں ہندوستان کے خلاف بے چینی ہوگی۔
یہی وہی عناصر ہیں جو ہندوستان میں دہشت گرد حملے کرواتے ہیں۔ لہذا آنے والے وقتوں میں پاکستان کی جانب سے کسی دوسرے دہشت گرد حملے کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے واضح کردیا ہے کہ اگر پاکستان نے شرارت کی تو ہم منہ توڑ جواب دیں گے بھلے جنگ ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے ابھی فی الحال ہندو پاک جنگ ٹل جائے لیکن مودی کے دور حکومت میں ہند ۔ پاک جنگ کا خطر ہ مستقل منڈلاتا رہے گا۔
سیاسی اعتبار سے یہ نریندر مودی کے حق میں بھی ہے، پچھلے کچھ عرصہ میں مودی کی ساکھ پر جو اثر پڑا تھا پاکستان ایکشن نے وہ سب دھودیا اور مودی اسوقت پھر سے ہندوستانی عوام کے ہیروہیں۔ کہیں جنگ ہوتی ہے تو پھر مودی کا قد اندرا گاندھی جیسا ہوگا اور وہ فوراً ضمنی لوک سبھا چناؤ کرواکر پانچ سال کے لئے دوبارہ اقتدار پر قابض ہوجائیں گے۔ اس دور میں کس سیاستدان کو اقتدار کی فکر نہیں ہے خواہ وہ کیسے ہی حاصل ہو، توبھلا مودی جنگ سے کیوں ڈریں گے۔ یہ شاعروں کا کام ہے کہ وہ شریف انسانوں کو ساحر لدھیانوی کی طرح یہ آگاہ کریں کہ:۔
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
سیاستداں اقتدار اور ذاتی مفاد کی سیاست کرتے ہیں اس لئے مودی دور حکومت کے دوران ہند۔ پاک جنگ کے خطرات مستقل منڈلاتے رہیں گے۔ مودی نے یہ واضح کردیا کہ وہ منموہن سنگھ نہیں ہیں، اگر پاکستان کی جانب سے ذراسی بھی چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے تو پھر مودی انتہا تک جانے کو تیار ہیں۔ بھلے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ فی الحال انگریزی محاورے کے مطابق ’ بال پاکستان کے پالے میں ہے، دیکھیں وہ کیا کرتا ہے۔‘ اس لئے اب ایکشن 2 کا انتظار کیجئے اور دیکھئے آگے آگے ہوتا ہے کیا…؟
روزنامہ سیاست، حیدرآباد، انڈیا
♥