تین طلاق کے نام پر خواتین کی زندگیوں سے کھلواڑ نہیں ہونے دیا جائے گا

19474813_303

نیا زمانہ رپورٹ

انڈیا میں ان دنوں یکساں سول قانون کے لیے راہ ہموار کرنے کی مہم جاری ہے جس کی مسلمان شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ ہندوستان کا آئین سیکولر ہے جس کے رہنما اصول میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ہندوستان میں تمام مذاہب کے لیے ایک ہی سول قانون نافذ کیا جائے لیکن ابھی تک اس پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔

بھارت میں مسلمانوں، مسیحیوں اور ہندوؤں کو قانونی اور آئینی طور پر حاصل اسی مذہبی آزادی کی وجہ سے یہ اجازت ہے کہ وہ اپنے خاندانی معاملات اور نجی قانونی مسائل کو اپنے اپنے مذہب کے احکامات اور ضوابط کی روشنی میں حل کر سکیں۔ ان ضوابط میں مسلم مردوں کو اپنی بیویوں کو ایک ہی وقت میں تین بار طلاق دے سکنے کا حق بھی شامل ہے۔ اس حق کا کئی بھارتی مرد استعمال بھی کرتے ہیں لیکن بہت سی بھارتی مسلم خواتین کو اس پر شدید تحفظات بھی ہیں۔

بھارتی مسلمانوں میں یک دم تین طلاق کی روایت کو حالیہ برسوں میں کئی بار قانونی چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑا، جس پر مودی حکومت نے کہا کہ وہ اس حوالے سے مختلف قوانین کو ایک ایسے یکساں نوعیت کے سول ضابطے کے ساتھ بدل دینا چاہتی ہے، جسے ملکی آبادی میں تمام مذاہب کے شہریوں پر لاگو کیا جا سکے۔

بھارت میں مسلم خواتین کی جانب سے تین طلاقوں اور یکطرفہ طلاق کے سوال پر بھارت کی عدالت عظمی میں کئی درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔عدالت نے ان سوالوں پر حکومت کی رائے جاننی چاہی تھی جس پر حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ بیوی کو ایک ہی بار میں تین طلاقیں دینے، نکاح، حلالہ اور ایک سے زیادہ شادیوں کا چلن آئین کی رو سے جنسی مساوات کےاصول اور خواتین کے وقار کے منافی ہے اس لیے ان تفریقی طریقوں کو ختم کردیا جانا چاہیے۔

بھارت کی حکومت نے پہلی بار اس اہم سوال پر ایک واضح موقف اختیار کیا ہے جس کی خواتین تنظیموں نے تعریف کی ہے ۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ جس معاشرے میں جنس کی بنیاد پر تفریق برتی جاتی ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔یاد رہے کہ بی جے پی نے بھی اس ایشو کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا تھا اور دیگر ہندو جماعتیں بھی اس کے حق میں نظر آتی ہیں لیکن مسلمانوں کی مذہبی تنظیمیں اس کی شدید مخالفت کر رہی ہیں اور اسے مذہب میں مداخلت کے مترادف قرار دے رہی ہیں۔

تین طلاق کے جاری مباحثے میں شامل ہوتے ہوئے وزیر اعظم نریندرمودی نے تین طلاق کی سختی کے ساتھ مخالفت اور اسی سانس میں ہندؤ سماج میں مادر رحم میں لڑکیوں کے قتل کے بڑھتے واقعات پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

اترپردیش کے بوندیل کھنڈگاؤں میں مہاپریورتن ریالی سے خطاب کے دوران نریند ر مودی نے کہاکہ اب مسئلہ طلاق ہے جس طرح اگر کوئی ہندو مادر رحم میں لڑکی کاقتل کرتا ہے تو اس جیل بھیجنا ضروری ہے تو اسکو کیا سزا دینا چاہئے جو میری مسلم بہنوں کو کوئی فون پر طلاق کہہ کر ان کی زندگی برباد کردیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’میری مسلمان بہنوں نے کیا گناہ کیا ہے کہ ٹیلی فون پر بھی انہیں تین بار طلاق کا لفظ کہہ کر ان کی پوری زندگی برباد کر دی جائے‘‘ ۔

نریندر مودی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلمان خواتین کے حقوق کی بحالی کو یقینی بنانا ان کی حکومت کا ایک اہم فریضہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جب بات خواتین کے احترام اور حفاظت کی ہو تو ہمیں کسی مذہب کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ انتخابات اور سیاست کو ایک طرف رکھا جانا چاہیے۔ مسلمان خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی اپنے حقوق حاصل کریں‘‘۔

ٹی وی چینلز پر تین طلاق کے مسئلے پر بحث کے ذریعہ اس کو ہندو بامقابل مسلم او ربی جے پی بامقابل دوسری سیاسی جماعت تنازعہ بنانے سے باز رہنے کامشورہ دیتے ہوئے مودی نے کہاکہ سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے اپنے حلف نامے میں مرکزی حکومت نے اپنے موقف میں بتادیا ہے کہ خواتین پر مظالم کے کسی بھی واقعہ کوہم برداشت نہیں کریں گے اور مذہب کے نام پر استحصال ہمیں قابلِ قبول نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ جمہوریت میں مذاکرات ضروری ہیں اور اس ضمن میں حکومت نے پہل کی ہے اور جو لوگ تین طلاق کے مسئلے کو قبول نہیں کررہے ہیں وہ ملک میں عوام کوبھڑکانے کاکام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ تین طلاق کے نام پر مسلم خواتین کی زندگیوں سے کھلواڑ ہمیں منظور نہیں ہے۔

خیال رہے کہ اپوزیشن جماعت کانگریس نے صرف مودی حکومت کی مخالفت کے لیے یکساں سول کوڈ کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہمسلمانوں کے مذہبی جذبات سے نہ کھیلا جائے۔بھارت کے صدر پرنب مکرجی نے کہا کہ ہندوستان کو اپنے تکثیری و کثیر ثقافتی معاشرتی نظام کا جشن منانا چاہئے اور اسے ایک ہی تہذیب پر مبنی واحد طبی معاشرہ میں تبدیل کرنے کی مصنوعی کوششیں نہیں ہونی چاہئیں۔

مودی نے اپنی تقریر کے دوران جلسہ گا ہ میں موجود عوام سے مودی نے سوال کیاکہ ’’ کیامسلم خواتین کے حقوق کاتحفظ نہیں ہوناچاہئے اور کیا انہیں بھی یکساں حقوق فراہم کئے جانے چاہئے یا نہیں؟۔انہوں نے کہاکہ میں حیران ہوں اس ملک کی چند سیاسی جماعتیں ووٹ بینک کی ہوس میں اکیسویں صدی میں بھی اس بات پرتلے ہوئے ہیں کہ یہ اقدام خواتین کے ساتھ ناانصافی کے متراد ف ہے۔

انہوں نے کہاکہ یہ قسم کا انصاف ہے؟۔انہوں نے کہاکہ سیاست او رانتخابات اپنی جگہ ہیں مگر مسلم خواتین کو دستور کے مطابق ان کے حقوق ملنے چاہئے اور اس کی ذمہ داری حکومت او رعوام پر عائد ہوتی ہے۔

دوسری طرف یہی مسلمان جب مغربی ممالک میں رہائش پذیر ہوتےہیں تو نہ صرف سیکولرازم کے فوائد اٹھاتے ہیں بلکہ یونیفارم سول کوڈ پر بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔تجزیہ نگاروںکا خیال ہے کہ اگر یکساں سول کوڈ نافذ ہوجاتا ہے تو اسے مسلمان مذہبی تنظیموںکی سیاست کافی حد تک ختم ہو جائے گی اس لیے وہ اس کے خلاف ہیں جبکہ کانگریس صرف اور صرف مودی حکومت کی مخالفت میں مسلمان مذہبی انتہاپسندوں کی حمایت کر رہی ہے۔

بھارت میں مسلمان انتہائی پسماندگی کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ وہاں کی مسلمان تنظیمیں ہیں جو مذہب کے نام پر ان کی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے سرسید احمد خان نے بھی مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے تھے جس پر انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

یاد رہےکہ پاکستان میں تین طلاق کا قانون ختم کیا جا چکا ہے۔ جنرل ایوب خان نے 1961 میں عائلی قوانین نافذ کیے تھے جس کی رو سے یک دم یا ٹیلی فون پر تین طلاق نہیں دی جا سکتی اس کے لیے عدالتی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے ۔ اس وقت علما نے اس کی مخالفت کی تھی مگر روشن خیال مذہبی سکالرز نے اس کی حمایت کی تھی ۔مگر اس کے باوجود اس پر عمل درآمد کم ہوتا ہے لیکن اب بدلتے حالات کے ساتھ خواتین میں بھی شعور بڑھ رہا ہے اور اس طریقہ پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔

One Comment