ظلم رہے اور امن بھی ہو،کیا  ممکن  ہے؟ تم ہی کہو

asif-javaid4-252x300

آصف جاوید

قارئین اکرام   ہم یہ بحث بعد میں کریں گے  کہ  علمی اصطلاح  میں امن کسی کہتے ہیں؟  مگر میرے وطن پاکستان میں ایک لاش سے دوسری لاش گرنے تک کے وقفے کو امن  کہا جاتا ہے۔ ۔   بات اگر کراچی کی کریں تو  یہ لطیفہ ہرگز نہیں ہے کہ  کسی نے کراچی کے ایک شہری سے کسی نے  پوچھا کہ امن و سکون کسے کہتے ہیں؟؟  تو وہ بولا کہ بھائی مجھے نہیں معلوم، میں تو خود کراچی میں رہتا ہوں۔ آپ کسی  دوسرے شہر کے رہنے والے سے  سے پتہ کریں۔

ریاست کے زرخرید میڈیا، ریاستی  اداروں  اور وزارت داخلہ  کی زبان یہ کہتے نہیں تھکتی کہ ہم نے کراچی میں  دیرپا امن قائم کردیا ہے۔  ستم ظریفی دیکھئے کہ  مساوی شہری حقوق  اور بنیادی  انسانی حقوق  سے محروم شہری سندھ کے  عوام  کی  جبری زبان بندی کو امن کا نام دیا  جارہا ہے۔  سندھ کے شہری علاقوں کے عوام 1972 سے  ناجائز  شہری و دیہی کوٹہ سسٹم ،  امتیازی سلوک، نفرت ، تعصّب  اور ریاستی ظلم و جبر کا شکار ہیں۔  اور جمہوری طریقوں سے اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ مگر ریاست ان کی جمہوری جدوجہد کو اپنی ریاستی طاقت کے ذریعے کچلنے اور  بندوق کی نوک پر حقوق کے لئے بلند ہونے والی آوازوں کے دبانے کے عمل کو امن  و امان کہ کر معصوم عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔

میری ناقص رائے میں امن  بندوق کی نوک پر زباں بندی کا نام نہیں ہے، بلکہ امن سماجی انصاف ، وسائل اور اقتدار میں منصفانہ شراکت داری کا  نام ہے۔ دراصل  امن  ایک سماجی کیفیت اور سماجی  علامت  کا نام ہے۔ جب ہمارے چاروں طرف خوف کے بادل نہ چھائے ہوں، ہم اندر سے ڈرے ہوئے اور خوف زدہ نہ ہوں  تو ہم اس کیفیت  کو  ہم امن کہہ سکتے ہیں ۔

  جب معاشرے میں سکون ہوگا، کوئی خوف نہیں ہوگا، فضا مجموعی طور پر خوش گوار ہوگی،    عدل و انصاف ہوگا، مساوات ہوگی، بنیادی انسانی ضروریات  پوری ہورہی ہوں گی،  ریاست  اپنی عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کررہی ہوگی۔ ریاست اپنی عوام کو معیاری تعلیم اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کررہی  ہوگی۔ ریاست ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے انفراسٹرکچر قائم کررہی ہوگی۔ اسکول، کالج، کلینک، اسپتال قائم کررہی ہوگی۔ انصاف کی فراہمی کے لئے عدالتیں قائم کرہی ہوگی۔  جہالت، غربت، بھوک و افلاس، و بیماری کا خاتمہ کررہی ہوگی۔  بھوکے کے پیٹ میں روٹی، ننگے کے جسم پر  کپڑا،  بے آسرا کے سر پر چھت دے رہی  ہوگی۔

تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ریاست ملک میں  پائیدار  امن و امان قائم کرنے کے لئے اپنے فرائض  تندہی سے پورے کررہی ہے ۔  اور ایسی حالت میں معاشرہ  نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو خوش و خرّم اور   آسودہ ، مطمئن  محسوس کرے گا، اور  اس کا مطلب یہ ہوگا کہ  معاشرے میں  دیرپا  امن  ہے۔ لہذا طے پایا کہ  امن و امان بندوق کی نوک پر نہیں،  بلکہ ریاست کی طرف سے سماجی ذمّہ داریوں کی  انجام دہی کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔

 سماجی  علوم کے ماہرین نے امن کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔

امن، سماج کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں سماج  کے تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پر تشدّد اختلافات کے، مفاہمانہ طور پر  چل رہے ہوں۔ امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدّد کی غیر موجودگی یا پھر صحت مند، مثبت بین الاقوامی یا بین الانسانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں معاشرے کے تمام افراد کو سماجی و معاشی مساوات، عدل و انصاف،  اور  بنیادی انسانی حقوق، بنیادی شہری سہولتیں اور بنیادی سیاسی حقوق و تحفظ حاصل ہوتے ہیں۔

بین الاقوامی تعلقات میں، امن کا دور اختلافات یا جنگ کی صورتحال کی غیر موجودگی سے تعبیر ہے۔ امن   کی غیر موجودگی ہی  امن کے اسباب کی  نشاندہی کرتی ہے۔ عمومی طور پر امن تباہ کرنے میں   احساسِ  محرومی،   سماجی و معاشی عدم تحفظ،  ڈر و خوف، سماجی بگاڑ، معاشی  و سماجی عدم مساوات، غیر متوازن سیاسی حالت، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی ، شدّت پرستی، معاشرتی تفاوت، یکساں شہری حقوق سے محرومی، بھوک و افلاس،  جہالت و بیماری،  عدل و انصاف کا قتل جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔

امن کی عمومی تعریف میں کئی معنی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر امن کو تحفظ، بہتری، آزادی، دفاع، قسمت اور فلاح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انفرادی طور پر امن سے مراد تشدّد سے خالی ایک ایسی طرز زندگی کا تصور لیا جاتا ہے جس کی خصوصیات میں افراد کا ادب، انصاف اور عمدہ نیت مراد لی جاتی ہے۔معاشرے میں انفرادی طور پر امن کی حالت ہر فرد پر یکساں لاگو ہوتی ہے، جبکہ مجموعی طور پر کسی بھی خطے کا پورا معاشرہ مراد لیا جاتا ہے۔“۔

ریاستِ پاکستان کو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اگر واقعی پورے ملک اور خاص کر کراچی اور بلوچستان میں امن قائم کرنا ہے تو، بندوق کی نوک پر  معصوم و محروم بلکتے ہوئے عوام کی زباں بندی کروا کر نہیں، بلکہ سماجی  ذمّہ داریوں کو پورا کرکے ہی معاشرے میں دیرپا امن قائم کیا جا سکتا ہے۔  کراچی اور بلوچستان کے عوام کو بلا امتیاز سماجی انصاف،  مساوی شہری حقوق  اور  وسائل و اقتدار میں منصفانہ شرکت   کی فراہمی ہی ریاست کی اصل  سماجی ذمّہ داری ہے۔  ورنہ بندوق کی نوک پر ریاست جو امن قائم کررہی ہے وہ دراصل قبرستان  میں مُردوں پر امن   قائم کرنے کے مترادف ہے۔

کیونکہ صرف  مُردے  سماجی ضروریات کو پورا کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے،  زندہ انسان اپنی سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے  مطالبات بھی کرتے ہیں اور احتجاج بھی اور جدوجہد بھی۔ ۔ لہذا زندہ انسانوں کی  سماجی ضروریات پوری  کی جائیں،  بندوق کی نوک پر ان سے جدوجہد اور  احتجاج کا آئینی و قانونی حق نہ چھینا جائے۔ وما علینا الالبلاغ

Comments are closed.