ایک
انڈین گیت ہے
’’سب کچھ لٹاکے ہوش میں آئے تو کیا کیا‘‘
بلاشبہ سب کچھ لٹ گیا ہے مگر۔۔۔ایک۔۔ آخر میں ہی سہی۔۔ہوش تو ہاتھ آگیا ہے آیئے اس ہوش سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے لئے نیا منصوبہ بناکر اس پر آج اور ابھی سے عمل کا آغاز کرتے ہیں۔
ایک طبقاتی سماج انسان کو وقتاً فوقتاً یاد دلاتا رہتا ہے کہ ذاتی ملکیت کے حصول میں ہی اس کی بقاء،ترقی اور خوشحالی مضمر ہے چنانچہ یہ احساس اسے زیادہ سے زیادہ کے حصول پر آمادہ رکھتا ہے اور پھر وہ اس کے لئے منصوبہ بناتا ہے۔
ایک گھر میں ایک سربراہ خاندان نے بیوی، بیٹوں اور بیٹیوں کو ایک چھت کے نیچے رکھا ہوتا ہے یہ اس کا حال، مستقبل اور حفاظت ہوتی ہے یہی بچے بڑے ہوتے ہیں شادیاں ہوتی ہیں۔
جائیداد کی تقسیم کا مرحلہ آتا ہے۔
تو زیادہ سے زیادہ کا حصول ان بھائیوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کردیتا ہے چنانچہ کہیں دو بھائی ایک کے خلاف اکٹھ کرلیتے ہیں اور کہیں پر سمجھوتہ پر زندگی کی گاڑی چلتی ہے۔
یا پھر دو یا تین بھائی ملکر ایک کو نشے کا عادی بنادیتے ہیں۔
یااس کے ہاتھ میں بندوق دے کر لڑاتے رہتے ہیں اس کو شاباش ملتی ہے اور ان کو اس کی جائیداد اور جنگ اور جدوجہد کا صلہ ملتا رہتا ہے۔
ایک ملک میں بھی یہی ہوتا ہے
زیادہ ہوشیار اور چالاک قوم چھوٹی اور کم زور قوموں کے وسائل اپنے تصرف میں لاتی ہے قومی استحصال ہوتا ہے تو کمزور قوم کے عوام اپنے اختیارات اور وسائل اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے تگ و دو شروع کر دیتے ہیں تب بالادست قوم کمزور قوم کے پڑھے لکھے اور بااختیار طبقات کو ساتھ ملا لیتی ہے۔
اور باقی افراد کو افیون اور خواب آور گولیاں کھلانے لگتی ہے۔
ایک مالک بھی اپنا اور اپنے بچوں کی زندگی کے لئے پروگرام بناتا ہے اسے اپنا مفاد سب سے زیادہ عزیز ہوتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہی اسے زندگی اور سہولت کی ضمانت دیتا ہے وہ کاروبار شروع کرتا ہے اسے بڑھاؤا دینے کے لئے نوکر رکھتا ہے ان نوکروں کو وہ پیسہ کمانے کے گر نہیں صبر کے درس دیتا ہے لاعلم ، بے خبراور بے وقوف رکھتا ہے۔
بعض والدین اپنے بچوں کو دو پیسے کمانے کی خاطر چھوٹی عمر ہی میں کام پر بھیجنے لگتے ہیں بلاشبہ یہ معاشی جبر ان کو مجبور کرتا ہے ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتا ہے یا پھر ان کی نظروں سے اپنے بچوں کا مستقبل اوجھل ہوتا ہے۔
ایک کنبہ میں شوہر اہلیہ اور بچوں کو مارتا پیٹتا رہتا ہے کیونکہ اس نے یہی سیکھا ہے کہ اس عمل سے بیوی تابعدار اور بچے فرمانبردار رہتے ہیں ۔
ایک جاگیردار دیہہ میں ان رسموں،رواجوں ،روایتوں ،توہمات اور ثقافت کو فروغ دیتا ہے جن کا نتیجہ محنتی اور صابر کھیت مزدور کی صورت میں برآمد ہوتا ہو۔
مالک، باپ،شوہر،جاگیردار اور بالادست قوم اپنے ان افعال کو چالاک شکاری کا جال سمجھتے ہوئے خوش اور مطمئن بھی ہوتے ہیں۔
چنانچہ یہ استحصال بھی کرتے ہیں اور ان کوافراد کی اہمیت اور ضرورت کا احساس بھی ہوتا ہے اس لئے کہ ایک باپ کا ہمسایہ سے تنازعہ چلتا ہے تو اسے اپنی بیوی اور بچوں کی ضرورت ہوتی ہے مالک کو پڑوسی کی دست برد سے بچنا ہے جاگیردار کو قریبی جاگیردار سے خطرہ ہے اور بالادست قوم کو ہمسایہ ممالک سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے ۔
ہم اپنی روزمرہ بات چیت میں بالادست طبقے ، قوم، مالک، رہنماء اور حتیٰ کہ عام شہریوں کے قول و فعل میں بھی تضاد کا گلہ کرتے رہتے ہیں یہ تضاد اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ یہی افراد ایک جانب ہمیں اپنابھائی کہتے ہیں ، اتفاق، اتحاد اور بھائی چارے کا درس اوراس پرزور دیتے ہیں اور ساتھ ہی ہمارا استحصال بھی کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں بالادست قوم ایک جانب استحصال میں مصروف ہے اور ہمسایہ ریاستوں سے حملے کے خدشات کا اظہار کرکے ان سب کو اتفاق اور اتحاد کا درس بھی دیتی رہتی ہے۔
پاکستان کے ایک یا دو حصے ترقی یافتہ ، کچھ پس ماندہ اور بعض انتہائی غریب اور بد حال ہیں تو یہ اسی منافقانہ سیاست کا پرتو ہے۔
پختونخوا،بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی اور اس کے خلاف کارروائیوں سے دہشت زدہ اس کے صاحب حیثیت طبقات نے اسلام آباد اورلاہور کے لئے رخت سفر باندھ لیا تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان امریکہ، برطانیہ اور ترقی یافتہ ممالک چلا گیا ہے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک طبقہ ان بنیادوں کو کھوکھلا کررہا ہے جس پر ایک ملک قائم و دائم ہوتا ہے ہمارانوجوان مایوسی کا شکار ہے اورقوموں میں احساس محرومی کے احساسات گہرے ہوتے جارہے ہیں ان کا حل نہ نکالا گیا تو مستقبل قریب میں ہمیں حب الوطن شہری ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے۔
باپ، شوہر،مالک، جاگیردار اور حاکم طبقہ اپنی کھال میں خوش ہے وہ یہ بھول گیا ہے یا نہیں جانتا ہے کہ ایک ملازم مالک کا نوکر ہونے کے ساتھ ساتھ اس ریاست کا شہری بھی ہوتا ہے اسی طرح ایک بچہ، بیوی،دیہاتی اور قومیت بھی اس ملک کے اندر اس کا حصہ ہی ہوتے ہیں ۔
یہ سب کچھ جانے یا انجانے میں کیا جاتا ہے یا اس کی وجہ ذاتی ملکیت کی حرص ہے جو بھی ہے مگریہ خیالات اور تصورات نقصان دہ ہیں۔
ویسے تو جاگیردار طبقہ پہلے بھی مضبوط اور مستحکم تھا مگر قیام پاکستان کے بعد ارباب اختیار طبقات نے فرسودہ روایات،رواجات، رسومات، توہمات، جاگیردارانہ ثقافت،قرار داد مقاصد ، مذہبی مکتبہ فکر کی سرپرستی، زرعی اصلاحات اور صنعت کاری کی طرف سے اغماض، سیاسی سرگرمیوں اور صحافت پر پابندیوں ، ریاستی اداروں کی انفعالیت ، جمہوریت اور جمہور کی زبان بندی ، چھوٹے صوبوں کے استحصال اور ہمسایہ ممالک سے کھچاؤ کی پالیسی کے ذریعے اس کو مزید مضبوط کردیا جس سے ملک کی مجموعی اور ہمہ جہت ترقی کے راستے مسدود ہوگئے۔
علاوہ ازیں، عوام کو نجات دہندہ کی تلاش پر لگا دیا گیا مگر خود حاکم طبقہ بھی رفتہ رفتہ بیرونی امدادکا عادی ہوتا چلا گیا آج صورت حال یہ ہے کہ ہم بیرونی امداد کے عادی ہو چکے ہیں ہم زلزلہ اور سیلاب کی آمد کے منتظر رہتے ہیں پاک چینہ اکنامک کوریڈور سے توقعات وابستہ کررکھی ہیں زرمبادلہ کی خاطر زیادہ سے زیادہ افرادی قوت کو باہر بھیجنے کی وکالت کرتے ہیں غیر قانونی ذرائع سے پیسہ کا حصول اور راتوں رات امیر بننے کی تگ و دو نے سب کچھ تلپٹ کردیا ہے۔
پختونخوا،قبائلی علاقہ جات ،بلوچستان اور اندرون سندھ میں قدیم اور فرسودہ قبائلی اورجاگیردارانہ نظام اور قومی استحصال کے تسلسل کا نتیجہ جہالت، انتہاپسندی،باہمی تنازعات، غربت اوربے روزگاری میں ملنے لگا ہے ہمسایہ ریاستوں کے معاملات میں مداخلت نے دہشت گردوں کو ملک کے اندر آنے اور پاؤں جمانے کے مواقع فراہم کردئیے ہیں طاقت کے بے جا استعمال نے پہلے سے موجود احساس محرومی کو مزید تقویت دے دی ہے اور الزامات اور جوابی الزامات نے پوری فضا کو زہر آلود اور مکدر کیا ہوا ہے۔
نئی مملکت میں اکثریت کو بے خبر، جاہل اور ذہنی طور پر پس ماندہ رکھا گیا اقلیت زندگی کی تمام سہولیات اور اختیارات حاصل کرنے میں لگی ہوئی ہے حاکم اور محکوم کے مابین شکوک و شبہا ت کی حائل خلیج گہری ہوتی جارہی ہے قبائل کو یہ احساس کھائے جارہا ہے کہ دہشت گردی کو قبائلی علاقہ جات سے جوڑ کر ان کی ملک سے وفادار ی پر شکوک کا اظہار کیا جاتا ہے چنانچہ وہ صبح و شام اپنے دلائل اور ثبوت کے لئے کشمیر جنگ کے حوالے دیتے رہتے ہیں ایم کیو ایم کوجاسوسی کے الزامات کا سامنا ہے بلوچ اپنے حقوق کے لئے صدا بلند کرتے ہوئے گھبراتا ہے کہ مبادا اس کو کسی بیرونی ملک کا ایجنٹ یا دہشت گردوں کی فہرست میں نہ لکھ لیا جائے ایک عجیب کھچڑی پکی ہوئی ہے اور عوام اس پیش گوئی کا حوالہ دے کر خود کو مطمئن کرتے رہتے ہیں کہ ایک ایسا بھی زمانہ آئے گا جب مرنے والے کو پتہ نہیں ہوگا کہ بھلا اس کا کیا قصور ہے اور مارنے والا بھی اس حقیقت سے بے خبر ہوگا کہ وہ کیوں قتل و غارت میں ملوث ہے۔
ہمسایہ ممالک کے معاملات میں مداخلت ، عسکریت پسندوں کی پرورش و پرداخت، دہشت گردی کے واقعات اور طالع آزماؤں کے شب خون نے عدم تحفظ کے ایسے گہرے احساسات پیدا کردئیے کہ بیرون ممالک کا سرمایہ کار آتے ہوئے اپنے ساتھ سو طرح کے خدشات لاتا ہے اور ملکی سرمایہ دار بچا کھچا سرمایہ بیرون ممالک منتقل کرنے میں لگا ہوا ہے حالانکہ عصر حاضر میں یہی وہ طبقہ ہے جو کہ ایک ملک میں نیا نظام متعارف کراتاہے۔
بلاشبہ، جاگیردارانہ کی مانند سرمایہ دارانہ نظام بھی محنت کشوں کے استحصال پر استوار ہوتا ہے تاہم آج کے دور میں سرمایہ دار طبقہ ہی جدیدیت،سائنس اور ٹیکنالوجی کا خواہاں نظر آتاہے جبکہ اس نظام نے ایک کارخانہ میں مزدور کو اکھٹا کرکے اس کو اپنی اجتماعی طاقت اورالگ طبقہ کا احساس دیا ٹریڈ یونین سازی کا حق دیا بادشاہت اور شخصی حکومت سے نجات دلاکر اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا موقع دیا ووٹ اور جمہوریت کے ذریعہ ان کو اقتدار میں شراکت کا احساس دلایا سیاست میں بھی ملوث کردیا اسی دور میں تعلیم دربار اور محلات سے نکل کر بازاروں اور دیہات تک پہنچ گئی تحقیق اور جستجو کے لئے راہیں کھل گئیں تعلیم اور تحقیق کی ضرورت پیدا ہوئی تعلیم اور محنت کے ذریعہ ایک کم ذات شہری کو اعلیٰ عہدے اور ترقی کے مواقع میسر ہوگئے پیشوں کی قدر و قیمت پیدا ہوئی اور ساتھ ہی چھوٹی قوموں میں بھی بیداری آئی ۔
ہماری68برسوں پر محیط تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کو مضبوط و مستحکم کیا گیا یہاں صحافت کو بیڑیاں پہنائی گئیں سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا فلم اور جدید ثقافت کو مغربی تہذیب کا نام دے کر اس سے عوام کو دور دور رکھا گیا ماضی کو شاندار بناکر پیش کرنے کی روایت کو پروان چڑھایا گیا اذہان کو ہمسایہ ممالک کے خلاف نفرت سے بھرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا سرکاری موقف سے اختلاف رکھنے والے دانشوروں اور سیاست دانوں کو بیرون ممالک کے ایجنٹ اور غدار کہنے سے دریغ نہیں کیا گیا نئے تصورات کو ملک کے خلاف سازش کا نام دیا گیا۔
بالادستی کی سیاست اور اس کی بنیاد پر بننے والے منصوبوں اور پالیسیوں نے نااتفاقی اور انتشار کو ہماری پہچان بنادیا ہے ملک کومسائل درپیش ہوں دہشت گردی ہو یا قدرتی اور انسانی آفات کسی سے اجتماعی طور پر نمٹنے کی صلاحیت کھوچکے ہیں ایک پنجاب کے علاوہ تمام ملک مصائب سے دوچار ہے پختونخوا میں دہشت گردی ہے بلوچستان میں بلوچ اغوا ء ہورہے ہیں کراچی میں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ سے شہری پریشان ہیں۔
انصاف اور حقوق کا نام و نشان نہیں ہے اور اتفاق و اتحاد کی دعوت دی جاتی ہے ہاتھ میں بندوق سامنے سینے کی جانب تھام رکھی ہوئی ہے اور گلے ملنے کے اشارے بھی دئیے جاتے ہیں منہ میں رام رام کا کلمہ ہے اور بغل میں چھر ی بھی چھپا رکھی ہوئی ہے۔
یہ ایک سیدھی سادہ حقیقت ہے کہ ایک خاندان کا سربراہ ترقی کا متمنی ہوتاہے تو وہ اس کے تمام افراد کو متحرک کرنے کے منصوبے بناتا ہے وہ اپنے بیٹوں کو معیاری تعلیمی اداروں میں داخل کراتا ہے ان میں تفریق اور امتیاز نہیں کرتا ہے ان کی جملہ ضروریات کا خیال رکھنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے ان کو اپنے خیالات اور آراء کی آزادی دیتا ہے گھریلو معاملات میں مشورے دینے کا حوصلہ دیتا ہے اور ایسا ماحول فراہم کرنے کی سعی کرتا ہے جس سے ان کی خفتہ صلاحیتوں کونکھار کے مواقع میسر ہوں اس کے ساتھ ہی وہ اپنی بیوی اوربیٹیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتا ہے تو اس کنبہ کی صورت حال اس سے یقیناًالگ تھلگ ہوگی جہاں تحقیق و جستجو کو ایمان کا زیان، اظہار رائے کی آزادی کو آداب محفل کی خلاف ورزی ، تنقید اور بحث مباحثہ کو بیرون ممالک کے لئے جاسوسی کا نام دیا جاتا ہو۔
ایک ملک کے حکمران اور بالادست طبقات اس کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو اس میں بھی انہی اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے صحافت آزاد ہوتی ہے محنت کشوں ٹریڈ یونین بناسکتے ہیں عدالتوں میں انصاف ہوتا ہے ریاستی ادارے بلاخوف و خطر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں حکمران اور ارباب اختیار اداروں اور شہریوں کو جواب دہ ہوتے ہیں نوجوانوں کو سیکھنے اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں اکثریتی یابااختیار قوم اقلیتی یا پسماندہ قوموں کا استحصال نہیں کرتی ہے ان کے جملہ حقوق کا احترام اپنا فرض سمجھتی ہے۔
جس زمانے میں بھارت کے شہروں اور دیہات میں تعلیمی ادارے زیر تعمیر تھے کالج اور یونیورسٹیاں کھولی جارہی تھیں فلموں میں جاگیرداروں کا کچا چھٹا دکھایا جارہا تھا جمہوریت ، اظہار رائے کی آزادی اور حقوق کے ذریعے سرمایہ داری نظام کے لئے بنیادیں تیار کی جارہی تھیں پاکستان میں اس کے حاکم آزادی کے ثمرات اپنی قوم تک محدود کرنے کے لئے اپنی زبان اور ثقافت چھوٹی قوموں پر تھوپ رہے تھے ترقی پسندوں اور سیاست دانوں کو پابند سلاسل کیا جارہا تھا قومی اور صوبائی حقوق کے مطالبات کرنے والوں پر غداری کے مقدمات قائم کرکے ان کی زبان بندی کردی گئی تھی عوام کو تعلیم سے دور رکھنے کے لئے اسے انگریزی مشہور کیا گیا سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی نفرت کا ماحول پیدا کیا جارہا تھا۔
ترقی یافتہ قوم نے اپنی بالادستی کے لئے نوآبادیاتی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھا اور ملک میں تنازعات کے ایک لامتناہی سلسلے کی بنیاد رکھ دی قبائلی علاقوں کو جوں کا توں رکھا گیا ان اقدامات کا بلاشبہ اس کو یہ فائدہ پہنچا کہ سرمایہ کاری چند بڑے شہروں تک ہی محدود رہی اور چھوٹی قوموں کا استحصال آسان رہا مگر ان کو دبا کر رکھنے کا نتیجہ کھینچا تانی ، احساس محرومی اور دہشت گردی کی صورت میں برآمد ہوا اور اس نے ملک کے زیادہ تر حصے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اس طرح بڑوں کی مفاداتی سیاست کا خمیازہ چھوٹی قوموں کو تو مل ہی رہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کا مجموعی نقصان ملک کو بھی پہنچ رہا ہے جبکہ یہ بات طے ہے کہ فرسودہ رویوں اور پالیسیوں کی موجودگی میں فکری،معاشی ،سیاسی اور ثقافتی ترقی نہیں ہوتی ہے۔
اگر نوجوان نسل نے موجودہ حاکم طبقے کی مانند ان ناقص پالیسیوں کا ادراک نہیں کیا اور اپنے آباؤ اجداد کی ڈگر پر چلتے رہے تو کبھی بلوچستان کے کسی کونے میں آگ بھڑک اٹھا کرے گی کبھی پختونخوا اور کبھی اس کے قبائلی علاقوں کی کسی ایجنسی میں طوفان اٹھے گا جبکہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور جدیدیت کی ہوا وہاں بھی جاپہنچی ہے جس کو نو گو ایریا اور علاقہ غیر کہ کر مجموعی ترقی کے ثمرات سے دور رکھا گیا وطن، مذہب اورآمریت کے نام پر 67برس جو کھیل کھیلا گیا وہ اب مزید نہیں چل سکتا ہے اگر ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہونا ہے تو بالادست قوم کو چھوٹے صوبے اپنے مال کی منڈیاں سمجھنے کی روش ترک کرکے اس کوترقی کی دوڑ میں شامل کرنا ہوگا تب ہی جامد پہیہ متحرک ہوگا۔
♥