انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ کے مسیحی عقیدے کے حامل گورنر کے خلاف توہینِ قرآن کے مقدمے کی کارروائی پھر سے شروع ہوئی ہے۔ منگل 27 دسمبر کو عدالت کے باہر جمع سینکڑوں مسلمان ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
گورنر بیسوکی تجہاجا پورنما، جو اپنے مختصر نام آہوک سے زیادہ جانے جاتے ہیں، چینی نژاد ہیں۔ یہ مقدمہ، جسے اس مسلم اکثریتی ملک میں مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک ٹیسٹ کیس سمجھا جا رہا ہے، شمالی جکارتہ کی ایک عدالت میں سنا جا رہا ہے۔
ججوں کے ایک پینل نے گورنر کا دفاع کرنے والے وکلاء کی جانب سے اس کیس کو ختم کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔ ان وکلاء کا موقف تھا کہ اس کیس میں نہ صرف قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ہے بلکہ یہ گورنر کے انسانی حقوق کی پامالی کے بھی مترادف ہے۔ ججوں کا منگل کے روز کہنا یہ تھا کہ گورنر کو استثنیٰ دینے کا فیصلہ عدالت کی جانب سے تمام شواہد کا اچھی طرح سے جائزہ لینے کے بعد ہی کیا جائے گا۔
تیرہ دسمبر کو ہونے والی پہلی سماعت کے دوران گورنر پورنما نے اشک بار آنکھوں کے ساتھ اس امر سے انکار کیا تھا کہ جکارتہ کی گورنر شپ کے لیے فروری میں منعقدہ انتخابات سے پہلے انتخابی مہم کے دوران اُنہوں نے قرآن کی توہین کی تھی۔
منگل کو عدالت کے باہر سفید کپڑوں میں ملبوس سینکڑوں مسلمان مظاہرین گورنر کو توہینِ قرآن پر سزائے قید دیے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ عدالت کے باہر پولیس بھی تعینات تھی۔ مظاہرے میں شریک ایک شخص نے کہا کہ ’انڈونیشیا میں توہینِ مذہب ناقابلِ قبول ہے، کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کی جانی چاہیے‘۔
عدالت کے باہر ایک چھوٹا سا ہجوم گورنر کے حامیوں کا بھی تھا، جہاں کھڑے ایک مسلمان نے نیوز ایجنسی رائٹرز کو بتایا: ’’ایک مسلمان کے طور پر مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر اُنہوں (گورنر) نے معافی مانگ لی ہے تو ہمیں اُنہیں معاف کر دینا چاہیے‘‘۔
ججوں کے پینل کی قیادت کرنے والے جج دوی آرسو بُودی سنتیارتو نے کہا کہ اگر وکلائے صفائی اس پینل کے کیس کی سماعت جاری رکھنے کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں تو وہ کسی بڑی عدالت میں جا کر اپیل کر سکتے ہیں۔ گورنر پورنما نے اپنے وکلاء کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد عدالت کو بتایا کہ وہ اس تجویز پر غور کریں گے۔
اس کیس کی سماعت کے لیے آئندہ تاریخ تین جنوری مقرر کی گئی ہے۔ تب یہ کیس سکیورٹی وجوہات کی بناء پر جکارتہ کے جنوب میں وزارتِ زراعت کے ایک آڈیٹوریم میں سنا جائے گا۔
گزشتہ مہینوں کے دوران انڈونیشیا بھر میں سخت گیر موقف کے حامل مسلمانوں کی قیادت میں نکالے جانے والے جلوسوں میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور وہیں پورنما پر توہینِ قرآن کا الزام عائد کیا گیا۔ انڈونیشیا میں توہینِ مذہب کا الزام ثابت ہونے پر پانچ سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
انڈونیشیا بھر میں سخت گیر موقف کے حامل مسلمانوں کی قیادت میں نکالے جانے والے جلوسوں میں لاکھوں افراد نے گورنر کے لیے سزا کا مطالبہ کیا ہے۔
حقوقِ انسانی کی علمبردار بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے توہینِ مذہب کے قانون کو یہ کہتے ہوئے ہدفِ تنقید بنایا ہے کہ یہ آزادیٴ اظہار کی خلاف ورزی پر مبنی ہے اور اس کا نشانہ مذہبی اقلیتیں بن رہی ہیں۔
گورنر پورنما کے حلیف سمجھے جانے والے موجودہ صدرِ مملکت جوکو وِدودو نے وضاحت کیے بغیر ’سیاسی کرداروں‘ کو ان احتجاجی مظاہروں کو ہوا دینے کا الزام دیا ہے۔
DW
♥