جھنگ میں مذہبی انتہا پسندی کی کامیابی

liaq-235x300

لیاقت علی

مسرور جھنگوی کی کامیابی سے ایک دفعہ پھر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے ۔ بلاول بھٹو نے ٹویٹ کیا کہ مسرور جھنگوی کی کامیابی سے نیشنل ایکشن پلا ن اپنی موت آپ مرگیا ہے ۔ لیکن اس بات کا بلاول کے پاس کیا جواب ہے کہ ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے سپاہ صحابہ کے ساتھ مل کر پنجاب میں مخلوط حکومت قائم کی تھی جس کے سربراہ عارف نکئی تھے اور پیپلز پارٹی کے مخدوم الطاف سنئیر وزیر۔

ویسے نیشنل ایکشن پلان دہشت گردی کو روکنے کا انتظامی بندوبست ہے نظریاتی نہیں ۔ پاکستان کی ریاست نے مذہبی انتہاپسندی کو روکنے کے لئے نظریاتی راستہ ابھی تک اختیار نہیں کیااور مستقبل قریب میں ایسا راستہ جس پر چل کر مذہبی انتہاپسندی کا نظریاتی طور پر قلع قمع ہوسکے کے اختیار کرنے کے آثار نظر نہیں آتے ۔ آج بھی ہمارانصابی سلیبس ہو یا ہمارے ریاستی ادارے وہ کسی نہ کسی حوالے سے مذہبی فرقہ پرستی ، اقلیتوں کی تذلیل اور مذہبی عناصر کو ہلا شیری دینے میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ ہمارا میڈیا جو سرکاری کنٹرول میں نہیں اور خود کو آزاد کہلاتا ہے وہ بھی مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینےاور وشن خیالی ،جمہوری اور انسانی اقدار کی نفی کرنے میں مصروف رہتا ہے۔

ویسے جھنگ گذشتہ کئی دہائیوں سے مذہبی انتہاپسندوں کے قبصے میں ہے ۔ قبل ازیں سپاہ صحابہ کے ایک سے زائد رہنما یہاں سے الیکشن جیت کر قومی اور صوبائی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں۔تکنیکی طورپر مسرور جھنگوی کسی سیاسی جماعت کا امیدوار نہیں تھا بلکہ اس نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا تھالیکن اسے اہل سنت والجماعت کی بھرپورحمایت حاصل تھی۔اہل سنت والجماعت کے رہنما مولانا احمد لدھیانوی کو لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت بھی دے دی تھی لیکن انھوں نے کمال ہوشیاری سے الیکشن سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے مسرور جھنگوی کی حمایت کا فیصلہ کیا۔

یہ بات سب ہی جانتے تھے کہ مسرور جھنگوی احمد لدھیانوی کا متبادل امیدوار ہے۔ مسرور جھنگوی کی امیدواری کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا جیسا کہ احمد لدھیانوی کی امیدواری کو الیکشن کمیشن اور بعدا زاں لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا

جھنگ کی شیعہ اور سنی سیاست کے پس پشت ٹھوس مادی وجوہات ہیں۔

جھنگ کے فیوڈل اور دیہی آبادی کا تعلق اہل تشیع مسلک سے ہے جب کہ جھنگ شہر کی آبادی کی اکثریت مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرکے آنے والوں پر مشتمل ہے جو سنی العقیدہ ہے۔۔یہ شہری آبادی کے مفادات کا یہا ں کے فیوڈل مفادات سےٹکراو ہے جو شیعہ سنی تنازعے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ 

اس سماجی اور معاشی تضاد نے شیعہ سنی تضاد کی شکل اختیار کرلی ہے۔ 1985کے غیر جماعتی الیکشن میں مولانا حق نواز جھنگوی اور محترمہ عابدہ حسین کے مابین مقابلہ ہوا تھا۔ محترمہ جھنگ کے دیہی علاقوں سے یہ الیکشن چیت گئی تھیں لیکن جھنگ شہر سے ان کو شکست ہوئی تھی۔

پاکستان میں مذہبی انتہا پسند کوئی پہلا دفعہ یہ پہلا الیکشن نہیں جیتے اس سے قبل وہ کئی الیکشن جیت چکے ہیں۔ کیا جماعت اسلامی مذہبی انتہا پسندی کے زمرے میں نہیں آتی۔ اس کے سربراہ سندھ اسمبلی کی طرف سے تبدیلی مذہب کے قانون کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں ۔لیکن ہماری تمام مین سٹریم لیڈر شپ سراج الحق کے ارد گرد پھرتی ہے۔پاکستان مذہبی انتہاپسندی اور مذہب کو اپنی مبنی بر تشدد مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے حوالے سے بہت زرخیز ہے۔اس لئے مسرور جھنگوی کی جیت پرشور و غوغا کرنے کی بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان کو کیسے ایک روشن خیال اور انسانی حقوق کا پاس دار ملک بنایا جاسکتا ہے۔

مسرورجھنگوی کی جیت پر واویلا کرنے کی بجائے مذہب کی سیاسی اور سماجی امور میں مداخلت کی مزاحمت کرنی چاہیے۔ مذہب ہر فرد کا ذاتی مسئلہ ہے کسی شخص کو کسی کے مذہبی عقیدے میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے جب تک پاکستان کی ریاست اس اصول کو نہیں مانتی مسرور جھنگوی جیت کر اسمبلیوں میں پہنچتے رہیں گے اور اعتزاز احسن جیسے لبرل اسمبلیوں میں بیٹھ کر بھی مولویوں کی خدمت کرتے رہیں گے۔

One Comment