ملک میں جمہوریت یا مودی کون طاقتور

ظفرآغا

ان دنوں سیاسی پس منظر کا جائزہ لیں تو بے ساختہ غالب کا یہ مصرعہ ’’ ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے ‘‘ یاد آتا ہے۔ آپ اس کو تماشہ نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ راہول گاندھی نے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی پر ایک جلسہ میں یہ الزام لگاتے ہیں کہ بطور وزیر اعلیٰ گجرات، مودی نے ملک کے دو بڑے سرمایہ دار گروپ سہارا اور برلا سے کروڑوں کی رشوت وصول کی اور جناب اس الزام پر سارا ملک راہول گاندھی کا مذاق اڑا رہا ہے۔

آخر اس ملک کو یہ کیا ہوگیا ہے، یہ اُلٹی گنگا کیوں بہہ رہی ہے؟۔ کیا یہ وہی ملک ہے کہ جس نے بوفورس کے معاملہ میں بغیر کسی الزام کے ثابت ہوئے راجیو گاندھی کو اقتدار سے نکال باہر کردیا تھا، ہم کو آج تک بوفورس توپ کی خریداری میں کمیشن کے الزام پر اس ملک کا جنون یاد ہے۔ یہ وہ دن تھے کہ جب صحافت کے میدان میں ہماری نوعمری تھی۔ خود ہمارا خون اسوقت راجیو گاندھی کے خلاف کھولتا تھا، ہم ہندوستان سے کرپشن دور کرنے کے لئے سارے ہندوستان میں اسوقت وی پی سنگھ ( جو راجیو گاندھی کی حکومت چھوڑ کر بوفورس معاملہ میں راجیو کے خلاف بدعنوانی کے خلاف مہم چلارہے تھے ) کے ساتھ گھومتے پھرے تھے۔ آخر اس ملک نے راجیو گاندھی کو 42 کروڑ کی چھوٹی سی رشوت کے الزام میں 1989 میں حکومت سے باہر کردیا تھا حالانکہ عدالت نے راجیو گاندھی کو اس معاملہ میں باعزت بری بھی کردیا تھا۔

بوفورس کا قصہ تو پارینہ ہوا، ابھی دو تین سال قبل جی ٹو ٹیلی کام نیلامی کے معاملہ میں منموہن سنگھ حکومت کے خلاف کیسی قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔انا ہزارے لاکھوں کا مجمع لے کر رام لیلا میدان میں اکٹھا ہوگئے تھے۔ آخر ان کی کرپشن مخالف مہم کی بناء پر سابق ٹیلی کام وزیر اے راجہ اور ٹاملناڈو کے قدآور لیڈر کروناندھی کی بیٹی کنی موزہی کو عدالت نے جیل بھیج دیا تھا اور اب جب نریندر مودی کے خلاف رشوت کا الزام لگا تو سپریم کورٹ نے مشہور وکیل  پرشانت بھوشن کو مودی کے معاملہ میں پھٹکار لگائی کہ بھائی آپ مودی کے خلاف کوئی ثبوت تو دیجئے۔

یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے اسی پرشانت بھوشن کی پی آئی ایل پرحکومت کو پھٹکار لگائی تھی کہ آپ راجہ کے خلاف انکوائری کیوں نہیں کرواتے۔ اب سپریم کورٹ کو کوئی انکوائری نہیں چاہیئے اب تو پرشانت بھوشن ثبوت پیش کریں۔

یہ تو ہین عدالتوں کے دوہرے پیمانے۔ اب ذرا ہندوستانی میڈیا پر نگاہ ڈالیئے، اندرا گاندھی کے دور حکومت سے یو پی اے دور حکومت تک کسی بھی کانگریسی حکومت کے خلاف جب بھی کوئی بدعنوانی کا الزام اٹھ کھڑا ہوا تو میڈیا میں کانگریس حکومت کے خلاف قہر ٹوٹ پڑتاتھا اور اب دیکھیئے کہ جب راہول گاندھی نے مودی پر الزام لگایا تو ہندوستان کا سب سے بڑا اور اہم اخبار ’ ٹائمز آف انڈیا ‘ اس معاملہ میں کیا لکھتا ہے۔

تئیس23 ڈسمبر کے ایڈیٹوریل میں ٹائمز آف انڈیا نے جو اس معاملہ پر اداریہ لکھا اس کی سرخی تھی ’’ کیچڑ اُچھالنا بند کرو ‘‘ اس اداریہ میں ٹائمز آف انڈیا نے راہول گاندھی کو نصیحت کی کہ ’’ اس طرح کیچڑ اُچھالنے سے کانگریس کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے، بہتر ہوگا کہ اب اس الزام بازی پر روک لگائی جائے۔‘‘ جب یو پی اے میں بدعنوانی کا معاملہ ہو تو ہیڈ لائن لگے تھے کہ ’’ اے راجہ کو جیل بھیجو ‘‘ اور جب مودی پر بدعنوانی کا الزام لگا تو ہیڈ لائن لگائی جاتی ہے کہ ’’ کیچڑ اُچھالنا بند کرو ‘‘۔

کیا نریندر مودی سے پہلے کسی وزیر اعظم پر بدعنوانی کا الزام نہیں لگایا گیا، کیا بوفورس معاملہ میں راجیو گاندھی کے خلاف انکوائری نہیں ہوئی؟ جب راجیو گاندھی کے خلاف محض ایک ریڈیو رپورٹ پر انکوائری ہوئی تھی تو راہول کے الزام پر مودی کے خلاف کیوں انکوائری نہیں ہوسکتی ؟ لیکن نہیں، مودی کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہوگی بلکہ راہول گاندھی کا مضحکہ اڑایا جائے گا۔ اب انا ہزارے کو بدعنوانی پر غصہ نہیں آتا ہے کیونکہ انا کو کبھی بدعنوانی کے خلاف غصہ نہیں آتا ہے، وہ تو ناگپور کے اشارے پر اسوقت منموہن سنگھ حکومت کو بدنام کرنا تھا اس لئے انا ہزارے بھوک ہڑتال پر جان دینے کو بھی تیار تھے۔
یہ ڈھونگ نہیں تو اور کیا تھا؟ سچ تو یہ ہے کہ اس ملک کے نظام کو بدعنوانی یا کرپشن ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کرپشن کا شور محض ایک سیاسی تماشہ ہوتا ہے جس کا مقصد کانگریس یا ایسے سیاسی افراد کو نشانہ بنانا ہوتا ہے جو سنگھ مخالف ہوتے ہیں مثلاً کرپشن کے معاملہ میں لالو یادو کو جیل بھیج دیا گیا۔ مایاوتی اور ملائم سنگھ کے سر پر آئے دن کرپشن کی تلوار لٹکی رہتی ہے لیکن جب مودی پر الزام لگے تو وہ بغیر کسی انکوائری کے دودھ کے دھلے ہیں، اسی کو قومی تماشہ کہتے ہیں،اور پھر مودی کے خلاف کوئی انکوائری کیوں ہو، وہ تو ٹھہرے ہندو ہردے سمراٹ یعنی ہندوؤں کے دلوں میں بسنے والے مہاراج۔

جب مودی پر گجرات نسل کشی معاملہ میں کچھ نہیں ہوا تو پھر چند کروڑ کی رشوت پر ان کا کیا بگڑنے والا ہے۔ دراصل اس ملک کا نظام پوری طرح مودی کے ساتھ ہے وہ نوٹ بندی کا معاملہ ہو یا رشوت کا، ہر آڑے موقع پر اس ملک کا نظام مودی کے لئے دیوار بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ملک کی جمہوریت میں کس قدر دم ہے۔ آیا عوامی عدالت میں بھی ایسے ہی نظام کا ڈنکا بجے گا یا خلق خدا مجرم کو سزا دے گی؟ اس کا فیصلہ آج سے کچھ ماہ بعد یو پی کے چناؤ میں ہوجائے گا۔ تب تک انتظار کیجئے اور بقول مرزا غالب شب و روز نظام کا تماشہ دیکھیئے …!۔

روزنامہ سیاست۔ حیدرآباد ، انڈیا

Comments are closed.