سفارت کاری یا بازیچہ اطفال 

aimal-250x300

ایمل خٹک  

اب جبکہ پاکستان کی ناکام سفارت کاری اور سفارتی تنہائی کی باتیں معمول بن چکی ہے مگر سفارتی سطح پر غیرذمہ دارانہ بیانات اور اس سے پیداشدہ خجالت اور شرمندگی اس سفارتی بحران کی شدت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ 

سفارت کاری کے علم اور فن دونوں پرہم جیسے غیر سفارت کار لوگوں کی بات بڑی عجیب لگتی ہے ۔ مگر سفارتی میدان میں حماقتیں اور سنگین غلطیاں دیکھ کر چار و ناچار اس پر بات کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔  

بقول شخصے اگر وہ کوئی بیوقوف نئی بیوقوفی نہ کریں تو لوگوں کو کیا ضرورت کہ انکی پرانی بیو قوفیوں کو یاد کریں۔ یہی حال ہماری سفارت کاری کا بھی ہے ۔ اگر پاکستان کے سفارتی معاملات چلانےوالے غلطیوں پر غلطی نہ کریں تو ان پر انگلی اٹھانے کی نوبت نہیں آئیگی۔  

بین الاقوامی تعلقات کا شعبہ انتہائی نازک اور اہمہوتا ہے۔ اور اس میں کوئی بات کہنے اور پبلک کرنے سے پہلے اس کو ہر حوالے سے پرکھا اور تولا جاتا ہے کہ مبادا بیان میں کوئی تذبذب اور خوش فہمی یا غلط فہمی پیدا نہ ہو ۔ اسلئے اکثر الفاظ کی ادائیگی کرتے وقت ضبط اور احتیاط کا دامن تھامنا رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں افراد کے نہیں بلکہ ریاستوں کے درمیان تعلقات داؤ پر ہوتے ہیں ۔

پاکستان میں بے احتیاطی اور سفارتی اصولوں اور آداب سے روگردانی کی وجہ سے کبھی کبھار سفارتی سطح پر بدمزگی اور شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے ۔ جس کی حالیہ مثال روس کے حوالے سے یہ خبر تھی کہ روس نے چین۔پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے ۔ 

روس کے بارے میں سرکاری سطح پر ایسی باتیں کی گئیں کہ آخر کار روسی حکومت نے مجبور ہو کر وضاحت کردی ۔ 

گزشتہ دنوں پاکستانی میڈیا نے اعلی حکام کے حوالے سے روس کی جانب سے گوادر کی بندرگاہ کے استعمال اور سی پیک منصوبے میں شمولیت کی باقاعدہ درخواست کا ذکر کیا تھا اور گزشتہ ماہ روس کی انٹیلی جنس ایف سی بی کے سربراہ الیگزینڈر بورٹنی کوف کی خفیہ دورہ پاکستان کا ذکر بھی کیا تھا ۔ اس طرح روسی حکام کی دورہ گوادر کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ اس بیان کے تین دن کے اندر اندر روسی وزارت خارجہ کا تردیدی بیان آیا اور سی پیک کے حوالے سے خفیہ مذاکرات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس نے سی پیک منصوبے میں شرکت کے حوالے سے پاکستان کے کیساتھ مذاکرات نہیں کئے ۔ 

سفارتی تعلقات میں تردیدی بیانات کو ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا ہے ۔ اور اس سے تعلقات میں بدمزگی پیدا ہوتی ہے ۔ اس وجہ سے دو ممالک کے تعلقات اور متعلقہ ممالک کے ذمہ داران کے درمیان بات چیت کو بے حد احتیاط سے لکھا اور بیان کیا جاتا ہے۔  روس کے معاملے میں اس سے پہلے بھی کئی بار ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ مثلا چند سال پہلے تواتر سے روسی صدر کی دورہ پاکستان اور اس کی منسوخی کی خبریں چھپتی رہی ہے ۔ جس پر روسی وزارت خارجہ کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ روسی صدر ولاڈی میر پوٹین کا نہ تو کوئی دورہ پلان تھا اور نہ اس کی منسوخی کا سوال پیدا ہوتا ہے ۔ 

عموماًیہ صورتحال اس وقت پیدا ہو جاتی ہے جب یا تو دیگر ممالک کی اعلیٰ شخصیات کے ساتھ بات چیت کو غلط معنی پہنائےجاتے ہیں یا ان کے موقف کو درست پیش نہیں کیا جاتا اور یا اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔  بعض اوقات بہت سی مصلحتوں کی بناء پر ممالک اپنے تعلقات کو یا جاری بات چیت کو منطقی انجام تک پہنچنے سے قبل افشا نہیں کرنا چاہتے۔ اس طرح غیر سفارت کار افسران کی جانب سے اہم سفارتی تعلقات پر اظہار خیال بھی غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔

موجودہ صورتحال میں حکومت پر آزاد اور غیر جانبدار مبصرین کی جانب سے سفارتی تنہائی کے الزامات کے بعد حکومت اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے غیر ضروری پھرتی کا مظاہرہ کرنے لگی ہے ۔ اور بہت سی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے لگی ہے۔ 

مذکورہ اخباری بیان  کی ملک کے تمام چھوٹے بڑے اخبارات میں بھرپور اور نمایاں کوریج اس بات کی غماز ہے کہ یہ خبر کسی رپورٹر کی ذ ہنی اختراع نہیں بلکہ سفارتی اسرار و رموز سے نا آشنا کسی سرکاری بابو کی لکھی گی تحریر تھی۔ جس کا مقصد سفارتی تنہائی کے تصور اور الزام کو زائل کرنا اور داخلی رائے عامہ کیلئے سفارتی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تھا ۔ 

پاکستان میں سفارتی ناکامیوں کی ایک بنیادی وجہ دو عملی ہے ۔ یہاں پالیسی بناتا کوئی اور ہے اور چلاتا کوئی اور ہے۔ 

Comments are closed.