اسلامی ممالک میں گھری ہوئی واحد غیر اسلامی و سیکولر ملک اسرائیل ہے جہاں جمہوریت کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی بھی ہے۔ جہاں ریاست کا سربراہ بھی کوئی جرم کرے تو اسے عدالت سزادیتی ہے جبکہ اسلامی ممالک میں ایسی کسی بھی عمل کے متعلق صرف خواب ہی دیکھا جا سکتاہے۔
صرف غیر اسلامی سماج میں ہی ایسا ہو سکتا ہے کہ سات سال تک ملک کا سربراہ ہونے کے باوجود اگر سربراہ قانون سے بالاتر کچھ کرتا ہے تو اسے جیل بھی جانا پڑتا ہے۔جنسی زیادتی کے جرم میں سزا پانے والے سابق اسرائیلی صدر موشے کتساف کو جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ اکہتر سالہ کتساف کو قصور وار ثابت ہونے پر دسمبر 2010ء میں سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔
اگرچہ تب اُنہیں سات سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا تاہم اُنہوں نے پانچ سال قید میں گزارے، جس کے بعد حال ہی میں ایک پیرول بورڈ نے اُنہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
اس سے پہلے دو مرتبہ اُن کی وقت سے پہلے رہا کیے جانے کی اپیلیں اس بناء پر رَد کی جا چکی تھیں کہ اُنہوں نے پیرول بورڈ کے مطالبات مانتے ہوئے اپنے جرم قبول کرنے اور اُن پر اظہارِ افسوس کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب پیرول بورڈ نے کہا ہے کہ بالآخر موشے کتساف نے اپنا کیا دھرا قبول کر لیا ہے اور اُس سے پہنچنے والی تکلیف پر افسوس کا بھی اظہار کیا ہے۔
اسرائیل میں صدر کا عہدہ بڑی حد تک رسمی اور علامتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ موشے کتساف سن 2000ء سے لے کر 2007ء تک اسرائیل کے صدر رہے۔
دسمبر 2010ء میں اُنہیں اس بات کے لیے قصور وار قرار دیا گیا تھا کہ اُنہوں نے نہ صرف 1990ء کے عشرے میں کابینہ کا رکن ہوتے ہوئے اپنی ایک معاون خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی بلکہ سربراہِ مملکت ہوتے ہوئے دو مزید خواتین کو بھی جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔ کتساف ہمیشہ اپنے یہ جرائم قبول کرنے سے انکار کرتے رہے۔
بدھ اکیس دسمبر کو اُن کی جیل سے رہائی کے مناظر اسرائیل کے بڑے ٹیلی وژن چینلز سے براہِ راست دکھائے جاتے رہے۔ وہ اپنی اہلیہ جِیلا کے ساتھ مسکراتے ہوئے وہاں موجود فوٹوگرافرز کے ہجوم کے پاس سے ہو کر گزرے اور بغیر کچھ کہے وہاں منتظر گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔
چند روز قبل اتوار اٹھارہ دسمبر کو پیرول بورڈ نے اُن کی رہائی کے احکامات جاری کرتے ہوئے لکھا تھا کہ پہلی ناکام سماعت کے بعد سے کتساف نے ’ایک طویل راستہ طے کیا ہے، جیل میں نفسیاتی علاج کے لیے دی جانے والی سہولتوں سے استفادہ کیا ہے اور خواتین کے خلاف اپنے کیے دھرے اور اس سے اُن کو پہنچنے والی تکالیف پر افسوس کا اظہار کیا ہے‘۔
وہ پہلے اسرائیلی صدر تھے، جنہیں یوں قصور وار قرار دیتے ہوئے سزا سنائی گئی۔ اس چیز کو اسرائیلی میڈیا نے ایک ’زلزلے‘ کے مترادف قرار دیا تھا جبکہ خواتین کے گروپوں نے، جو پہلے ہی کام کی جگہوں پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف نرم رویوں کے شاکی تھے، اس سزا کا خیر مقدم کیا تھا۔
موشے کتساف کی قبل از وقت رہائی پر اسرائیل میں کوئی بڑا عوامی احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا کیونکہ عام طور پر وہاں اپنی دو تہائی قید جیل میں گزارنے والے قیدیوں کو رہا کر دیا جاتا ہے۔
DW/News Desk
♠
One Comment