انتہا پسند مسلمان کینیڈا کی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ہیں

آصف جاوید

ہمیں کینیڈا کے پر امن شہری کی حیثیت سے کینیڈا کی سلامتی کے بارے میں شدید تشویش لاحق ہے۔ ہماری یہ تشویش کوئی مفروضہ نہیں ہے۔ مذہبی انتہا پسندوں سے پوری دنیا کو خطرات لاحق ہیں۔ خود اسلامی ممالک بھی ان انتہا پسندوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے مقاماتِ مقدّسہ مکّہ اور مدینہ بھی ان دہشت گردوں سے نہیں بچ سکے ہیں۔

جب کہ کینیڈا تو ایک لبرل، سیکولر ملک ہے۔جسے کچھ مذہبی انتہا پسند مسلمان ، کافروں کا ملک اور گناہوں کی دلدل بھی قرار دیتے ہیں۔ اس لئے کینیڈا کو ان اسلامی انتہا پسندوں کی جانب سے کئی گنا زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔ کینیڈا اپنے آئین و قانون میں دی جانے والی رعائتوں کے سبب آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھا ہوا ہے۔ انتہا پسند مسلمانوں کی کینیڈا میں کوئی کمی نہیں ہے۔

گزشتہ پانچ سالوں میں ایک منظّم منصوبہ بندی کے تحت انتہا پسند مسلمانوں نے کمیونٹی لیڈروں کے بھیس میں کینیڈا کی سیاسی جماعتوں میں اپنے ہائیڈ آوٹس یعنی پناہ گاہیں بھی بنا لی ہیں۔

یہ بہروپئیے کمیونٹی لیڈرز اپنی اپنی مساجد اور اپنے اپنے قونصلیٹس کے اجتماعات میں بڑی معصومیت سے لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے انتخابات میں بھرپور انداز میں شریک ہوں، اپنے ووٹ ڈالیں، اپنے نمایندے پارلیمنٹ میں بھیجیں۔ اور جب کینیڈین باشندوں کی وسیع القلبی کے طفیل یہ نمائندے پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں تو، پھر یہ لوگ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کا ایجنڈا شروع کردیتے ہیں۔پہلے ان نمائندوں کو برانڈ کرتے ہیں کہ یہ فلاں کمیونٹی سے تعلّق رکھنے کی بناء پر فلاں کمیونٹی کے نمائندے ہیں۔ کچھ عاقبت نا اندیش اور نا دان بہی خواہ تو ان منتخب نمائندگان کو کینیڈین پارلیمنٹ میں اپنے ملک کا نمائندہ بھی قرار دے دیتے ہیں، جس کی یہ منتخب نمائندے کبھی بھی تردید نہیں کرتے ۔

منتخب نمائندوں کی یہ منافقت، کینیڈا کی آئین کی اصل روح پلورل ازم (اجتماعیت )کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کینیڈا کی پارلیمنٹ کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوتے ہیں، پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت حکومت بنانے کی ذمۃ دار ہوتی ہے ۔

کینیڈا میں کوئی بھی ممبر پارلیمنٹ مذہب، عقیدے، رنگ و نسل، زبان و لسّانیت کی بنیاد پر انتخاب نہیں لڑتا ہے اور نہ ہی جیتتا ہے۔ کینیڈین معاشرہ ایک روادار معاشرہ ہے۔ یہاں کسی بھی برانڈ کی سوچ کے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں کے تمام باشندے بلا امتیاز مذہب وعقیدہ، رنگ و نسل ، زبان اور ثقافت برابر شہری حقوق اور لامحدود آزادیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہی کینیڈا کے آئین کے نفسِ ناطقہ یعنی پلورل ازم (اجتماعیت ) کی اصل روح ہے۔

موجودہ لبرل حکومت کے سربراہ جسٹن ٹروڈو کے والد جناب پیئر اِلیٹ ٹروڈو کی دوراندیش قیادت نے 1971 میں کینیڈا میں ملٹی کلچرل ایکٹ پاس کرکے کثیر الثقافت معاشرے کے قیام کو ریاست کی ترقّی ، فلاح اور معاشی خوشحالی کی اساس قرار دیا تھا۔ کینیڈا کی سلامتی اور خوشحالی کا راز،اجتماعیت، برداشت، رواداری، باہمی احترام، اور ثقافتی تنوّع میں پنہاں ہے۔

کینیڈا کے شہر مسی ساگا کو اپنی پرائیویٹ محفلوں میں بڑے فخر سے مسلم ساگا کہنے والے اور کینیڈا کو کافروں کی سرزمین اور گناہوں کی دلدل قرار والے یہاں جزیرے قائم کرنے کی بجائے ملٹی کلچرل مین سٹریم ثقافت میں ضم ہونے کی کوشش کریں، کینیڈین معاشرے اور ثقافت کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھیں تو یہ ان کے لئے بھی بہتر ہوگا اور کینیڈا کے لئے بھی۔ ورنہ آنے والے وقتوں میں یہاں امریکہ کی طرح کوئی ڈونلڈ ٹرمپ یا نیوٹ گنگرچ پیدا ہوگا اور وہ کینیڈین میڈیا پر بیٹھ کر مطالبہ کر رہا ہوگا کہ جو مسلمان کینیڈا میں اسلامی شریعت چاہتے ہیں انہیں کینیڈا سے باہر نکال دیا جائے۔

کینیڈا میں مقیم مسلمانوں خاص طور پر پاکستانیوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کینیڈین معاشرے کی رواداری اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری، اور مین سٹریم کلچر سے جڑے رہنے میں ان کی فلاح ہے۔ مسلمان یا پاکستانی کینیڈا میں جزیرے بنا کر نہیں رہ سکتے۔ بنیادی انسانی حقوق ، عورت مرد کی برابری، شعوری اور فکری آزادی، ہم جنس پرستوں کو معاشرے کا مفید فرد سمجھ کر ان سے عزّت و احترام سے پیش آنا، بالغ لوگوں کا اپنی صوابدید پر کلب یا شراب خانوں میں تفریح کرنا، اپنی پسند کا لباس پہنّنا۔

چاہے وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو، دو جوان افراد کا اپنی مرضی سے تعلّقات قائم کرنا، بغیر نکاح تعلّق قائم کئے ایک ساتھ زندگی گزارنا، اسکولوں میں بچّوں کو جنسی زندگی کی معلو مات فراہم کرنا کوئی معاشرتی عیب نہیں ہے۔ نہ ہی کینیڈا گناہوں کی دلدل ہے، جس سے مسلمانوں کا دور رہنا ضروری ہےبلکہ یہ تو ایک آزاد اور صحت مند معاشرے کی برکات ہیں کہ انسان اپنی آزاد مرضی سے اپنی زندگی گزارتا ہے، اس پر کوئی ریاستی یا معاشرتی جبر نہیں ہے۔

یہ امتیاز پوری دنیا میں صرف کینیڈا جیسے عظیم ملک کو ہی حاصل ہے جس میں ایک کثیر الثقافت اور کثیر القومی معاشرے میں، ہر مذہب، ہر عقیدے، ہر زبان ہر رنگ و ہر نسل کے لوگ امن و آشتی اور بھائی چارے سے رہ رہے ہیں۔ عقل و شعور کا تقاضا ہے کہ کینیڈا میں مقیم انتہا پسند ذہنیت کے مسلمان اپنے رویّوں میں تبدیلی پیدا کریں۔ انتہا پسندی کینیڈا کی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے

2 Comments