آصف جاوید
سولہ16 دسمبر، پاکستان کے سرکاری کیلینڈر میں، 1971 گذرنے کے بعد پچھلے 44 سال سے مسلسل آرہا ہے، مگر مجال ہے کہ پاکستان کا سرکاری میڈیا ، لفافہ دانشور اور پے رول اینکرز کبھی اس دن برپا ہونے والی قیامت کی وجہ اور اسباب و علّت پر پر بات کرکے قوم کو کچھ آگہی دیں۔ حقائق کا پوسٹ مارٹم کریں، وجوہات تلاش کرکے ماضی میں کی گئی غلطیوں کی نشاندہی کرکے ریاستی اداروں کی سمت درست کریں۔
سولہ 16 دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا ایک بد بخت ترین دن تھا۔ اس دن مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ یہ وہ مشرقی پاکستان تھا جہاں تقسیم سے قبل بنگالی مسلمانوں کی طرف سے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے قیام اور اور انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی تحاریک چلائی گئی تھیں۔ پاکستان، برِّ صغیر ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔
بنگالی مسلمانوں کا قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں وہی حصّہ تھا، جو آج کے بچے کھچے موجودہ پاکستان کے عوام کا قیام پاکستان کی جدوجہد میں تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ بنگالی بزرگوں نے پاکستان کے قیام کے لئے جدّو جہد کی تھی، بنگلہ دیش کے قیام کے لئے نہیں۔ واضح رہے کہ مشرقی پاکستان کے اندر جاگیردارانہ نظام موجود نہیں تھا اس لیے وہاں ووٹ بہت حد تک آزاد تھا، اور آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے مغربی پاکستان کی نسبت مشرقی پاکستان میں کہیں زیادہ جدوجہد ہوئی تھی ۔ یہ حقیقت تاریخ کا حصّہ ہے۔یقین نہ آئے تو تاریخ کی کتابیں کھنگال کر دیکھ لیں۔
بنگال میں چوہدری فضل حق، خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی، گورمانی ، بھاشانی، جیسے بااصول سیاست دانوں اور دوسرے زعماء نے قیامِ پاکستان کے لئے تحریکیں چلائی تھیں۔ بنگلہ دیش یا بنگالیوں کے لئے علیحدہ وطن کے لئے نہیں۔ یہ بنگلہ دیش تو موجودہ پاکستان کے ان ہٹ دھرم، بے ایمان اور غاصب لیڈروں نے بنوایا تھا، جو مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کی کھلے عام حق تلفی کرتے تھے، ان کے ساتھ نسل پرستی اور امتیازی سلوک کرتے تھے۔ ان کے جائز حقوق پر ڈاکہ ڈالتے تھے۔ ان کے ساتھ نفرت کا رویّہ رکھتے تھے۔ بنگالیوں کے ساتھ اِس سلوک میں پاکستان کے تمام غیر بنگالی شامل تھے ۔ میں بطور تاریخ کے طالبعلم ، یہ بات بڑے وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ قائدِ اعظم سے لے کر بھٹّو تک سب بنگالیوں کے حقوق کے قاتل ہیں۔
پاکستان جب بنا تو اس کی جغرافیائی حدود میں متنوّع لسّانی اور قومیتیں موجود تھیں۔ جن کی اپنی اپنی زبانیں اور اپنی اپنی ثقافتیں پہلے سے موجود تھیں۔ لوگ اپنی اپنی زبانوں اور ثقافتوں کے ساتھ گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے تھے۔ بنگالی، پنجابی، سندھی، پشتون ،بلوچی، اور ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجر اپنی گنگا جمنی تہذیب ، زبان اور ثقافت کے ساتھ موجود تھے۔ ہر زبان اور ثقافت کی تاریخ، لب و لہجہ، ادب ، رسم و رواج علیحدہ علیحدہ مگر ایک خوبصورت گلدستے کی مانند موجود تھے۔ اگر اس وقت سمجھداری سے کام لے کر ان سارے مذاہب، عقائد، فرقوں، زبانوں ، لسّا نی اور علاقائی قومیتوں کو ایک پاکستانی قوم میں تشکیل دینے کی حکمت عملی سمجھداری کے ساتھ ترتیب دے دی گئی ہوتی، تو ہمیں 16 دسمبر 1971 کا منحوس دن نہ دیکھنا پڑتا ۔
بنگالی عوام عددی اکثریت میں تھے، ان کی تہذیب تمدّن، زبان اور ثقافت کی ہزاروں سالہ تاریخ موجود تھی ، قیامِ پاکستان کے بعد یکسر اور اچانک بنگالیوں کا ان کی اپنی مادری زبان سے ناتا توڑ کر ان پر اردو زبان زبردستی مسلّط کردی گئی۔ خود جناح صاحب نے مشرقی پاکستان جاکر انگریزی میں خطاب کیا اور بنگالیوں سے کہاکہ اردو پاکستان کی واحد قومی اور سرکاری زبان ہوگی۔ستم ظریفی یہ ہے، نہ خود اردو قائدِ اعظم کی زبان تھی، نہ ہی قائدِ اعظم کو اردو آتی تھی۔ ان کی مادری زبان کاٹھیا واڑی گجراتی تھی۔ جس کو وہ پبلک میں نہیں بولتے تھے، پبلک میں وہ صرف ا نگریزی بولتے تھے۔
مشرقی پاکستان، جہاں بنگالی زبان بولنے والے پاکستانیوں کی اکثریت آباد تھی اور جو اس بات کی امید لگائے بیٹھے تھے کہ قیامِ پاکستان کے بعد وسائل اور اقتدار میں منصفا نہ برابری کی بنیاد پر شریک ہونگے، آگے چل کر غیر بنگالی پاکستانیوں کے رویّوں ،امتیازی سلوک اور احساسِ محرومی سے تنگ آکر 1971 میں پاکستان سے علیحدہ ہوگئے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے قائم ہونے کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بیج بودیا گیا تھا۔ یہ اعلان کہ صرف کراچی ہی ملک کا دارالحکومت ہوگا اور اُردو اس ملک کی واحد قومی زبان ہوگی، مشرقی پاکستان کے عوام کی احساسِ محرومی کی طرف پہلا قدم تھا۔ بنگالیوں پر زبردستی اردو کا تسلّط ، اور ڈھاکہ کی بجائے کراچی کو دارالخلافہ بنانا ہی بنگلہ دیش بننے کی وجہ نہ تھی۔ یہ سیاہ دن پاکستان کی قسمت میں اچانک ایک حادثے کی طرح نہیں آیا تھا، بلکہ یہ ایک جبر ِ مسلسل اور حق تلفیوں کی ایک طویل تاریخ کا نتیجہ ہے۔
مشرقی پاکستان کے بنگالی تعداد میں موجودہ پاکستان کی تمام مجموعی آبادی سے زیادہ تھے، قیامِ پاکستان کے وقت ریاست کی کل آبادی 6 کروڑ 80 لاکھ باشندوں میں سے 4 کروڑ 40 لاکھ باشندے بنگالی بولتے تھے۔ مگر وسائل اور اقتدار میں بنگالیوں کو مناسب طور پر حصّہ نہیں دیا گیا۔ ہر سطح پر ان کے ساتھ امتیاز برتا گیا، حق تلفی کی گئی، سرکاری ملازمتوں اور اقتدار میں ان کو ان کی آبادی کے اعتبار سے کبھی کوئی حصّہ نہیں دیا گیا، پنجابی اور اردو اسپیکنگ اشرافیہ نے کھل کر بنگالیوں کا استحصال کیا۔ مغربی پاکستان کی مقتدرہ کو مشرقی پاکستان کے بنگالیوں سے زیادہ مشرقی پاکستان کی زمین کی ضرورت تھی،مشرقی پاکستان کی پٹ سن ، چاول، اور چائے ، پان چھالیہ ، اور دوسری اجناس کے باغات سے ہونے والی پیداوار کو ایکسپورٹ کرکے تجارت اور آمدنی کی ضرورت تھی ۔
سنہ1958 میں جنرل ا یوب خان کے مارشل لاء سے مشرقی پاکستان کے باشندوں کایہ یقین پختہ ہوگیا تھا کہ وہ درحقیقت مغربی پاکستان کے غلام ہیں۔ اس لیے کہ فوج اقتدار میں تھی، اور نناوے فیصد فوج مغربی پاکستان پر مشتمل تھی اور سارے جرنیلوں کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔ فوج میں بنگالیوں کو شامل ہونے سے روکنے کے لئے کا ایسا معیار مقرّر کیا گیا تھا کہ بنگالی اپنے پستہ قد اور چھریرے بدن کی بناء پر پہلے ہی مرحلے میں طبّی طور پر ٹیکنیکل ناک آوٹ ہوجاتے تھے۔
مشرقی پاکستان تو مغربی پاکستان سے پہلے ہی تین ہزار کلو میٹر دور تھا ، ان پر مزید یہ ستم کیا گیا کہ دارالخلافہ کراچی سے اٹھا کر مزید ایک ہزار کلو میٹر دور اسلام آباد پہنچادیا گیا ۔ ، تاکہ بنگالی وسائل اور اقتدار دونوں سے ہی محروم رہیں۔ خود مشرقی پاکستان میں مقامی بنگالیوں اور آزادی کے بعد مشرقی پاکستان میں بسنے والے غیر بنگالیوں کی معاشی حالت میں بڑا فرق تھا، بنگالیوں کی ازلی معاشی بدحالی کی وجوہات کچھ بھی رہی ہوں ، پاکستان بننے کے بعد ان کو وسائل اور اقتدار میں ان کی آبادی کے تناسب سے حصّہ دینا اس وقت کے حکمرانوں اور ریاست کی ذمّہ داری تھی، جو کبھی پوری نہیں کی گئی۔
سنہ1971 تک پاکستان کا کثیر زرِ مبادلہ صرف پٹ سن کی برآمد سے حاصل کيا جاتا تھا اور اسے مبیّنہ طور مغربی پاکستان کی ترقی پر خرچ کيا جاتا تھا۔ چاول کی پیداوار کا آدھا مغربی پاکستان بھیج دیا جاتا تھا، اس کے بدلے مغربی پاکستان سے کچھ نہیں آتا تھا ، کیونکہ بنگالیوں کی اکثریت گندم نہیں بلکہ چاول کھاتی ، مشرقی پاکستان کی زیادہ سرکاری ملازمتوں میں افسران کی اکثریت کا تعلّق پنجابی اور ریلوے اور ڈاک و تار کے محکموں میں اردو سپیکنگ لوگوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ سماجی اعتبار سے بنگالیوں کو بھوکا ،ننگا اور اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ وسائل کا سارا رُخ مغربی پاکستان کی طرف تھا ۔پاکستان کے بجٹ کا ساٹھ فیصد تو ویسے ہی فوج کی صورت میں مغربی پاکستان کے اندر خرچ ہوجاتا تھا۔ یہی حال باقی بجٹ کا تھا۔
پاکستانی ریاست ،لیڈروں اور بے ضمیر حکمرانوں نے اپنی ناانصافیوں سے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں میں مغربی پاکستان (اور مشرقی پاکستان میں موجود غیر بنگالیوں )کے خلاف وہ نفرت پیدا کردی کہ بنگالی مغربی پاکستان سے دلبرداشتہ ہوکر متنفّر ہوگئے۔ اور اپنے جائز حقوق کو برملا مانگنے لگے۔ ان کا سیاسی شعور بیدار ہوگیا تھا۔
حقوق کی جدوجہد میں تمام بنگالی ایک ہوگئے تھے، عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمن کو ہر گزرتے لمحے مقبولیت مل رہی تھی۔ بنگالی لیڈر شیخ مجیب الرحمان نے 6 نکات پر مبنی مطالبات پیش کرکے بنگالیوں کے حقوق کی بات کی تھی۔
ان 6 نکات میں زیادہ ریشنل یہ تین مطالبے تھے، بنگالیوں کی طرف سےمشرقی پاکستان کو خارجہ پاليسی ميں خود مُختاری، دفاعی امور ميں خود مُختاری ، کرنسی ميں خود مُختاری مانگی گئی تھی۔ جن کو مغربی پاکستانیوں نے رد کردیا تھا۔ اس موقعہ پر بنگالیوں کی داد رسی کسی نے نہیں کی، حتیٰ کہ وہ سیاسی پارٹیاں جن کی جڑیں مغربی پاکستان میں تھیں، انہوں نے بھی بنگالی عوام کے دکھ درد کو سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ان میں مغربی پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں بھی شامل تھیں۔
جماعت اسلامی نے تو اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بن کر بنگالیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور الشمس و البدر نامی تنظیمیں بنا کر فوجی آپریشن کے دوران بنگالیوں کے قتلِ عام میں حصّہ لیا، اور بنگالیوں کی حقوق کی جدوجہد کو کچلا۔یہی وجہ ہے کہ آج 44 سال گذرنے کے بعد بھی بنگالیوں کی جماعت اسلامی کے خلاف نفرت کی آگ کم نہ ہوئی اور وہ جماعت ِ اسلامی کے بوڑھے بزرگ جو اس سانحہ کے ذمّہ دار تھے ان کو پھانسیوں پر لٹکا رہے ہیں۔ اگر اس موقعہ پر ان چھ نکات کو مان لیا جاتا تو پاکستان برقرار رہ سکتا تھا۔ تاہم دونوں حصوں کی پوزیشن ایک کنفیڈریشن کی جیسی ہوجاتی۔
ان چھ نکات کو مغربی پاکستان میں غدّاری کے مترادف قرار دیا گیا اور لوگوں کو یہ باور کرایا گیا کہ شیخ مجیب الرحمان غدّار ہے۔ جیساکہ آج مہاجروں کے حقوق کی جدوجہد میں ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو انڈیا کا ایجنٹ اور غدّار قرار دیا جاتا ہے۔ بس یہی سلوک اُس وقت شیخ مجیب الرحمان اور عوامی لیگ کے ساتھ تھا۔
سنہ1970 کے انتخاب میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں چورانوے فیصد(94%)ووٹ حاصل کیے تھے، پورے مشرقی اور مغربی پاکستان کی مجموعی 300 نشستوں میں سے 170 نشستیں عوامی لیگ نے حاصل کیں، مشرقی پاکستان کی سوائے ایک نشست کے باقی سب نشستوں پر عوامی لیگ کے نمائندے کامیاب ہوئے تھے اور پاکستان کی پارلیمنٹ میں عوامی لیگ کو مطلق اکثریت حاصل ہوگئی تھی ۔
جمہوریت کا تقاضا تو یہ تھا کہ عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو مان لیا جاتا اور ان کو حکومت دے دی جاتی، تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔ اُس وقت شیخ مجیب الرحمان نے یہ پیش کش کی کہ اگر مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے صوبے اپنے لیے ان چھ نکات کے علاوہ کسی دوسرے فارمولے پر متفق ہوجاتے ہیں تو انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔البتہ مشرقی پاکستان کے بارے میں انہی چھ نکات پر عمل درآمد ہوگا۔ اُن کی اس بات کو نہیں مانا گیا۔
ادھر ہم اور ادھر تم کا نعرہ لگایا گیا۔ 25مارچ1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی شروع کردی گئی، شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کرلیا گیا اور مغربی پاکستان میں بھٹو نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن جاری رہا، اور سمجھا گیا کہ فوجی ڈنڈا ہی سب مسائل کا حل ہے۔ بنگالیوں نےمکتی باہنی تشکیل دے دی، انڈیا جو در پردہ بنگالیوں کی مدد کررہا تھا ، انڈیا نے مکتی باہنی کی تربیت کی ذمّہ داری اٹھالی، اور نومبر کے مہینے میں مشرقی پاکستان پر فوج کشی شروع کردی ۔
چونکہ ساری آبادی عوامی لیگ کی حامی تھی اس لیے ہر جگہ مکتی باہنی اور بھارتی فوج کا بھر پور استقبال ہوا۔ اور 16 دسمبر ، 1971 کو مشرقی پاکستان کی ایسٹرن کمانڈ کے جنرل اے کے نیازی کی قیادت میں پاکستانی فوج نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دئے۔ پاکستانی فوج نے کہیں بھی کوئی قابل ذکر مزاحمت نہیں دکھائی۔ دراصل وہ کوئی مزاحمت کرہی نہیں سکتی تھی۔ یہ فوج سو فیصد مغربی پاکستانیوں پر مشتمل تھی اور مقامی آبادی اس کو دشمن، غاصب اور ظالم سمجھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ایک مہینے کی نام نہاد جنگ میں پاکستانی فوج کا جانی نقصان بہت کم ہوا اور تریانوے ہزار(93000)پر مشتمل فوج بھارت کی قیدی بن گئی۔
یوں 17دسمبر1971ء کو بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آگیا۔ البدر اور الشمس تنظیمیں اور وہ غیر بنگالی جو کہ بہاری کہلاتے ہیں بنگلہ دیش کے انتقام کا نشانہ بنے اور آج 44 سال گزرجانے کے بعد بھی یہ بہاری کیمپوں میں اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔ تاریخ پاکستان سے مسلسل انتقام لے رہی ہے، اگر ابھی بھی ہوش کے ناخن نہیں لئے گئے تو بلوچستان اور کراچی کے حالات کیا رنگ دکھائیں گے ان کا اندازہ بڑی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ میرے منھ میں خاک ، مگر سقوطِ کراچی اور سقوطِ گوادر بعید از قیاس نہیں۔ اختصار کی خاطر مضمون کو یہیں ختم کرنا پڑرہا ہے حالانکہ تاریخ کے پنڈورا باکس سے کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے۔
♦
7 Comments