ارشد محمود
پاکستان کے معروف نعت خواں اور ماضی کے مقبول گلوکار جنید جمشید حادثے کا شکار ہونے والے پی آئی اے کے طیارے میں سوار تھے اور اس حادثے میں ان کا انتقال ہوگیا ہے۔52سالہ جنید جمشید اپنی اہلیہ کے ہمراہ چترال میں تبلیغی دورے کے بعد اسلام آباد جا رہے تھے۔
وہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے فارغ التحصیل تھے۔ 1987 میں ان کے گیت ‘دل دل پاکستان‘ نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا اور ان کے بینڈ کو پاکستانی ‘پنک فلوائڈ‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔تاہم 2000 کے عشرے میں جنید جمشید نے گلوکاری کو خیرباد کہہ دیا اور مذہب کی تبلیغ اور حمد و نعت سے وابستہ ہوگئے تھے۔
جنید جمشید ہماری مجموعہ اضداد سوسائٹی کا عکاس تھے ۔ کالج، یونیورسٹی کے زمانے میں اپنے ہم جولیوں کے ساتھ ہوسٹل کے کمروں میں شوقیہ گانے بجانے والے، جلد ہی وائٹل سائنز کی صورت میں ایک گروپ بن گیا۔ گروپ میں سب ہی خوبرو نوجوان تھے اور ٹیلنٹ والے بھی۔ چنانچہ جلد ہی پبلک اور میڈیا کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ جمشید نے اپنی جوان سال عمر کو لائم لائٹ میں انجوائے کیا۔
جنرل ضیا کی وجہ سے معاشرہ مذہبی شدت پسندی کی طرف جارہا تھا۔ ریاست مذہبی تنظیموں اور مذہبی پیشوائیت کی سرپرستی کرکے مذہب زدگی کو فروغ دے رہی تھی، ہر مذہبی تنظیم کا معاشرے پر اثرو رسوخ بنانے کا اپنا اپنا میدان تھا۔ کہا گیا، پاکستان کے 20 کروڑ لوگوں کو مذہب کے دائرے میں مقیدکردو۔۔جہادی، فرقہ پرست سے لے کرمدنی اور تبلیغی جماعتوں کا جال بچھا دیا گیا۔ اور معاشرے کا ہرحصہ خود بخود مذہبی رنگ میں رنگنا شروع ہو گیا۔
اب یہ ایک خود کارعمل تھا۔ جلد ہی مذہب کے سائے آرٹ، فلم، موسیقی، سپورٹس کے شعبوں کو بھی متاثر کرنےلگے۔ ریاست نے ہر مذہبی تنظیم کو الگ الگ ٹاسک دیا ہوا ہے۔ تبلیغی جماعت کو تفریحی، ثقافتی، شو بزنس کے شعبوں کا فریضہ دیا گیا۔اس کے لئے طارق جمیل نام کا ایک موزوں کریکڑ سامنے آ گیا۔ وہ تمام جہالتیں اور ریاکاریاں جو ہمارے معاشرے میں مذہب کی بائی پراڈکٹ کے طورآئیں، وہ جنید جمشید میں موجود تھیں۔
لوگوں کو سادگی کا درس، لیکن خود فیشن ایبل مہنگے ترین لباسوں اور پرفیوم کا بزنس۔۔اپنے پرانے پاپ سنگر کے طوراور موجودہ سٹیٹس کو میڈیا کے ذریعے مذہبی پرچارک کرکے اپنی شہرت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ یقینا کروڑوں کا کھاتا ہوگا۔۔ مذہبی لحاظ سے بھی متنازعہ رہے۔ عورتوں کے بارے میں انتہائی بوسیدہ افکارکو پھیلایا لیکن ان کے ساتھ کام بھی کرتے رہےاور سیلفیاں بھی بنواتے رہے۔ فیشن شوز سمیت شو بز کی تمام سرگرمیوں سے لطف اندوز ہوتے جبکہ تبلیغی جماعت میں ان سرگرمیوں کو حرام قرار دیتے۔
چونکہ معاشرہ فرقہ وارانہ مذہبی حساسیت کا شکار ہوچکا ہے۔ کوئی بھی کسی کو کسی وقت توہین مذہب میں پکڑکر مار سکتا ہے۔ ایسے ہی کچھ ایمان افروز نوجوانوں نے اسے مارنے کی کوشش بھی کی اور ایک فرقے کی جانب سے توہین رسالت کا الزام بھی لگا ۔
جنید بھی باقی مسافروں کی طرح ایک بدنصیب مسافر تھا۔ جنید ہمارے آج کے تضاد زدہ معاشرے کی زندہ تصویر تھے۔ کچھ احباب کو ان کے نغمے یاد آرہے ہیں تو کچھ کو ان کی تبلیغ ۔بہرحال آج اس کے اچانک چلے جانے پر دلی دکھ ہوا ہے۔
♥
One Comment