جرمنی ميں آج کل ايک نيا رجحان جاری ہے۔ مسلمان ملکوں سے ہجرت کرنے والے چند مہاجرين اپنا مذہب ترک کر کے عيسائيت قبول کر
رہے ہيں۔ گرجا گھر يہ تسليم کرتے ہيں کہ چند واقعات ميں وجہ سياسی پناہ کے حصول ميں مدد کی اميد ہوتی ہے۔
اتوار کا دن ہے اور گرجا گھر ميں بڑی رونق ہے۔ سعيد، سعيدہ، ورونيکا اور متين سفيد لباس زيب تن کيے بڑے منظم طريقے سے کھڑے پادری کا انتظار کر رہے ہيں۔ جرمن دارالحکومت برلن کے ايک چرچ ميں پادری ماتھياس لنکے ان سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہيں، ’’کيا آپ اپنے دل کی گہرائيوں سے يہ مانتے ہيں کہ يسوع مسيح آپ کے آقا ہيں اور آپ اپنی روز مرہ کی زندگی ميں انہی کی دکھائی ہوئی راہ پر چليں گے؟‘‘
چاروں نے ہاں ميں جواب ديا اور اسی لمحے فری ايواگيليکل چرچ تاليوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ سعيد، سعيدہ، ورونيکا اور متين نے اسلام چھوڑ کر عيسائی مذہب اختيار کر ليا۔
سياسی پناہ کے ليے جرمنی پہنچنے والے کچھ مسلمان تارکين وطن اپنا مذہب ترک کر کے عيسائيت اختيار کر رہے ہيں۔ گو کہ مسلمان پناہ گزينوں کی جانب سے عيسائيت اختيار کرنے کا يہ رجحان محدود تعداد ميں ہے تاہم ملک کے بيشتر حصوں ميں جاری ہے۔ اس سلسلے ميں کوئی حتمی اعداد و شمار تو دستياب نہيں ليکن گرجا گھروں کے منتظمين نے اس رجحان کی تصديق ضرور کی ہے۔
جرمنی کے جنوب مغربی شہر شپيئر کے ايک چرچ سے منسلک پادری فيلکس گولڈنگر نے بتايا کہ اکثريتی طور پر ايران اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے جبکہ شام اور اريٹريا سے بھی کچھ تارکين وطن ايسا کر رہے ہيں۔ ان کے بقول ايسا فيصلہ کرنے والے متعدد لوگ اپنے اپنے ملکوں ميں اپنے تجربات ياد کرتے ہيں کہ کيسے وہاں مذہب کے نام پر دہشت گردانہ کارروائياں کی جاتی ہيں۔ گولڈنگر کا کہنا ہے کہ يہ لوگ عيسائيت کو پيار اور زندگی کا احترام کرنے والے مذہب کے طور پر ديکھتے ہيں۔
سعيد اکتيس سالہ ايرونوٹيکل انجينيئر ہے اور اس کا تعلق افغانستان سے ہے۔ سياسی پناہ کے سفر ميں اس نے چار ماہ ايک مسيحی کے ساتھ ترکی ميں گزارے اور اس کے اندر اس مذہب کے بارے ميں دلچسپی پيدا ہوئی۔ اس نے بتايا، ’’بائبل پڑھنے سے کئی مرتبہ ميری مشکل آسان ہوئی‘‘۔
اسی طرح متين بتاتا ہے کہ مسیحیت سے اس کا تعلق يونان ميں قائم ہوا۔ جرمنی آمد پر اس نے اپنے مقامی دوستوں کی مدد سے گرجا گھر سے رابطہ کيا۔ اس کی بہن فريدہ نے بھی يہی راستہ چنا اور دونوں نے جرمن اور فارسی زبان ميں اپنی تياری شروع کی۔ ان دونوں کے بقول جرمنی ميں اس بات پر خاص توجہ ہے کہ مذہب اور اپنی زندگی کے ليے راستے کے تعين ميں لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہو۔
جرمنی ميں گرجا گھر يہ بھی تسليم کرتے ہيں کہ چند واقعات ميں وجوہات صرف جرمن معاشرے ميں ضم ہونا اور سياسی پناہ کے حصول ميں مدد کی اميد ہوتی ہے۔
بہرحال وجہ جو بھی ہو، یہ بات واضح ہے کہ مذہب کا تعلق معاشیات سے ہے۔
DW
One Comment