پنجاب میں گڈ گورننس اور خون ریز فرقہ واریت

محمد شعیب عادل

20130311cnsbr14495-800x500

خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال میں احمدی برادری کی مسجد پر مشتعل ہجوم کے حملے کے الزام میں 100 نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ایس ایچ او کے مطابق اس مقدمے میں 100 نامعلوم مشتعل افراد کو نامزد کیا گیا ہے جن میں جماعتِ احمدیہ کے افراد بھی شامل ہیں۔

اب سوال یہ ہے کیا ان حملہ آوروں کے خلاف کوئی کاروائی کی جائے گی ۔ پولیس احمدیوں کی مسجد پر حملے کو دو گروپوں کا ذاتی جھگڑا قرار دینے کی کوشش کر رہی ہےجو کسی غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ حالانکہ اس حملہ کی قیادت کرنے والا مذہبی رہنما سید سبط الحسن شاہ ببانگ دہل مسجد پر حملے کو مسلمانوں کی فتح قرار دے رہا ہے کیوں کہ انہوں نے احمدیوں کو ان کی مسجد سے نکال باہر کیا۔

ماضی کے واقعات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اب نقص امن کے نام پر اس مسجد کو بند رکھے گی۔ ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت اس مسئلے پر چپ سادھے ہوئے ہے۔ حکمران چاہتے ہیں کہ اس معاملے کو جلد از جلد دبا دیا جائے اور خبروں اور تبصروں کا سلسلہ بند ہو جائے۔

چکوال میں ہونے والا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پنجاب میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور ان کی جائیدادوں پر حملے معمول بن چکے ہیں لیکن افسوس تو پنجاب کے حکمرانوں پر ہے جو گڈ گورننس کا ڈھول پیٹتے ہیں لیکن ان واقعات پر کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کرتے۔

15555828_10208660844901080_1524671014_n

پنجاب کے حکمران میاں شہباز شریف کے دور حکمرانی میں مسیحی اور احمدیوں کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں پر کئی حملےہوئے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گڈ گورننس کے دعویداروں نے کسی ایک پر بھی کاروائی نہیں کی اور نہ ہی مجرموں کو سزادی ہے۔

ویسے بھی میاں شہباز شریف نے مذہبی انتہا پسندوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور ان کے خلاف کسی بھی کاروائی سے گریز کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مذہبی انتہا پسند جب دل چاہے دہشت گردی کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش کھڑے تماشہ دیکھتے ہیں۔ جب حملہ آور اقلیتوں کی جائیداد کی لوٹ مار کرنے اور آگ لگادیتے ہیں تو یہ آگے بڑھ کر اسے سیل کردیتے ہیں۔

جولائی 2009 کو گوجرہ کے نواحی گاؤں کوریاں میں قرآن پاک کے چندصفحات پھاڑنے کے الزام میں مسیحی آباد ی کے ساٹھ مکانات جلا دیئے گئے جس میں کئی مویشی بھی زندہ جل گئے تھے۔کوریاں میں مسیحی افراد خوف کے مارے مکانات خالی کرکے بھاگ گئے جس کے بعد ان مکانات میں لوٹ مار کے بعد آگ لگا دی گئی ۔ خبروں کے مطابق حملہ کرنے والوں نے تمام راستے بند کردیئے جس کی وجہ سے فائربریگیڈ کا عملہ اور نہ ہی مقامی پولیس امداد کے لیے پہنچ سکی اور ان کے مکانات کو جلتے رہنے دیا گیا ۔

چاہیے تو یہ تھا کہ پولیس ان شرپسندوں کو گرفتار کرتی لیکن وہ چند نام نہاد اشرافیہ کے نمائندوں کے ذریعے انھیں امن و سکون سے رہنے کی تلقین میں مصروف تھی۔ کیا ہماری پولیس اتنی نااہل ہے کہ چند شرپسندوں کی طرف سے راستہ بلاک کرنے کے بعد خاموشی سے تماشہ دیکھتی رہی؟
مقامی و صوبائی انتظامیہ نے کوریاں واقعہ کو بھی خاص اہمیت نہ دی۔ لہذا چند دن بعد اگست 2009 کو گوجرہ میں یہی واقعہ دہرایا گیا۔ اگر اسی وقت شرپسندوں سے سختی سے نمٹا جاتا تو گوجرہ میں افسوسناک واقعہ رونما نہ ہوتا جس میں ایک بار پھر مسیحی آباد ی کے چالیس سے زیادہ مکانات جلا دیئے اور آٹھ مسیحی زندہ جل گئے تھے۔

اس کاروائی میں کالعدم مذہبی تنظیموں جماعت الدعوۃ اورجماعت ہل سنت )کے ارکان نے ایک منظم طریقے سے پہلے ان مکانات کو لوٹا اور پھر پٹرول (آگ لگانے والا کیمیائی مادہبموں کے ذریعے حملہ کیا۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق گوجرہ انتظامیہ سازش سے باخبر تھی اور شرپسندوں کو فری ہینڈ دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں کو مسلم لیگ (نوازکی مقامی قیادت کی حمایت حاصل تھی اور ایک کالعدم مذہبی تنظیم کے سرکردہ افراد کا مقامی قیادت سے گہرا رابطہ ہے۔

حکومت پنجاب نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیاتھا۔ عدالتی کمیشن بنا اور کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ذمہ داروں کی نشاندہی کر دی تھی لیکن شہباز شریف حکومت نے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی۔

مارچ2013 کو بادامی باغ میں مسیحیوں کی کالونی کو توہین رسالت کے الزام میں آگ لگادی گئی۔ڈیلی ڈان کی رپورٹ کے مطابق 125 گھروں کو آگ لگائی گئی تھی۔حسب معمول نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ پولیس نے گوجرہ اور بادامی باغ کے واقعات کو بھی دو گروہوں کی ذاتی چپقلش قرار دے کر معاملے کو دبانے کی کوشش کی۔ ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کرنے کے بلندو بانگ دعوے کیے گئے لیکن معاملہ دبا دیا گیا۔

جولائی 2014 میں گوجرانوالہ کے ایک محلے میں بپھرے ہوئے ہجوم نے توہین رسالت کے الزام میں احمدیوں کے مکانات کو آگ لگائی جن میں تین احمدی خواتین جن میں ایک کمسن بچی اور ایک آٹھ سالہ بچی ہلاک ہو گئی تھی۔امام مسجد کے بیٹے کے ساتھ ذاتی جھگڑے کو توہین رسالت کا کیس بنا کر احمدیوں کے مکانا ت جلا دیے گئے تھے۔ نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ۔ لیکن پھر کیا ہوا کسی کو معلوم نہیں۔

نومبر 2015 میں جہلم میں توہین رسالت کے الزام میں ایک ہجوم نے چپ بورڈ فیکٹری کو نذر آتش کر دیا اور اگلے دن احمدیوں کی مسجد کو بھی آگ لگا دی۔ کوئی ایک ہزار افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔حکومت کی طرف سے شرپسندوں کے خلاف کاروائی کا بیان جاری ہوا لیکن پھر کیا ہوا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔

 شہباز شریف کے گڈ گورننس کاپہلا دور تو ماروائے عدالت قتل سے بھرا پڑا ہے۔ پولیس کو کھلی چھٹی تھی کہ وہ ملزموں پر بغیر مقدمہ چلائے انہیں گولی ماردیں ۔ اس دور میں بھی ایک انتہائی سنگین واقعہ ہوا تھا لیکن اس پر بھی میڈیا نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ 

یہ بات ہے 1997کی۔پولیس نے شراب کی غیرقانونی فروخت کے الزام میں جنوبی پنجاب کے ضلع خانیوال کے گاؤں شانتی نگر میں راج مسیح کے گھر چھاپہ مارا۔لیکن کوئی بوتل برآمد نہ ہوسکی مگر تلاشی کے دوران انجیل کو اٹھا کر پھینک دیا گیا اور راج مسیح کو تھانے میں بند کردیا گیا۔ مقامی عیسائی آبادی نے انجیل کی بے حرمتی کے خلاف جلوس نکالا۔جس کا نوٹس لیتے ہوئے مقامی انتظامیہ نے کچھ پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹی سے معطل کردیا۔مگر پولیس والوں نے دھمکی دی کہ اگر الزامات واپس نہ لئے گئے تو مسیحیوں کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

تین ہفتے بعد پانچ فروری کو شانتی نگر کی ایک مقامی مسجد سے اعلان ہوا کہ کچھ مسیحی افراد نے قرآن کے چند صفحات جلا دیے ہیں اور یہ صفحات مسجد کے باہر پائے گئے ہیں۔ خبر پھیلتے ہی اردگرد کے چودہ دیہاتوں سے تقریباً بیس ہزار افراد نےمسیحیوں کے دو دیہات شانتی نگر اور ٹوبہ کی جانب مارچ شروع کردیا۔

خانیوال شہر اور دونوں مسیحی دیہاتوں میں پندرہ سو گھراور دوکانیں، بارہ چرچ ، ایک ہاسٹل اور ڈسپنسری تباہ کردی گئی۔ درجن بھر خواتین کی بے حرمتی ہوئی ۔ ویکلی فرائیڈے ٹائمز کے مطابق پولیس نے پہلے پندرہ ہزار عیسائی آبادی کو علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات پر جانے کو کہا اس کے بعد بلوائیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ انسانی حقوق کمیشن نے کہا 1947 کے بعد سے پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا بدترین واقعہ تھا۔

پنجابیوں کی انتہا پسندی یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔آئیے آگے بڑھیں۔

یہ بات نومبر2005 کی ہے۔ فیصل آباد کے نواحی قصبے سانگلہ ہل میں جہاں نوے فیصد مسلمان اور دس فیصد عیسائی رہتے ہیں، یوسف مسیح نامی شخص نے دو مسلمانوں سے تاش کے جوئے میں بھاری رقم جیت لی۔ اگلے روز ان میں سے ایک ہارا ہوا جواری ایک مقامی جلد ساز کے پاس قرآن کا خستہ حال نسخہ لے کر پہنچا اور کہا کہ یوسف مسیح نے اس کی بے حرمتی کی ہے۔

مقامی مسجد سے اعلان ہوا کہ یوسف مسیح نامی ایک شخص نے قرآن کے صفحات جلائے ہیں۔ یہ سنتے ہی تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد جمع ہوگئے۔ ایک درجن گھر، پانچ گرجے، تین سکول، ایک کانونٹ اور ایک ڈسپنسری نذر آتش کر دی گئی۔ تین ماہ بعد لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے یوسف مسیح کو ناکافی ثبوت کی بنیاد پر بری کردیا۔ ساتھ ہی عیسائی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں پکڑے گئے اٹھاسی افراد بھی ناکافی ثبوت کی بنیاد پر بری ہوگئے۔

مئی 2010کو احمدی فرقے پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ ہوا جب لاہور میں ان کی دو مساجد پر دہشت گردوں نے قبضہ کر کے قتل و غارت شروع کر دی جس میں 90 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی جس میں ان کے مقامی مدد گار جو کہ مختلف مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھتے تھے بھی شامل تھے۔ اس وقت بھی پنجاب کے وزیراعلی شہبازشریف تھے جنہوں نے طالبان سے درخواست کی تھی کہ بھئی ہمارے صوبے کو نشانہ نہ بناو ۔

یہ تو ہیں بڑے واقعات جبکہ چھوٹے چھوٹے واقعات بے شمار ہیں جس میں کسی شیعہ، مسیحی اور احمدی کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے یا احمدیوں کے قبرستان پر حملے کیے جاتے ہیں۔ توہین مذہب کے الزام میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی نے شیعوں کی منظم ٹارگٹ کلنگ کی ہے۔ امام بارگاہوں پر خود کش حملے کیے ہیں لیکن چند دن میڈیا میں شور و غوغا ہوتا ہے اور پھر سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے اور مجرم معاشرے میں دندناتے رہتے ہیں۔

جج توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات کا فیصلہ کرنےسےڈرتے ہیں۔ آسیہ بی بی اور جنید حفیظ کئی سالوں سے جیل میں سڑ رہے ہیں ۔ لیکن کسی کی مجال ہے کوئی بولے۔ اگر کوئی بولاتھا تو ان کا حشر سب کے سامنے ہے۔ سلمان تاثیر کو آسیہ بی بی کی حمایت کرنے اور راشد رحمان ایڈووکیٹ کو جنید حفیظ کا کیس لڑنے پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

توہین رسالت کے نوے فیصد واقعات پنجاب میں ہوتے ہیں۔ کسی پر توہین رسالت کا الزام لگانے کی دیر ہے، ہزاروں کا مجمع اکٹھا ہو کر گھروں ، بستیوں اور عبادت گاہوں کی لوٹ مار کرکے آگ لگانا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن میڈیا کا اصرار ہے کہ پنجاب دوسرے صوبوں کے مقابلے میں انتہائی پرامن صوبہ ہے۔

ایک تبصرہ نگار چکوال کے واقعے پر لکھا کہ احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کوئی انہونا واقعہ نہیں ہے۔ اس پر اتنا سیخ پا ہونا کچھ غیر ضروری سا لگتا ہے۔قرارداد مقاصد کی منظور ی اور پھر اس کا آئین کا حصہ بننا اور 1974میں دوسری آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد ایسا تو ہونا ہی تھا ۔کیا کسی ایک سیاسی رہنما نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے ۔کسی ایک نے بھی نہیں حتی کہ ہمارے سوشل ڈیموکریٹ بلاول بھٹو نے بھی نہیں۔

کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب ہے مولویوں سے براہ راست ٹاکرا۔ہماری ریاست مولویوں کو خوش کرنے کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار رہتی ہے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آیندہ یسے واقعات نہیں ہوں گے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے۔ پاکستان میں فرقہ پرستی بڑھے گی کم نہیں ہوگی کیونکہ ہزاروں دینی مدرسوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کا روزی روزگار فرقہ پرستی سے وابستہ ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان یا کوئی اور پلان یہ بیرون ملک بیٹھے ڈونرز کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

One Comment