بھارتی پریس سے ۔۔غضنفر علی خان
عیسائیوں کی مذہبی کتاب بائبل میں کہا گیا ہےکہ ’’وہ جو تلواروں کے سائے میں رہتے ہیں آخرکار تلواروں ہی سے ہلاک ہوتے ہیں‘‘۔
پاکستان برائے نام سہی اسلامی ملک ہے لیکن آج کے حالات بائبل کی اس حقیقت کو وہاں اجاگر کرتے ہیں۔ دہشت گردی کی پشت پناہی کرتے ہوئے آج پاکستان خود اس برائی کا شکار ہوگیا ہے۔
دہشت گردی کے مسئلہ پر دو تین ماہ پہلے منعقدہ سارک کانفرنس میں جوا سلام آباد میں ہوئی تھی، پڑوسی ملک پاکستان کو سارک کے تقریباً تمام رکن ممالک نے اسے الگ تھلگ کردیا تھا کہ وہ نہ صرف دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے بلکہ دامے درمے سخنے ان کی مدد کررہا ہے۔ اس وقت براعظم ایشیاء کے تمام ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جو دہشت گردی کی باقاعدہ سرپرستی کررہا ہے اور ہمارے ملک میں اس لعنت کو برآمد کررہا ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کے اڑی کے فوجی کیمپ پر حملہ ہوا۔ ہندوستان کے سپاہی مارے گئے۔ جواباً ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں واقع دہشت گرد گروپوں پر سرجیکل کارروائی کرکے حساب کتاب برابر کردیا لیکن پاکستان نے نہ صرف لائن آف کنٹرول (ایل او سی) بلکہ بین الاقوامی سرحد پر حملوں اور ہماری بی ایس ایف نیز ہمارے فوجیوں، سرحدی ٹاؤن کے شہریوں کو ایسا نشانہ بنایا کہ یہ حملے ہندوستانی میڈیا میں ایک معمول کے مطابق پیش کی جانے والی خبر بن گئی۔
ہر دن سرحد کی خلاف ورزی پاکستان کی جانب سے ہورہی ہے۔ اب تو پاکستان یہ کام تواتر سے کررہا ہے۔ اس کے ایسے رویہ سے جنوبی ایشیاء کے تمام چھوٹے اور بڑے ممالک بیزار ہوگئے ہیں۔ چھوٹی سی سیاسی حکومتیں (بھوٹان اور نیپال) خوفزدہ ہیں کہ ان ممالک میں بھی دہشت پسندانہ سرگرمیوں کا چلن ہوجائے گا۔ سری لنکا، مالدیپ کو یہ خوف ہے کہ جب ہندوستان جیسے طاقتور ملک میں دہشت گردانہ سرگرمیاں کروائی جاسکتی ہیں توان ممالک میں بھی ایسی سرگرمیاں کیوں نہیں ہوسکتیں۔
سارے علاقہ میں دہشت گردی کا خوف و ہراس پیدا ہوگیا ہے۔ بات صرف ان جنوبی ایشیائی ممالک کی حد تک نہیں رہی اب تو دہشت گردی عالمی مسئلہ بن گئی ہے۔ مغربی ممالک میں امریکہ اور یوروپ میں بھی دہشت گردی دکھائی دے رہی ہے۔ ہمیں اس صورتحال سے واقف رہنے کی ضرورت ہے۔
مغربی ممالک میں جو دہشت پسندانہ کارروائیاں ہوتی ہیں ان کا تو خیر کچھ نہ کچھ جواز موجود ہے۔ مغربی ممالک میں ہونے والی دہشت گردی بڑی حد تک القاعدہ، داعش اور انتہاء پسند طالبان کی جوابی کارروائی ہوسکتی ہے۔ یہ جواز پیش کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ اور اس کے ہمنوا مغربی ممالک نے افغانستان، لیبیا، عراق کو تباہ و تاراج کردیا۔ اس کا انتقام لینے کیلئے بعض مسلم ممالک کے نوجوان دہشت گردی کررہے ہیں۔
لیکن ہندوستان کے خلاف پاکستان کی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا ایسا کوئی جواز نہیں ہے۔ برخلاف اس کے ہندوستان نے پاکستان کی جانب کئی بار دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ سابق وزیراعظم واجپائی کے دور میں اور اس کے بعد یو پی اے عہد میں سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے موجودہ وقت میں وزیراعظم مودی نے بھی پاکستان سے بہتر اور دوستانہ تعلقات کی اپنی دانست میں کوشش کی لیکن پاکستان نے ہر بار دوستی کی بات زبان سے نیچے نہیں اتاری۔
دکنی زبان کا یہ محاورہ پاکستان پر صادق آتا ہے کہ ’’سوگز واروں گزبھر نہ پھاڑوں‘‘ ان تمام باتوں کے درمیان پاکستان کے خارجی امور کے صلاح کار اور وزیراعظم کے خاص مشیر سرتاج عزیز نے امرتسر میں منعقدہ ’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ H.O.A میں اپنی مرضی سے شرکت کی خواہش کی تھی حالانکہ حالیہ واقعات کی وجہ سے جو کشیدگی دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہوئی اس کو دیکھتے ہوئے تو ہندوستان اگر چاہتا تو اپنے ملک میں ہوئی اس کانفرنس میں پاکستان کو شرکت کی اجازت دینے سے انکار کرسکتا تھا۔
لیکن ہندوستان نے اعلیٰ کردار اور ذہن کی کشادگی سے کام لیتے ہوئے سرتاج عزیز کو امرتسر آنے کی اجازت دی۔ ابتداء میں پاکستانی میڈیا نے اس امکان کا بھی زوروشور سے ذکر کیا تھا کہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں سرتاج عزیز سرحد پر ہونے والی دہشت گردی کے مسئلہ پر بھی اپنے ہندوستانی ہم منصب سے بات چیت کریں گے۔ افغانستان نے جس کے حالات اور جس کی ممکنہ امداد کانفرنس کا مقصد تھا اس نے ہندوستان سے زیادہ سخت رویہ اختیار کیا۔
حد یہ ہوئی کہ پاکستان نے افغانستان کو 5 ملین ڈالر کی امداد کی پیشکش کی تو افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہ وہی افغانستان ہے جس کے سابق صدر حامد کرزئی نے کبھی کہا تھا کہ ’’ہندوستان ہمارا قریبی پڑوسی ہے جبکہ پاکستان ہمارا بھائی ہے۔ پھر بھی پاکستان کی امدادی پیشکش کو موجودہ صدر افغانستان اشرف غنی نے قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ ریمارک بھی دیا کہ ’’بہتر ہوتا اگر پاکستان یہی رقم پاکستان میں اور پاکستان سے ہونے والی دہشت گردی پر خرچ کرے‘‘۔
ہارٹ آف ایشیاء ہی میں نہیں بلکہ سارک کانفرنس میں بھی دہشت گردی کے موضوع پر پاکستان یکا و تنہا ہوگیا تھا اور اب امرتسر میں ہوئی کانفرنس میں تو جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں 42 ممالک نے بیک زبان ہوکر صاف کہا ہے کہ دہشت گردی ہر شکل میں ناقابل قبول ہے اور پاکستانی حکومت کو دہشت گردی کی پشت پناہی، سرپرستی اور دہشت گردوں کو یہاں سے دوسروں (ہندوستان بطور خاص) کے خلاف کارروائیاں کرنے سے باز آنا چاہئے۔
بات یہ نہیں ہے کہ صرف افغانستان نے پاکستان کے خلاف ایسا سخت رویہ اختیار کیا بلکہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس نے متحدہ طور پر پاکستان پر دہشت پسندی کو فروغ دینے اور اس کی باضابطہ طور پر حوصلہ افزائی کرنے کا الزام لگایا۔ پہلے تو صرف 7 ممالک کی تنظیم سارک نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس میں محض دہشت گردی کے مسئلہ پر پاکستان کے خلاف آواز اٹھائی اور ایک آواز ہوکر اسلام آباد کے شہر میں کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا اور مجبوراً پاکستان کو سارک کانفرنس کی میزبانی سے محروم ہونا پڑا۔
اب کی بار تو پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ پر کاری ضرب پڑی ہے۔ ہارٹ آف ایشیاء کے دوران جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس سے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔ پاکستان بڑی تیزی سے عالمی برادری سے الگ تھلگ ہورہا ہے۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا