اسلام مرزا
ایک اخباری سرخی جو پوری قوم کو بیوقوف بنا گئی
ہر سال سولہ دسمبر کو ہم “سقوط پاکستان” کا رونا رونے بیٹھ جاتے ہیں اور تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ بھٹو اگر یہ نا کہتے کہ “اُدھر تم ، ادھر ہم” تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔ مگر کیا ایسا ہی تھا؟۔ اگر بھٹو ایسا نہ کہتے تو کیا پاکستان بچ جاتا؟
یہ جاننے کے لئے شیخ مجیب کے مندرجہ ذیل چھ نکات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اور پھر دیکھناہوگا کہ بھٹو ان چھ نکات میں کہاں فٹ ہوتے ہیں؟۔
۔1: پاکستان میں براہ راست بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر وفاقی پارلیمانی نظام ہوگا اور وفاقی مقننہ میں صوبوں کی نمائندگی آبادی کی بنیاد پر ہوگی۔
۔2: وفاقی حکومت صرف خارجہ امور، دفاع اور کرنسی کے اجرا تک محدود ہوگی اور یہاں تک کہ خارجہ امور کے حوالے سے، اقتصادی امور کے معاملات صوبے طے کریں گے.
۔3: مشرقی اور مغربی پاکستان کے لئے کرنسی مختلف ہوگی یا پھر ملک کے دونوں حصوں کے لئے علیحدہ وفاقی خزانہ ہوگا۔
۔4:ٹیکس نافذ کرنے اور اکٹھا کرنے کا اختیار صرف صوبوں کے پاس ہوگا اور صوبے وفاق کو دفاع اور خارجہ امور کو نپٹانے کے لئے رقم میں اپنا مناسب حصہ دیں گے۔
۔5: ہر ونگ کے لئے غیر ملکی کرنسی کی آمدنی کے علیحدہ اکاؤنٹ ہوگا
۔6: مشرقی پاکستان کو صرف اور صرف اس کی صوبائی حکومت کے تحت ایک ملیشیا یا پیرا ملٹری فورس قائم کرنے کا اختیار دیا جائے گا
اب ذرا غور فرمائیں۔
نکتہ نمبر 1 میں صوبوں کی عددی برتری کے سامنے سینیٹ کا بند باندھنے کا ذکر نہیں ہے۔
نکتہ نمبر 2 نکتہ نمبر 4، 5 اور 6 کے سامنے بے بس ہے۔
نکتہ نمبر 3 سے واضح ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان دو ملک ہیں۔
نکتہ نمبر 4 کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس دفاع، خارجہ امور اور کرنسی کے اجرا کا اختیار تو ہوگا لیکن اس مد میں اٹھنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے کسی قسم کا ٹیکس لگانے اور اکٹھا کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔
نکتہ نمبر 5 کا تناظر یہ ہے کہ شیخ مجیب کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی تھی۔
نکتہ نمبر6 کا مطلب یہ ہے کہ مشرقی پاکستان اپنی علیحدہ فوج رکھ سکے گا۔ اس نکتے میں پانچ صوبوں کی بات نہیں کی گئی۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا شیخ مجیب نے یہ چھ نکات بھٹو سے مشورہ کرکے اپنے منشور میں شامل کئے تھے؟
ان چھ نکات کی بنیاد پر شیخ مجیب کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت کیا بھٹو نے دی تھی؟
یہ حقیقت ہے کہ شیخ مجیب سے مذاکرات میں ناکامی کے بعد بھٹو نے ایک جلسے میں شیخ مجیب کو مخاطب کرکے کہا کہ ” تم اگر مشرقی پاکستان سے جیتے ہو تو ہم بھی مغربی پاکستان سے جیتے ہیں۔ ہمارے بغیر تم اکیلے فیصلے نہیں کرسکتے“۔
ان دنوں اخبارات میں اچھوتی سرخیاں لگانے کی دوڑ تھی جس کی وجہ سے مرحوم عباس اطہر نے اس بیان کو اس سرخی کے ساتھ شائع کیا کہ
“اُدھر تم ادھر ہم”
اور بعد میں ساری عمر اپنی حماقت کی وضاحت کرتے رہے لیکن کبھی بھی یہ نہیں بتایا کہ اس وقت ‘آزاد ‘ نامی اخبار کا سارا ادارتی عملہ نشے میں دھت تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو نے کبھی بھی اس سرخی کی تردید نہیں کی بلکہ ایک دفعہ مذاق میں یہاں تک کہ دیا کہ ” میرا اخبار تو ‘ مساوات ‘ ہے لیکن میری سرخیاں ‘آزاد‘ لگاتا ہے“۔
اصل سوال یہ ہے کہ اگر دنیا میں کسی بھٹو کا وجود نہ ہوتا تو کیا مشرقی اور مغربی پاکستان ایک ملک رہ سکتے تھے؟۔
♦