ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ
جب ماں سوتیلی ہو تو باپ کا بھیڑیا ہونا واجب ٹھہرتا ہے (پشتو ضرب المثل)
اس میں دو رائے نہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں انگریز استعمار کے خلاف مزاحمت کی تاریخ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کی نصابی کتابوں میں بیان کی جاتی ہے۔ادھر پاکستان میں مطالعہ پاکستان اور معاشرتی علوم میں آزادی، محکومی اور نجات سے متعلق منتخب تاریخی حالات اور اس سے متعلق چند ہیروز اور ولن منظر عام پر لائے جاتے ہیں، باقی گمنامی میں رہتے ہیں، یا پھر علاقائی سطح پر لوک داستانوں میں زندہ رہتے ہیں۔
پاکستان میں تاریخ کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا ہے جو ثقافت کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔یہاں پر رہنے والی اقوام کی ثقافتی اور سماجی قدآوری کو کاٹ کھینچ کر ریاست کی قبائے مقدس کے مطابق لایا جاتا ہے۔ کلچر کو مسلمان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور تاریخ کو بھی حلقہ بگوش اسلام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد کانگرس سے دو قسم کے سیاسی زعما برآمد ہوئے۔ ایک قبیل مذہبی تنظیموں سے وابستہ تھی جبکہ دوسری قوم پرستوں کی ٹولی تھی جو علاقائی سطح پر موثر ضد سامراجی تنظیموں کے روح رواں تھے۔ اول الذکر سیاسی نوع کو نوزائیدہ ریاست نے مجرب و مفید سمجھ کر اپنا لیا ، جبکہ موخر الذکر تا ابد دھتکار دئے گئے، ہندوستان کے ایجنٹ، غدار اور پراکسی قرار دئے گئے۔
خصوصی طور پر پشتون قوم پرست رہنما جو تقسیم ہند سے پہلے کانگرس کے کیمپ میں تھے ، پاکستانی آئین کو من و عن دل و زبان سے مان لینے کے بعد بھی بیگانے اور پرائے تصور کئے جانے لگے۔ جمعیت علمائے ہند کے علما جو سیاسی اور جغرافیائی طور پر تقسیم ہند کے شدید مخالف تھے، تقسیم کے بعد گلے سے لگائے گئے لیکن پشتون اور سندھی قوم پرستوں کا جرم معافی میں نہیں آرہا۔ زاہد حامد، شیخ رشید اور اوریا مقبول جان یہی تو منطق پیش کرتے ہیں کہ سرحدی گاندھی اور بلو چستانی گاندھی کا القابات کافی نہیں جو باچاخان اور خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کو غدار اور مائل بہ کرم ہندوستان ثابت کرسکے۔
ہرسال ۲دسمبر کو چونکہ خان شہید عبدالصمد خان کی شہادت کی برسی منائی جاتی ہے، اس سال انکی شہادت کو ۴۳ برس پورے ہو رہے ہیں ، کوئٹہ، پشاور سمیت ، مختلف شہروں میں انکی سیاسی ، ادبی، علمی اور سماجی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے ، موقع غنیمت جان کر ان کے غیر معمولی تاریخی کردار پر چند سطور لکھنے کو شش کررہاہوں۔
عبدالصمد خان اچکزئی کی ولادت ۱۹۰۷ کو عنایت اللہ کاریز گلستان میں ہو ئی تھی۔ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کرتے ہیں اور پھر نوجوانی میں ہی سماجی اصلاح اور سیاسی عمل سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔آپ تیسری اینگلو افغان جنگ کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اس میں جان فشانی سے لڑنے والے قومی ہیروز کو قریب سے دیکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ(۱۸۴۲) میں افغانوں کو صف آرا کرنے میں بھی خان شہید کے دادا غازی عبداللہ خان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا جو انگریزفوج کی مطلق بربادی پر منتج ہوئی۔اس کے علاوہ ان کے خاندان کی کئی ملی ہیروز دوسری اور تیسری اینگلو۔افغان جنگ میں بہادری سے لڑے ہیں اور منتشر قبائلی شیرازے کو بیرونی دشمن سے لڑنے کیلئے منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
آپ نے اپنے گرد و پیش کا بغور مشاہدہ کیا، اور اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی بھی معاشرے کی ساخت میں موجود تضادات اس کی فکری اور علمی ارتقا کو روکنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ خوا بیرونی دشمن طاقتور ہی کیوں نہ ہو، جب تک سماج اندرونی طور پر کرداری اور اقداری تضادات سے آزاد ہو ، بیرونی حملہ آور یا سامراج کا اثر انداز ہو خارج از امکان ہے۔ اس لئے آپ نے لڑکپن میں سماجی اصلاح کیلئے کمر کس لی۔
آپ نے خلقت خدا کو جنات ، تعویز گنڈوں اور جعلی پیروں و مرشدوں میں گھرا ہوا پایا۔ زندگی کے بارے میں لوگوں کی غیر عقلی اپروچ کا قریب سے مشاہدہ کیا اور اس پر مکا لمے کا آغاز کیا ۔ جب انگریز نے مقامی مذہبی ٹولوں اور قبائلی لشکر کی مدد سے غازی امان اللہ خان کے خلاف بغاوت کامیاب کروائی (۱۹۲۹)، تو اس وقت خان صاحب کی عمر ۲۲ سال تھی۔ لیکن آپ اس وقت یہ جان گئے تھے کہ قبائلی ساخت اور کم علمی کے درمیان کیا رشتہ ہوتا ہے اور قبائلیت کے کُھردرےمردانہ ماحول میں ظاہربینی سے نمو پانے والی بہادری اور خالی خولی غیرت کے تصورات ہی ابھرتے ہیں ، جس سے تشدد اور مارپیٹ کے روئے وجود میں آتے ہیں۔
قبائلی معاشرے میں دشمن کی پہچان کا جو مسئلہ انہوں نے اپنی خودنوشت میں بیان کیا ہے وہ ایک ایسا مسئلہ جسے آج بھی پشتون دوچار ہیں، لیکن معاصر قوم پرست اسکی اہمیت سے چشم پوشی کرنے میں عافیت جانتے ہیں۔
وہ اس پورے سیاسی کھیل کا آزادانہ تجزیہ کرسکتے تھے اسے تقدیر یا فلک کے زمرے میں نہیں ڈالتے تھے۔ انگریز کارندوں کی ہاتھوں ان کی پہلی نظر بندی (۲۰ دن کیلئے) بھی اسی وقت ہوئی جب غازی امان اللہ خان کو براستہ ہندوستان ولایت بھیجا جا رہا تھا۔
خان صاحب نے اگرچہ آٹھویں تک باقاعدہ تعلیم حاصل کی، لیکن انہوں نے زندگی بھر لکھنے، پڑھنے، سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے میں گذاری۔ان کی ۶۶ سالہ زندگی میں ۲۸ سال تو جیل میں گزرے جبکہ باقی ماندہ زندگی میں انہوں نے ایک لمحے کیلئے تاخیر نہیں کی۔
آٹھویں جماعت تک تعلیم پانے کے بعد (۱۹۲۵)میں باقاعدہ تعلیم کو خیر باد کہا، اور سندھ و پنجاب میں میوہ جات کی مارکیٹنگ کے کام سے وابستہ ہوگئے ۔ یہاں پر آپ نے ہندوستان میں اُٹھنے والے اس ولولہ ونگیز تحریکوں کی حدت محسوس کی جو انگریزی سامراج کے خلاف اٹھنے لگی تھی۔۔ اسی طرح سال ۱۹۲۷ تا ۱۹۳۰انکی سیاسی زندگی میں اہم سنگ میل ثابت ہوئے۔
ان سالوں میں انہوں نے دہلی، ممبئی، اور ہندوستان کے دیگر شہروں کےتفصیلی دورے کئے اور یہاں پر گاندھی جی، نہرو، مولانا ابو لکلام آزاد ، اور باچا خان جیسی ہستیوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے ساتھ باہمی مکا لمے کی روشنی میں اپنے سیاسی اہداف کو ازسر نو تشکیل دیا۔ ایک بنیادی تبدیلی جو انکی شخصیت میں رونما ہوئی، جس کا ذکر انہوں نے اپنی خود نوشت میں کیا ہے وہ یہ کہ انہوں نے عدم تشدد کے فلسفے کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔ سامراج کے ساتھ بندوق کے ذریعے لڑنے کے بجائے انہوں نے عدم تشدد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کیلئے حامی بھر لی۔
گاندھی جی کی صحبت میں پندرہ روز گزارے اور ان سے ضد سامراجی بیانئےکو سمجھنے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔ سیکھنے کیلئے ان کی آمادگی کا پتہ اس سے لگایا جاتا ہے کہ انہیں بیک وقت پانچ زبانوں پشتو، اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں قرات، تحریر اور تالیف کیاکرتے تھے۔ انکے صاحبزادے ڈاکٹر حامد خان اپنے ایک مقالے میں اس دلچسپ امر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ انہیں بلوچی، براہوی، سندھی، پنجابی، ہندکو اور گجراتی زبانوں میں تحریراور تقریر کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔ دوران اسیری ہی اعلیٰ تعلیم کی سندحاصل کی اور اسیری کے دوران کئی شہرہ آفاق کتابوں بشمول قرآن مجید کا پشتو میں ترجمہ کیا۔
خان شہید کی کل زندگی ۶۶ سال میں تقسیم ہندسےپہلے وہ چالیس سال گزارتے ہیں اور بھرپور انداز ےسے لڑکپن میں ہی انگریز کے خلاف لکھنے، پڑھنے ، جلسے جلوس نکالنے، اور لوگوں کو منظم کرنے کا کام شروع کر تے ہیں۔ اسی دوران آپ کو آپ اپنے ہی علاقے میں بھرپور انداز سے سامراجی نظام کے خلاف تنظیم سازی کا کام شروع کرتے ہیں۔ صحافتی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے بلوچستان کے پہلے اخبار ‘استقلال’ کا اجرا کرتے ہیں، ادبی اورمذہبی زعما کے ساتھ مکالمہ شروع کرتے ہیں اور زبان و شناخت کے مسائل پر قلم اٹھاتے ہیں، خصوصا پشتو رسم الخط کے حوالے سے ایک منفرد اپروچ کا داغ بیل ڈالتے ہیں۔
یلوچستان میں آباد بلوچوں اور پشتونوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر لانے کیلئے خان صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا۔ صف اول کے بلوچ سیاسی زعما اس حقیقت کو افشاں کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے کہ خان شہید نے انکی سیاسی تربیت اور تنظیم میں اہم کردار ادا کیاہے۔ آپ نے آزادی 1927 میں انجمن وطن نامی سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی، اور 1929 میں ورور پشتون کا قیام عمل میں لایا۔ ان تنظیموں کی بدولت آپ نے ہندوستان کے چوٹی کے بڑے سیاسی تنظیموں کے ساتھ ضد سامراجی مبارزے میں حصہ لیا۔ تقسیم ہند سے پہلے آپ کو چار دفعہ جیل جانا پڑا جس میں انڈیا چھوڑ دو تحریک میں آپ کی شمولیت کی پاداش میں ایک سال مسلسل قید بھی شامل ہے۔
پاکستان بننے کے وقت آپ کی عمر غالباً چالیس تھی اور آپ کو تقسیم کے بعد مزید 26 سال زندہ رہنے کا موقع ملا، جس میں سے 23 سال جیل اور حوالات میں کٹ گئے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خان شہید اور ان کے پیش رو باچا خان نے آکر کیا جرم کیا تھا کہ ایک کو تقسیم کے بعد 23 سال اور دوسرے کو 16 سال تک جیل اور حبس بے جا میں رکھا گیا۔اس سوال کوکماحقہ بیان کرنے کیلئے طویل تحریر کی ضرورت ہے لیکن، مضبوط اور جمہوری فیڈریشن، عسکری اداروں کی سیاسی کردارکی روکھ تھام، اور برادر اسلامی ملک افغانستان کے ساتھ امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہنے کا موقف ہی انکے گلے کا زنہار بنا رہا۔
خان شہید نے جس جان فشانی، مصمم ارادے، اور عمل پیہم کے ساتھ اپنے قوم کے جائز اور دستوری حقوق کیلئے مبارزہ کیا، اور آخر کار انہیں اسی مشن کی پاداش میں اپنی ہی رہا ئش گاہ میں دستی بم سے شہید کیا گیا۔
قید و بند میں انہوں نے انسانوں کی تربیت، تحریر کو دوام بخشا، اور پشتو اور اردو زبان میں کئی شہرہ آفاق مذہبی اور سیاسی کتابوں کا ترجمہ کیا جس میں قرآن پاک کی تفسیر بھی شامل ہے۔
پاکستان اور اس خطے کی سیاسی ، دستوری اور سامراجی تاریخ میں خان شہید کی حیثیت کا تعین عصر حاضر کے محققین کریں گے، لیکن یہ امر مصدقہ ہے کہ ملکی یا سرکاری تاریخ کے اوراق ان کے تکرار سے ہر وقت مرعوب رہیں گے اور سرکاری مورخ سچ کے افشاں ہونے سے ہر وقت خائف رہے گا۔
♦