وہ جزیرہ جو دریافت نہ ہو سکا

ملک سانول رضا

دربار سجائے، دربان بلائے انتظار ہو رہا ہے۔

نذیر

تو نے بہت دیر کر دی۔ تُو نے صرف فاضل پور میں دھونی کیوں رمائی؟

یہ نذیر فیض کون ہے؟ جس کی خاطر رب کائنات منتظر ہے۔ تو آئیں دیکھتے ہیں، نذیر فیض کو، ملتے ہیں نذیر مگی سے۔

ایک دن ڈاکٹر خلیل صاحب کہنے لگے میری ہسپتال کے باہر ٹوٹی بنچ پر بیٹھے نذیر فیض کے قدموں میں گھر کا سربراہ بھی موجود ہے، دفاتر کا ان داتا بھی ادب سے بیٹھا ہے، خفیہ کا چیف بھی ملنے چلا آ رہا ہے۔

ملک صاحب راز کیا ہے؟

میں نے عرض کیا دوست! یہ اجلے تن والے اپنے میلے من کو یہاں پوتر کرنے آتے ہیں، منزہ ہونے آتے ہیں۔

تن کا لباس تو کسی بھی دھوبی سے دھلوایا جا سکتا ہے لیکن میلے دھلوانے کے لئے نذیر فیض تلاش کرنے پڑتے ہیں شاہ عنایت جیسی شہادتوں کا شرف حاصل کرنا پڑتا ہے.۔چے گویرا کے ساتھ پہاڑ سر کرنے ہوتے ہیں۔

رسترانی پہ گاتے مست توکلی کے پاؤں چھونے پڑتے ہیں۔

کسی بیوہ کی سسکیاں، کسی بوڑھے کی دم توڑتی حسرتیں، کسی جوان کی گُھن لگی جوانی کو سنبھالنے والے ہی نذیر فیض بنتے ہیں۔

فیض کہتا تھا مجھے سوشلزم کا پتا نہیں، ملاّ کے بے رحم ہاتھوں اور اس کی آگ لگاتی باتوں نے مجھے اسلام کے بھی قریب نہیں ہونے دیا۔ مجھے نہیں معلوم ازم کیا ہوتا ہے، نظام کسےکہتے ہیں. میں تو فقط اتنا چاہتا ہوں

کوئی بھوکا نہ سوئے، کوئی ماں نہ روئے، کوئی جواں نہ تڑپے، کوئی بوجھ نہ ڈھوئے۔

یہی میرا ارمان، یہی میرا مسلک، یہی میرا ایمان یہی میرا اسلام ہے۔

ہو سکتا ہے نام جمیل رکھا جائے اور وہ حسین نہ ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے عقیل نام ہو اور عقل کی باتیں نہ کرے، یہ بھی ممکن ہے کہ نور دین کے چہرے سے نور نہ ٹپکے…. لیکن ماں نام نذیر فیض رکھے اور خلق اس سے فیض نہ پائے یہ نہیں ہو سکتا……. فیصل ہسپتال کے باہر بیٹھا یہ غنی کبھی کسی بوڑھے بلوچ کی فیس کم کرا رہا ہوتا، کبھی کسی بے سہارا کی دوا لے رہا ہوتا، کبھی اپنے گورچانی یار سے کسی جوان کے روزگار کا سوال کرتا، تو کبھی سندھ کے مسافر کے لئے اختر خان سے کارڈ مانگ لیتا۔ ہم کہتے استاد محترم کیوں ہر کَی کی سفارش کرتا ہے تو فرماتے وہ میری زندگی کا آخری دن ہو گا جب میں کسی ضرورت مند کو خالی لوٹاؤں گا ۔

کچھ لوگ کہتے ہیں اور کوئی نہیں ہمارے سوا۔ کیا مطلب؟

یہی ناں کہ میں بڑا شاعر ہوں میرے علاوہ کوئی نہیں.۔میں بڑا ادیب ہوں میری بات حرفِ آخر ہےلیکن نذیر فیض پہ صد آفریں کہ ہر اچھی بات ہر اچھا شعر جس کا ہوتا جہاں سے سنتا اس کی تعریف کرتا اور دوستوں کو بتاتا کہ یہ دانش کااچھا شعر ہے یہ سالک کا اچھا کلام ہے….. فیض پیمبروں جیسا میں جو ٹھہرا۔

ہم اپنے چاروں طرف دیکھیں ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنے ہم نفسوں کی تحسین کرتے ہیں……. ارے ہم تو راستہ روکتے ہیں بند باندھتے ہیں کلام چراتے ہیں سر اچھالتے ہیں۔

نذیر فیض اپنے طبقے کا اپنے وسبے کا خیر خواہ تھا اور یہی لوگ ہی آج یہاں موجود ہیں، جو دوسرے درجے سے آئے ہیں وہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے آئے ہیں۔ جس طرح سارا سال لوٹ کر حرام کما کے آخری مہینے کعبۃ اللہ میں ماتھے رگڑنے جاتے ہیں۔ اسی طرح فیض کے طبقے کو کچلنے والے اگر آج یہاں کوئی موجود ہے تو اپنے جرم کا کفارہ ادا کرنے آیا ہے۔

ایک زمانہ تھا لوگ اپنی اولادیں، اپنی سوچیں کسی محترم کسی پاکیزہ کسی برگزیدہ ہستی کی نظر کرتےرسول کریم سے پیر فریدن لال تک ارے بابا سوچیں خیالات نظریات اولادیں ہی تو ہوتی ہیںیہ فرمان رسول ہے یہ دوہڑہ فرید ہے حالانکہ اکثر اوقات یہ ان کا فرمایا نہیں ہوتا… . لیکن کرے منسوب کرنے والا اس مقام و مرتبہ کا جو نہیں۔ اسی لئے اپنی بات اپنا کلام اپنے قول ان ہستیوں کے حضور پیش کر کے معتبر کرتا ہے….. آج یہی معاملہ نذیر فیض کے ساتھ ہو رہا ہے….. لوگوں کی اپنی مزاقیں، اپنی ٹوکیں، اپنے اقوال بارگاہ فیض میں مقام پا رہی ہیں. یہی تو عظمتِ فیض ہے یہی تو رفعتِ نذیر ہے۔

تو یہ ہے نذیر فیض جس کی خاطر عرش سجائے ربِ اکبر منتظر ہے فرمایا۔۔۔

فیض

کراچی کے درندوں نے کہرام مچا رکھا ہے لہوری گنجوں نے خنام کر رکھا ہے کوئٹہ کے شیطانوں نے ہزارہ خون بہا رکھا ہے۔

نذیر! کوئٹہ میں ڈاکٹر مری کی ہسپتال کے باہر بنچ رکھی ہے جلدی جاؤ تھکے ماندے سپاہیوں کو کوئی ایسی چائے پلاؤ کہ ان کی پہچان لوٹ آئے جرنیل ہر گئے وزیر مر گئے کچھ نہ کر سکے تو اپنے جادو سے ان کو اپنا گرویدہ بنا کوئی ایسی چائے پلا کہ ان کے اندر دھل جائیں کوئی نظم سنا کہ پتھر پگھل جائیں۔

ایک پاکیزہ روح آگے بڑھی عرض کیا اے میرے کبریا اے مالکِ دو جہاں لپیٹ دے اس کھیل کو، ختم کر دےہم تو مایوس ہو چکے ہیں۔

یہ سن کر فیض آگے آیا اور کہا اے نیک روح اے پاک باطن ہستی اتنا جلد مایوس ہو گئے. مجھے دیکھیں میں تو بیٹے فیصل کی بے روزگاری سے نہیں ہارا۔

ارشد کی بے وطنی سے مایوس نہیں ہوا ۔

میں تو پھول جیسے آصف کو قہر برساتے سورج کے نیچے برف بیچتے نہیں رویا۔ میرے فاقے مجھے نہیں ڈرا سکے حکمران کے فرامین نہیں جھکا سکے میں زندہ ہوں مکمل ہوش کے ساتھ پورے جوش کے ساتھ کھڑا ہوں پوری آن سے انسانیت کی شان سے

تو کیسا فرشتہ ہے چار دھماکوں دو جنگوں سے گھبرا گیا ہے مایوس ہو گیا ہے

میرے آنگن میں جھانک تیرا کلیجہ منہ کو آئے گا میرے اندر جھاتی مار تیرے ولی میرا ماتھا چومیں گے۔

اے میرے خالق اے میرے رب صرف اتنا کر ذرا نیچے اتر میرا ساتھ دے میری ٹوٹی بینچ پر بیٹھ میں بتاتا ہوں زندگی کیا ہے۔ موت کسے کہتے ہیں درد کیا ہے کرب کسے کہتے ہیں اور……. میں ان سے خوشیاں، مسکراہٹیں اور قہقہے کیسے کشید کرتا ہوں۔

نذیر فیض کے رسم چہلم کی تقریب میں پڑھا گیا۔

اسے بھی پڑھیں

نذیر احمد فیض۔۔۔سرائیکی کا فیض

کوئی گِھندے میڈے پاک فوجی، قَسمِ خُدا دی میں سارے وچینداں

Comments are closed.