محمّد علی جناح ۔۔۔ غیر فِطری ریاست کے بانی

آصف جاوید۔ ٹورنٹو

پاکستان ایک غیر فطری ریاست ہے۔ یہ ملک ایک جھوٹ کی بنیاد پر بنا، وہ جھوٹ یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں ، جس کی بنیاد پر مسلمان ایک علیحدہ وطن چاہتے ہیںہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں، ۔ یہ پاکستان بنانے کے لئے جناح صاحب کی منطقی دلیل تھی، جس کو ایک وکیل کی حیثیت سے جناح صاحب نے انگریزوں کے سامنے پیش کیا، اور اس دلیل کی بنیاد پر جناح صاحب نے پاکستان کا مقدمہ جیت لیا ۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ جناح صاحب کی مدبّرانہ قیادت میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن پاکستان بنایا ، اور اُس وقت کے حالات کے تحت بظاہر ایسا تھا بھی ۔

مگر معروضی حالات کچھ اور تھے۔

تاریخ ،سماجیات اور سیاسیات سے واقف لوگوں کو علم ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد انگریز پوری دنیا میں پھیلی ہوئی اپنی نو آبادیات کو ختم کرکے ان کو آزادی دینا چاہتے تھے، اور برطانوی اربابِ اقتدار ، امریکہ کے حلیف کے طور پر امریکہ کی ایماء پر موجودہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں ایک بفر اسٹیٹ بنانے کے پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ، ہندوستان سے ہی کسی اندرونی مطالبے کے لئے فضاء کو سازگار بنانے کی درپردہ کوششوں مصروفِ عمل تھے۔ جو انہیں جناح اور مسلم لیگ کی شکل میں میسّر آگیا تھا۔ (اِس ہی لئے کچھ لوگ جناح صاحب کو انگریزوں کا ایجنٹ بھی سمجھتے تھے)۔

جناح صاحب کوئی مقبول عوامی لیڈر کبھی بھی نہیں تھے۔ نہ ہی انہیں عوامی سیاست کا کوئی تجربہ تھا۔ انہیں تو ہندوستان کی عوامی زبان ہندی (جسے پاکستان میں اردو کہا جاتا ہے)بھی نہیں آتی تھی۔ اپنی مادری زبان کچھی گجراتی بھی وہ مشکل سے بولتے تھے۔ جناح صاحب عوامی طرزِ زندگی سے الگ تھلگ ، بمبئی کی انتہائی اعلی، مہذّب سول سوسائٹی کے نمایاں فرد اور ایک کامیاب وکیل تھے۔ مغربی طرزِ زندگی کے دلدادہ تھے، انگریزی بولتے تھے، کتّے پالتے تھے، ریس کورس گراونڈ میں گھوڑوں کی ریس پر باقاعدہ جوا کھیلتے تھے، سور کا گوشت کھاتے اور وہسکی شراب پیتے تھے۔

انہوں نے تو مسلم لیگ کی صدارت اور عوامی زندگی شروع کرنے سے قبل کبھی نماز بھی نہیں پڑھی تھی۔ جناح صاحب سر آغا خان کے ذاتی دوست تھے اور سر آغا خان نے ہی جناح صاحب کو مسلم لیگ کی صدارت کی پیشکش کی تھی۔ واضح کرتا چلوں کہ یہ وہی سر آغا خان تھے، جن کو انگریزوں نے ہی مسلمانوں کی کسی نمائندہ سیاسی جماعت کو کھڑا کرنے کا مشورہ دیا تھا اور جس کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی گئی ، جس کا پہلا اجلاس بنگال میں ہوا تھا۔

جناح صاحب ایک ہوشیار، سمجھدار اور زیرک وکیل تھے۔ ان کو دلیل اور منطق کے ذریعے اپنی بات منوانے کا فن آتا تھا۔ جناح صاحب انگلینڈ کے مشہور قانونی تعلیمی ادارے لنکنز اِنسے تعلیم یافتہ ، تجربہ کار قانون دان تھے، عالمی قوانین اور اقوامِ متّحدہ کے عالمگیر منشور برائے انسانی حقوق سے بھی پوری طرح واقف تھے۔

جناح صاحب کو سیکولر ازم اور سیکولر ریاستی نظام کی برکات کے بارے میں اچھّی طرح معلوم تھا،ہندوستان کی تقسیم کے لئے ، مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست کا نعرہ لگا کر ، انہوں نے ٹیکنیکل بنیاد پر اپنا مقدمہ تو جیت لیا تھا، ایک جھوٹ کی بنیاد پر علیحدہ وطن توحاصل کرلیا تھا، مگر وہ پاکستان کو کبھی بھی ایک تھیا کریٹک ، یعنی نظریاتی مذہبی ریاست بنانا نہیں چاہتے تھے۔

جناح صاحب دانشورانہ سطح کے قانون داں تھے۔ انہیں بنیاد پرست مذہبی ریاست کی خامیوں اور ہولناکیوں کا مکمّل ادراک تھا ، اس لیے انہوں نے گیارہ اگست ، سنہ 1947 کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے، نوزائیدہ ملک کے آئینی ڈھانچے کاروڈمیپ بھی پیش کردیا تھا۔ جس میں جناح صاحب نے واضح طور پر بتا دیا تھا کہ آج سے آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جانے کے لئے، اپنے کلیسائوں میں جانے کے لئے، اپنی مساجد میں جانے کے لئے، آج کے بعد آپ دیکھیں گے کہ پاکستان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہے گا، مسلمان مسلمان نہیں رہے گا ۔

یہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کا واضح اعلان تھا۔ جس کو تقویت جناح صاحب کے اِس اقدام سے ملتی ہے کہ جب انہوں نے اپنی پہلی کابینہ بنائی تو اُس میں جوگندر ناتھ منڈل نامی ہندو بنگالی کو جو بنگال سے کانگریس کی سیٹ پر منتخب ہوئے تھے، اُن کو اپنی کابینہ کا پہلا وزیرِ قانون بنایا، اور ایک احمدی کو اپنی کابینہ کا پہلا وزیرِ خارجہ بنایا تھا۔

جناح صاحب کی گیارہ اگست کی تقریر سننے کے بعد بنیاد پرست مسلمانوں کو سکتہ طاری ہوگیا تھا، جو ان کی وفات کے بعد قرار دادِ مقاصد کی شکل میں سامنے آیا۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان پہلے وجود میں آیا، اور اس کے بنانے کی قرار داد پاکستان کے بننے کے بعد گھڑی گئی۔ نظریہ پاکستان جس کو دو قومی نظریہ بھی کہا جاتا ہے، ایک سفید جھوٹ تھا، اگر دو قومی نظریہ سچ ہوتا، تو پاکستانی مسلمان ایک قوم ہوتے۔ بنگالی مسلمان 23 سال تک اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں حق تلفی کا شکار اور ذلیل نہ ہوتے۔پاکستان کبھی بھی نہ ٹوٹتا۔

دو قومی نظریہ، 1971 میں بنگلہ دیش بننے اور سقوطِ پاکستان کے ساتھ ہی خلیجِ بنگال میں ڈبو دیا گیا تھا۔ جناح کا پاکستان تو 1971 میں ہی ختم ہوچکا ہے۔ موجودہ پاکستان پنجاب کا محکوم اور غلام پاکستان ہے، صوبہ پنجاب کے علاوہ باقی تین صو بوں کے عوام پنجابیوں کی بدترین غلامی میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ طاقت کا سرچشمہ افواجِ پاکستان میں 90 فیصد جنرلز، 85 فیصد افسران اور 75 فیصد سے زائد جوان پنجاب سے تعلّق رکھتے ہیں۔

جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نو ں لگ گیا داغ کے نعرے کے بعد پنجاب سے قومی اسمبلی کی جو 100 فیصد نشستیں ہیں وہ پنجابی نعرے کی بنیاد پر پنجابیوں کو وفاق میں حکومت قائم کرنے کا قانونی جواز فراہم کرتی ہیں۔ وفاق کے زیرِ انتظام اداروں اور بیورو کریسی میں پنجابیوں کی تعداد 70 فیصد سے زائد ہے۔ پاکستان عملاً پنجاب کی غلامی میں ہے۔

واضح اور تازہ مثال یہ ہے کہ سی پیک کا منصوبہ گوادر اور بلوچستان میں ہے، مگر ترقّی صرف پنجاب میں ہورہی ہے۔ خالص پاکستانی قوم نام کی کوئی مخلوق پاکستان میں نہیں رہتی، یہ سب خام خیالی ہے کہ ہم ایک پاکستانی قوم ہیں ۔ آج 70 سال گزرنے کے بعد بھی ماشاء اللہ ہم سب پنجابی، ، سندھی، پختون، بلوچی، اور مہاجر ہیں ۔

مذہب کو ریاست اور ریاست کو سیاست سے ختم کئے بغیر ، سماجی انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کئے بغیر، افوجِ پاکستان ، وفاقی اداروں اور بیوروکریسی میں پنجاب کی اجارہ داری ختم کئے بغیر اور ان اداروں میں تمام لسّانی قومیتوں کو منصفانہ نمائندگی دئے بغیر، جاگیر داری اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کئے بغیر ، ایک پاکستانی قومیت کا تصوّر محال ہے۔ یہی حقیقت بھی ہے۔

میں ایک لکھاری ہوں، تاریخ اور سماجیات کا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے غیر فطری ریاست کے بانی محمّد علی جناح کے یومِ پیدائش پر میں جناح صاحِب کو صرف اپنی تحریر سے ہی خراجِ تحسین پیش کرسکتا ہوں۔ جو میں نے کردیا ہے۔ اب اگر کوئی مجھ پر اپنا غصّہ اور دِل کی بھڑاس نکالنا چاہے تو اس کے لئے کمنٹس کا آپشن حاضرِ خدمت ہے، جس کا دل چاہے طبع آزمائی کر سکتا ہے، تمام آراء کا  خیر مقدم کیا جائے گا۔

15 Comments