سید نصیر شاہ
مشہور مسلم لیگی لیڈر سردار شوکت حیات اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں’’قائد نے اپنے کارکنوں کی بھلائی او ربہبود پر ہمیشہ نظر رکھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آغاز 1947ء میں مجھے نصیحت کی کہ مجھے سیاست چھوڑ دیناچاہئے میں نے کنکھیوں سے اُن کی طرف دیکھا جس پر اُنہوں نے جواب دیا میں جانتا ہوں کہ تم یہ سُن کر ضرور حیران ہوگے کہ مےَں ایک جان نثار کارکن کو جنگ کے دوراں علیحدگی کا مشورہ دے رہا ہوں۔ جبکہ تمہاری ضرورت ہے مگر شوکت میں جانتا ہوں کہ تم ایک محنتی، بااصول اور دیانتدار شخص ہو۔ تم نے پاکستان کے لئے بڑی قربانی دی ہے لیکن تم میں ایک کمی نظر آتی ہے تمہارے پاس وہ وسائل نہیں ہیں جو پنجاب کے دوسرے لیڈروں کے پاس ہیں۔ براہ مہربانی جاؤ او ردولت حاصل کرو۔ کیونکہ وہ قوم جس کی تم خدمت کررہے وہ اپنے لیڈر کی جیب سکوں کی کھنک سننے کی عادی ہے۔ مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خاں جیسے بڑے لوگوں کو دیکھو اُنہیں اپنی خدمات کا صلہ کیا ملا۔ حتیٰ کہ مجھے بھی اُس وقت تک قبول نہ کیا گیا جس وقت تک میں نے اپنی محنت سے پچاس، ساٹھ لاکھ روپے کے وسائل جمع نہ کرلئے۔
میں نے کہا جناب کیا آپ سنجیدہ ہیں کہ میں ایسے نازک وقت میں سیاست سے کنارہ کشی کرلوں۔ میں نے ایک سپاہی کی حیثیت سے یہ نہیں سیکھا کہ حالت جنگ میں راہ فرار اختیار کی جائے او رمیں نے یہ بھی نہیں سیکھا کہ تھوڑے سے وقت میں بڑی دولت کیسے حاصل کی جائے۔ اُنہوں نے لمحہ بھرکے لئے سوچا پھر اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کے۔ایچ خورشید سے کہا کہ وائسرائے کی ایگزیکٹوکونسل کے ممبر مسٹر عزیز الحق کے ساتھ فون پر اُن کی بات کرائے۔ جب سرعزیز فون پرآئے تو اُنہوں نے کہا میں شوکت کو تمہارے پاس بھیج رہا ہوں، تاکہ دیانتداری سے اسے امیر بنایا جائے۔ تم اس کی کیسے مدد کرسکتے ہو پھر انہوں نے مجھے کہا کہ میں سرعزیز کے پاس چلاجاؤں۔ میں وہاں گیا تو اُنہیں اپنا منتظر پایا۔ انہوں نے پوچھا سردار صاحب میں آپ کے لئے کیا کرسکتا ہوں۔ میں نے بتایا کہ میں درحقیقت کچھ نہیں جانتا البتہ قائد کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو دوہرادیا۔
سرعزیز نے اپنے چیف کنٹرولر درآمد مسٹر مہرتہ اور چیف کنٹرولر برآمد میاں امین الدین کو فوراً بلایا۔ شام تک مجھے ایک کروڑ سے زیادہ کے پرمٹ سے لاددیا گیا یہ وہ لائسنس تھے جن پر دوسری جنگ عظیم کے دوران پابندیاں تھیں اور ابھی ابھی پابندیاں اٹھالی گئی تھیں۔ اگلی صبح ہر ایک کو علم ہوگیا مجھے اتنے بڑے لائسنس عطا کئے جاچکے تھے۔ چنانچہ جلدہی کاروباری شکاری میرے ہوٹل میں پہنچ گئے او رلائسنسوں کے بدلے ستائیس27لاکھ دینے کی پیشکش کی۔ میں نے قبول کرنا مناسب نہ سمجھا اس لئے کہ اگر میں ایسا کرتا تو یہ قائداعظم کے نام پر دھبہ ہوتا کہ اُن کے نامزد فرد نے غیر قانونی طور پر لائسنس بیچ دیے ہیں۔ اگلے روز میں دوڑا دوڑا پھر قائداعظم کے پاس پہنچا او راُن سے کہا جناب آپ کی شفقت نے مجھے بڑی مصیبت میں مبتلا کردیا ہے میں اس تجارت سے بالکل ناواقف ہوں دوسرے میں اس کے غیر قانونی سودے سے بھی باز رہنا چاہتا ہوں اُنہوں نے خورشید کو بلایا او رکہا کہ وہ اُن کا بمبئی میں سیٹھ احمد سے رابطہ کرائے۔ رابطہ ہونے پر سیٹھ احمد سے کہا گیا کہ وہ میرے ساتھ لاہور میں رابطہ کرکے درآمد برآمد کی مشکلات دور کرنے میں مدد کرے۔ احمد کی برطانیہ اور یورپ میں تنظیمیں قائم تھیں اُس نے میرے نام چند آرڈربک کئے۔‘‘(’’گم گشتہ قوم از سردار شوکت حیات صفحہ219‘‘)۔
اس طویل قتباس سے چند امور کھل کر سامنے آتے۔
1۔ قائداعظم سیاست کے لئے سرمایہ دار ہونا ضروری سمجھتے تھے۔
2۔ قائداعظم نے انگریز سے آزادی حاصل کرنے کی مسلم لیگی کوشش کو حالت جنگ کہا تھا ظاہر ہے یہ جنگ انگریز کے ساتھ تھی مگر اُسی انگریز کی حکومت چلانے والوں کے ساتھ اتنا اچھا تعلق کہ اُن کے ایک اشارے پر ایک کروڑ روپے کے لائسنس مل گئے۔ خیال رہے کہ اُس زمانے کے ایک کروڑ روپے آج کے پچاس کروڑ کے برابر ہونگے۔
3۔یہ لائسنس ایسے شخص کو دیے گئے جو اس کاروبار کا اہل نہ تھا۔
4۔ قائداعظم نے یہ بھی بتایا کہ خود اُنہیں سیاست میں داخل ہونے کے لئے دولتمند ہونا پڑاتھا۔
انہوں نے کس طرح اپنے حالات سنوارے۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے ایک محقق جناب عارف میاں لکھتے ہیں۔
’’ابتداء میں قائداعظم کے حالات مایوس کن تھے۔ ان کی وکالت نہیں چلتی تھی اُن کی سماجی حیثیت ایک مقروض شخص کی تھی جس کے پاس ذاتی گھر تھا نہ دفتر وہ جس دفتر میں کام کرتے اُس سے جس ہوٹل میں رہتے تھے اُس تک کا طویل سفر پیدل طے کرتے تھے۔ ان تلخ حالات نے محمد علی جناح کے مزاج پر بھی اثر ڈالا تھا۔ او راُن میں چڑ چڑا پن آگیا تھا جو تقریباً زندگی بھر اُن کے ساتھ رہا۔ اس حالت میں ایک پارسی بزرگ وکیل نے اُن سے ہمدردی کی او رانگریز ایڈووکیٹ جنرل مسٹر مبکفرسن سے ملاقات کرادی جن کی سفارش پر محمد علی جناح کو تین ماہ کے لئے عارضی مجسٹریٹ مقرر کردیا گیا۔ بعد میں محمد علی جناح کو مزید تین ماہ کے لئے عارضی مجسٹریٹ رہنے کا موقع مل گیا۔ لیکن ان چھ ماہ میں محمد علی جناح نے جو کچھ کمایا اُس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے اپنا سارا قرض اُتاردیا۔ گاڑی خرید لی بہن کو اچھے سکول میں داخل کرادیا۔ اپنا الگ دفتر بنادیا جس میں بہترین فرنیچر ڈالا اس سب کچھ کے باوجود نہ صرف کچھ رقم بچائی بلکہ آئندہ ملازمت جاری رکھنے سے انکار کردیا۔ سوال یہ ہے کہ محمد علی جناح کی تنخواہ کتنی تھی اور کیا یہ ساری تبدیلیاں تنخواہ کی رقم سے ممکن تھیں۔‘‘ (’’برصغیر کیسے ٹوٹا از عارف میاں صفحہ46‘‘)
عارف میاں نے عبارت کے آخر میں جو سوال اُٹھایا ہے اُس کا جواب ہرپڑھنے والا جان سکتا ہے۔ چھ ماہ کی تنخواہ میں اتنا سب کچھ ممکن نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ مصنف نے قائداعظم کی دیانتداری کو مشکوک ٹھہرادیا ہے ہم اس معاملہ میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بہرحال یہ ابتداء تھی انتہا کاانداز لگاناہوتو ایک مسلم لیگی قلم کار فضل حسین اعوان کی یہ تفصیل بڑھ لیجئے وہ لکھتے ہیں۔
’’قائداعظم محمد علی جناح1936ء میں انگلینڈ سے ہندوستان لوٹے تو بمبئی مالابارہلز میں اپنے لئے شاندار اور وسیع وعریض رہائش گاہ تعمیر کروائی۔ انہوں نے تعمیر کی خود نگرانی کی اس بنگلہ پر اُس وقت دو لاکھ روپے کے اخراجات ہوئے تھے یہ وہ دور تھا جب سونے کی فی تولہ قیمت10 روپے تھی۔ سات ایکڑ پر مشتمل آج جناح ہاؤس کی قیمت ایک، محتاط اندازے کے مطابق ساٹھ لاکھ ڈالر ہے۔ جناح ہاؤس کی خوبصورتی میں اٹلی کے ماربل اور اخروٹ کی لکڑی کے کام نے بے انتہا اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ قائداعظم کے کئی کئی ایکڑ پر پھیلے ہوئے دہلی، کراچی او رلاہور میں گھر موجود تھے۔‘‘۔(’’روزنامہ نوائے وقت لاہور 29 اگست 2010)۔
یہی کالم نگار اپنے ایک دوسرے کالم میں قائداعظم کی جائیداد کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’قائداعظم محمد علی جناح کا بمبئی کا گھر گورنر ہاؤس کے بعد سب سے بڑا گھر تھا۔ دہلی میں اُن کے گھر کا شمار چار پانچ بڑے گھروں میں ہوتا تھا۔ لاہور میں آرمی ہاؤس گورنمنٹ ہاؤس کے بعد سب سے بڑی عمارت ہے یہ قائداعظم کی ذاتی جائیداد ہے جو انہوں نے فوج کے نام کی تھی۔ قائداعظم نے شاہانہ زندگی گزاری۔ اُس دور میں جب پورے لاہور میں دوکاریں ہوا کرتی تھیں قائداعظم کے ہر گھر میں سات آٹھ گاڑیاں ڈرائیوروں کے ساتھ موجود رہتی تھیں۔ چار، پانچ باورچی تھے‘‘۔(’’روزنامہ نوائے وقت لاہورنومبر 2009)۔
قائداعظم سے منسوب گفتگو میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مولانا حسرت موہانی او رمولانا ظفر علی خان کو کیا صلہ ملا؟ اس سے ظاہر ہے کہ قائداعظم کے نزدیک کامیاب سیاست دان وہی ہے جو اپنے کام کا صلہ حاصل کرنے او رصلہ بھی مادی ہونا چاہئے کیونکہ اگر غیر مادی صلہ کی بات ہوتی تو قائداعظم ان دونوں حضرات کے متعلق یہ بات نہ کہتے مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خان دونوں کو ان کی قوم نے بہت احترام دیا انہیں تاریخ میں قابل فخر مقام ملا اور آج بھی انہیں قومی ہیروز شمار کیا جاتا ہے۔ قائداعظم کی بات سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک سیاست عوام کی خدمت نہیں بلکہ منافع بخش کاروبار ہے۔
قائداعظم مسلم لیگ میں ذمہ دار عہدے بھی ان لوگوں دینے کے قائل تھے جو صاحب حیثیت ہوں اور انتہائی دولت مند ہوں۔ مولانا ظفر علی خان نے صحافت سے بہت کچھ کمالیا تھا مگر اس کے باوجود قائداعظم کے معیار کے مطابق ان کے پاس دولت نہیں تھی اس لئے وہ انہیں اس قابل بھی نہیں سمجھتے تھے کہ انہیں ورکنگ کمیٹی میں شامل کیا جاتا ایس ایم طوسی لکھتے ہیں۔
’’ایک دفعہ میں نے جناح صاحب سے کہا کہ مولانا ظفر علی خان نے پنجاب میں بڑا کام کیا ہے ان کو ورکنگ کمیٹی میں رکھنا چاہئے اس پر وہ بولے ان کے اخراجات کون پورے کرے گا۔(قائداعظم کے رفقاء سے ملاقاتیں ص116)۔
ممکن ہے قائداعظم کا یہ خیال ہو کہ جو لوگ معاشی طور پر مضبوط ہوں وہی بے طمع ہوکر سیاست کرسکتے ہیں، انہیں خریدا نہیں جاسکتا وہ آزادانہ سیاست کرسکتے ہیں ۔اس کے برعکس جو لوگ خود کفیل نہیں ان کی مجبوریاں انہیں کبھی نہ کبھی بک جانے او رجھک جانے پر آمادہ کرسکتی ہیں۔ تیسری دنیا کے اخلاقی لحاظ سے کمزور معاشرہ میں بڑی حدتک یہ بات درست بھی ہے لیکن سیاسی پارٹیوں کے عہدے سرمایہ داروں کے لئے مختص کردینا بھی زیادتی ہے۔ ظفر علی خاں کو مجلس عاملہ کا ممبر بنانے پر بھی قائداعظم کا معترض ہونا سراسر زیادتی ہے۔ اسی بات کا اثر تھا کہ مسلم لیگ جاگیرداروں کا کلب بن گئی اور سیاست پر اہل زر کا قبضہ ہوگیا۔ سرمایہ داروں کے متعلق یہ سمجھنا کہ اُن کی بھوک مٹی ہوئی ہوتی ہے اس لئے وہ بک او رجھک نہیں سکتے، قطعی غلط ہے۔ کیونکہ ہوس کامنہ کھل جائے تو اُس صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے خواہشات بڑھتی چلی جاتی ہیں اور آدمی پاگلوں کی طرح دولت کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے۔ آپ اس کی حد متعین نہیں کرسکتے کہ کسی کے پاس اتنی رقم آجائے تو اس کی بھوک ختم ہوجاتی ہے۔ سردار شوکت حیات کوئی نتھوخیرے نہیں تھے ان کے والد سرسکندر حیات پنجاب کے وسیع وعریض صوبہ کے وزیراعظم (وزیر اعلیٰ، اس وقت صوبہ کے وزیر اعلیٰ کو وزیر اعظم کہا جاتا تھا) رہے اور جاگیردار بھی تھے مگر قائداعظم کے خیال میں اب بھی وہ اس معیار کے نہیں تھے کہ سیاست میں حصہ لے سکیں۔ قائداعظم والی مسلم لیگ میں کون لوگ شامل تھے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے اخبار ’’مدینہ‘‘ نے لکھا تھا۔
’’وہ لوگ جو پہلے یونین جیک کے سایہ میں جمع تھے اب مسلم لیگ میں شامل ہیں ان کی خود غرضیوں کے سرچشمے مختلف ہیں مگر ان کا جماعتی نظام ایک ہے غور کیجئے مسلم لیگ نے کتنے طبقوں کو ایک جگہ جمع کردیا ہے۔
(1)انگریزی حکومت کے تمام خطاب یافتہ شہزادے۔
(2) 1857ء کے اصل غداروں کی اولاد جن کو سرسید نے یہ سبق دیا تھا کہ انگریزی حکومت لازوال ہے۔
(3)انگریز عہد حکومت کے سرکاری دفاتر کے تمام تنخواہ دار ملازم جنہوں نے پیدائشی طور پر مادربرطانیہ کا دودھ پیا ہے۔
(4) 1914ء کی جنگ عظیم اور1939ء کی جنگ عظیم کے فوجی ٹھیکیدار۔
(5)وہ تمام پیر فقیر، سجادہ نشین، درویش حجرات اور عافیت پسند علماء جنہوں نے اسلام کے لئے کبھی کسی مصیبت کے وقت کلمہ حق زبان سے نہیں نکالا‘‘
(ہفتہ روزہ’’مدینہ‘‘ بجنور4مئی1946ء)
’’پیر فقیر او رسجادہ نشین حضرات‘‘ سے یہ نہ سمجھاجائے کہ لکھنے والا’’اولیاء دشمن‘‘ عقائد رکھتا ہے او روہ خواہ مخواہ سجادہ نشین حضرات کا استخفاف کررہا ہے حقیقت یہ ہے کہ بہت سے سجادہ نشین حضرات مشہور مشائخ خانوادوں سے تعلق رکھتے تھے انہیں گدی تو ورثہ میں مل گئی تھی مگر انہوں نے اپنے آباو واجداد کی زہدوتقویٰ کی راہ نہیں اپنائی تھی او رسرکار پرستی کا شیوہ اختیار کرلیا تھا۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق علامہ اقبال نے کہا تھا۔
میراث میں آئی ہے انہیں سند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
ان کی سرکار پرستی بہت ہی بھیانک رنگ اختیار کرتی گئی تھی1857ء میں انہوں نے انگریز حکومت کی وفاداری میں جوکارنامے سرانجام دئیے تھے او رجو صلہ پایا تھا اس کا مفصل حال کئی کتابوں میں مل جاتا ہیں ہم یہاں مثال کے طو رپر ایک دو مشہور خانوادوں کا ذکر کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے معروف کالم نگار خالد مسعود خان لکھتے ہیں۔
۔’’10جون1857ء کو ملتان چھاؤنی میں پلاٹون نمبر 69 کو بغاوت کے شبہ میں نہتا کیا گیا او رپلاٹون کما نڈر کو مع دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑادیا گیا۔ آخر جون میں بقیہ نہتے پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ کیا جائے گا او رتہ تیغ کردیا جائے گا۔ سپاہیوں نے بغاوت کردی تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے علم بغاوت بلند کیا۔ انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو شہر اور چھاؤنی کے درمیان پل شوالہ پر دربار بہاء الدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا او رتین سو کے قریب نہتے مجاہدین کو شہید کردیا۔ یہ شاہ محمود قریشی ہمارے موجودہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے لکڑ دادا تھے۔ ان کا نام ان ہی کے نام پر رکھا گیا کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہرسے باہر نکل رہے تھے کہ انہوں نے دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا او ران کا قتل عام کیا ۔مجاہدین نے اس قتل عام سے بچنے کے لئے دریا میں چھلانگ لگادی کچھ ڈوب کر جان بحق ہوگئے او رکچھ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے ۔پار پہنچ جانے والوں کو سیدسلطان قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلال پور پیروالہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کردیا۔ جلال پور پیروالہ کے موجودہ ایم این اے دیوان عاشق علی بخاری انہی کی آل میں سے ہیں۔ مجاہدین کی ایک ٹولی شمال میں حویلی کو نگاکی طرف نکل گئی جسے پیر مہر چاہ آف حویلی کورنگانے اپنے مریدوں او رلنگریال، ہراج، سرگانہ ترگڑ سرداروں کے ہمراہ گھیرلیا او رچن چن کر شہید کردیا۔ مہر شاہ آف حویلی کورنگا سید فخرامام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا ۔اسے اس قتل عام میں فی مجاہد شہید کرنے پر بیس روپے نقد او رایک مربع اراضی عطا کی گئی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو1857ء کی جنگ آزادی کچلنے میں انگریزوں کی مدد کے عوض مبلغ تین ہزار روپے نقد جاگیرسالانہ معاوضہ مبلغ ایک ہزار سات سواسی روپے آٹھ چاہات جن کی سالانہ آمدنی ساڑھے پانچ سوروپے تھی بطور معافی دوام عطاہوئی مزید یہ کہ1860ء میں وائسرائے ہند نے بیگی والا باغ عطا کیا مخدوم شاہ علی محمد کو دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کو شہید کرنے کے معاوضہ کے طور پر وسیع جاگیر عطا کی گئی‘‘
ذرا آگے چل کر مذکورہ کالم نگار لکھتے ہیں۔
’’جانگلی سردار احمد خان کھرل پر حملہ ہوا وہ عصر کی نماز پڑھ رہا تھا اس حملہ میں انگریزی فوج کے ہمراہ مخدوموں، سیدوں، سجادہ نشینوں اور دیوانوں کی ایک فوج ظفر موج تھی جس میں دربار سید یوسف گردیز کے سجادہ نشین سید مراد شاہ گردیزی ، دربار بہاؤ الدین زکریا کا سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی دربار فریدالدین گنج شکر کا گدی نشین مخدوم آف پاکپتن، دادشاہ آف ڈولابالا، سردار شاہ آف کھنڈا اور گلاب علی چشتی آف بٹی لال بیگ کے علاوہ بھی کئی سجادہ نشین شامل تھے‘‘۔(’’تصوف کی آفاقی قدریں‘‘ روزنامہ جنگ‘‘ لاہور فروری2008ء)۔
’’جاگیرداری نظام‘‘ انگریزوں سے پہلے بھی موجود تھا مگر اس کی صورت مختلف تھی۔ وہ جاگیریں عارضی حیثیت رکھتی تھیں وہ جاگیریں بادشاہ فوجی خدمات سرانجام دینے پر عطا کرتا تھا۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ فلاں کو پنج ہزاری فلاں کو دس ہزاری جاگیردی گئی اس کا مطلب تھا فلاں کو جو جاگیردی گئی ہے اس کے صلہ میں ضرورت پڑھنے پر وہ پانچ ہزار یا دس ہزار جوان فوجی خدمات سرانجام دینے کے لئے مہیا کرے گا۔ پھر یہ بھی کہ یہ جاگیریں بادشاہ کے رحم وکرم ہوتی تھیں۔ بادشاہ جب چاہتا جاگیردار سے جاگیر واپس لے لیتا تھا ۔انگریز نے یہاں اصل جاگیرداری نظام نافذ کیا۔ اب جسے جاگیردی جاتی تھی وہ اس کی ذاتی ملکیت ہوجاتی تھی۔ ان جاگیرداروں سے یہ توقع رکھی جاتی تھی کہ وہ حکومت کی ہر قسم کی خدمات سرانجام دیں گے۔
انگریزوں نے بڑی دانائی سے یہ سمجھ لیا تھا کہ گدی نشین حضرات لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں اس طرح وہ دوسرے لوگوں سے زیادہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ پس انہوں نے دوسرے بااثر لوگوں کے ساتھ گدی نشین حضرات کو بھی جاگیریں عطا کی تھیں ۔اس طرح انہیں زیادہ وفادار لوگ میسر آگئے تھے1857ء میں یہ لوگ جس طرح کام آئے تھے اس کی مختصر تفصیل آپ پڑھ چکے ہیں۔ جب انگریزوں نے محسوس کیا کہ انہیں ہندوستان چھوڑ نا پڑے گا تو جاگیرداروں کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کا حکم دیا ایک کالم نگار جناب احمد حسن کھوکھر لکھتے ہیں۔
’’جب پاکستان بننے لگا او ربرطانوی سامراج نے محسوس کرلیا کہ اب اسے ہر حال میں برصغیر چھوڑنا پڑے گا تو اُس نے آخری سالوں میں اپنے ہمنواؤں کو بھی مسلم لیگ میں شامل ہونے کا اشارہ کردیا تاکہ جب پاکستان بن جائے تو یہ لوگ بھی تحریک آزادی میں شامل تصور کئے جائیں، یہی ہوا کہ آخری وقت میں سندھ سرحد، بلوچستان اور پنجاب سے جاگیردار لوگ مسلم لیگ میں شامل ہونا شروع ہوگئے۔قیام پاکستان کے بعد ابھی پاکستان پوری طرح سنبھل بھی نہیں سکا تھا تویہ جاگیردار مضبوط ہوتے گئے۔(ہفتہ روزہ ندائے ملت لاہور۔21دسمبر2006 صفحہ46)۔
جب پاکستان بنا تو سیاست انہی جاگیرداروں اور بیوروکریسی کے ہاتھ آگئی اور سیاست عبادت سے ہٹ کر دولت مندوں کا کھیل بن گئی۔ ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی وسیع و عریض جائیدادیں جھوٹے کلیموں اور غاصبانہ قبضہ کی زد میں آگئیں۔ ایک کالم نگار ڈاکٹر عبدالغنی فاروق لکھتے ہیں۔
’’بدقسمتی سے انصار او رمہاجرین دونوں کی اکثریت نے حلال وحرام کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے ہندوؤں کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیا۔ خصوصاً مقامی باشندوں نے غاصبانہ قبضہ میں حدکردی۔ صرف ایک مثال پر اکتفا کرونگا۔ ڈاکٹر قاضی حمید اللہ مرحوم سیالکوٹ کے مقامی باشندے تھے، اُنہوں نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ سیالکوٹ میں ہندو اور سکھ بائیس سو2200دکانیں چھوڑ گئے تھے ان میں سے سولہ سو1600دکانوں پر مقامی لوگوں نے قبضہ کرلیا اورچھ سو دکانیں مہاجرین کو ملیں کم وبیش اس طرح مہاجرین کی بہت بڑی تعداد نے غلط کلیموں کے ذریعے ناجائز الاٹمنٹیں کرائیں گویا مال حرام پاکستان کی جڑوں میں بیٹھ گیا او ریہ بات یقینی حیثیت رکھتی ہے کہ جہاں مال حرام کا رفرما ہووہاں وہ معاشرے کے ایک ایک شعبے پر اپنے منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ چنانچہ پورا پاکستانی معاشرہ یوں بددیانتی، منافقت اور بے عملی کے سیلاب میں ڈوب گیا۔ چھچھوراپن اور غیر سنجیدگی قومی زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کر گئی او ران صفات نے سیاسی او رتہذیبی اعتبار سے جسد قومی کووہ زخم دئیے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناسور بنتے چلے گئے۔ بدقسمتی سے پاکستان بنتے ہی اقتدار او رسیاست پر جاگیردار طبقے کا تسلط قائم ہوگیا۔ جس نے اپنے مزاج او رکلچر کے مطابق ہر طرح کی بے اُصولی او ردھاندلی کو رواج دیا۔ بنیادی انسانی حقوق او رجمہوری آزادیوں پر طرح طرح کی پابندیاں نافذ کردیں بعد میں اس طبقے نے افسر شاہی اور فوجی جرنیلوں کے ساتھ مل کر ملک میں ہر طرف اندھیر مچا دیا۔ ملک کا ہر شعبہ کرپٹ ہو گیا جس کا وبال یہ پڑا کہ ہم سیاسی تہذیبی معاشی تعلیمی غرض ہر اعتبار سے زوال کی نذر ہوگئے۔(’’روزنامہ نوائے وقت لاہور16اگست2009ء)۔
وہی سردار شوکت حیات جنہیں قائداعظم نے امیر بننے کا مشورہ دیا تھا، اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں ’’کرپشن کا آغاز جائیداد او رکاروبار کے ناجائز حصول کی بنا پر ہوا جو غیر مسلم اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے، اس چیز نے لوگوں کو طمع او ردولت حاصل کرنے کی دوڑ میں مبتلا کردیا۔ ہمارے لوگوں نے اسلام کو بھلا دیا او رہندوؤں کی دولت کی دیوی لکشمی کے پجاری بن گئے۔(گم گشتہ قوم صفحہ441)۔
دوسری جگہ سردار شوکت حیات لکھتے ہیں’’مجھے یاد ہے کہ لاہور کا رہنے والا ایک دوست میرے پاس آیا۔ دوران گفتگو اُس نے کہا‘‘ شوکت جی! تمہارا پاکستان پنپ نہیں سکے گا۔ اس لئے کہ ہم نے تمہارے لئے معاشی ادارہ چھوڑا ہے نہ کوئی صنعت کار یا بینکر میں نے اُس کہا کہ وہ احمقوں کی جنت میں رہنا چھوڑدے۔ وہ قوم جو پچاس لاکھ مہاجرین کے بوجھ کو سہار سکتی ہے جو تم نے اچانک ہم پر ٹھونس دئیے تھے، ایسی قوم کسی بھی صورتحال سے نمٹ سکتی ہے، اُس نے کہا ’’شوکت! تم نے میری بات سمجھنے میں غلطی کی ہے، میرا نکتہ سمجھنا چاہتے ہو تو میرا مشورہ ہے کہ کتوں کی ایک جوڑی خریدو۔ دونوں کو الگ الگ زنجیر میں مخالف کونوں میں باندھ دو۔ تین چار دنوں تک اُنہیں کھانے کو کچھ نہ دو۔ پھر ایک بکری کاٹو او رگوشت دونوں کے درمیان رکھ کر دونوں کی زنجیر میں بیک وقت کھول تم دیکھو گے کہ گوشت کو دیکھ کر دونوں کتے پہلے آپس میں لڑیں گے۔ اُن میں سے جیتنے والا کتا ضرورت سے زیادہ کھا کر گرپڑے گا اس کے بعد دوسرا پہلے کے چھوڑے ہوئے گوشت کو ضرورت سے زیادہ کھائے گا۔ دونوں بدہضمی کا شکار ہوکر بیمار ہوجائیں گے۔ ہم نے تمہارے بھوکے او رغریب لوگوں کے لئے بے انتہا دولت چھوڑی ہے۔ وہ اس چمک کو دیکھ کر ایک دوسرے کا گلاکاٹیں گے بعد میں وہ کتوں کی مانند ہو جائیں گے۔ ہم نے تمہارے حصے سے پنجاب میں اتنی زیادہ دولت چھوڑی ہے کہ تمہاری قوم بددیانت ہوجائے گا‘‘(گم گشتہ قوم صفحہ263)۔
بھارت نے آزاد ہوتے ہی جاگیرداری نظام ختم کردیا لیکن ہمارے ہاں اسے نشوونما ملتی گئی اس طرح وہ تمام مفاسد جو جاگیرداری نظام میں موجود تھے، ہماری سیاست میں تسلط حاصل کرتے گئے جس کرپشن کا آج رونا رویا جارہاہے وہ جاگیرداری نظام کا لازمی نتیجہ ہے۔ پاکستان میں سیاسی لیڈر جھوٹے وعدے کرکے برسر اقتدار آتے ہیں تو یہ بھی کوئی آج کا کھیل نہیں اس کی بنیادیں بھی قائداعظم اورمسلم لیگ نے رکھی تھیں۔
جناب سرور میواتی لکھتے ہیں پاکستان کے قیام کے لئے مسلم لیگ نے دین اسلام کا سہارا لیا تھا۔ مسٹر جناح او راُن کے ساتھی کہتے تھے کہ پاکستان میں مکمل اسلامی شریعت کا نفاذ ہوگا ۔وہاں حضرت ابوبکر صدیقؓ او رحضرت عمر فاروقؓ کا عہد پھر سے نظر آئے گا۔ مسلم لیگی پاکستان کا مطلب، لاالہٰ اِلاَ اللہ کو قرار دیتے تھے۔1946ء کے الیکشن میں مسلم لیگی ایک طرف گاندھی کی ٹوپی او ردوسری طرف حضورؐ کی دستار مبارک کی شبیہ رکھ کر مسلمانوں سے کہتے تھے کہ’’مسلمانوں تم ووٹ گاندھی کی ٹوپی کو دوگے یا حضور اکرمؐ کی دستار مبارک کو۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ نے جو ہوشیاری کی، جو چالاکی دکھائی، جو سبز باغ دکھائے جو نعرہ لگایا اُس کے نتیجے میں مسلمانان برصغیر مسلم لیگ کی طرف کھچے چلے گئے ورنہ1936ء کے پہلے ملکی انتخابات میں مسلم لیگ نے498مسلم نشستوں میں سے صرف128نشستیں حاصل کیں، لیکن جب جھوٹ فریب او رجھوٹے وعدوں کا سہارالے کر کلمہ طیبہ کے نام پر الیکشن لڑا تو498مسلم نشستوں میں سے428نشستیں مسلم لیگ نے جیتیں۔ دراصل یہ نتائج ثابت کرتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کو نہیں بلکہ اسلام او رکلمہ طیبہ کو ووٹ دینے تھے۔(’’اک شکستہ داستاں‘‘ کچھ شگفتہ تذکرے ص44)۔
ایک او رکالم نگار کے ایم اعظم لکھتے ہیں۔’’علی گڑھ کے طالب علم، سیاسی ورکرز پنجاب کے دہقانوں کو پاکستان کی طرف مائل کرنے کے لئے زمین پر لکیر کھینچ کر یہ بتاتے تھے کہ مسلم لیگ ایک لکیرہے جس کے ایک طرف مسلمان ہیں تو دوسری طرف ہندو، یہ دلیل ہر طبقہ کے لوگوں میں مقبول تھی چنانچہ صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کے موقع پر پٹھان علماء کو پاکستان کی طرف مائل کرنے کے لئے ایک طرف قرآن کریم اور دوسری طرف کانگریسی ٹوپی رکھ کر یہ کہا گیا کہ ان دونوں میں سے ایک کو چن لیں۔ اس پر پٹھان علماء کے لئے کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ قرآن کے سوا کسی او رچیز کی طرف دیکھتے ‘‘۔(روزنامہ نوائے وقت لاہور29اکتوبر2010)۔
انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قول وفعل کا یہ تضاد خود قائداعظم کے ہاں بھی ملتا ہے وہ بھی مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے۔ ایک کالم نگار سلمان علی لکھتے ہیں ’’مسٹر جناح اپنی نجی زندگی میں تو یقیناًسیکولر لبرل او رآزاد خیال تھے لیکن وہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کو استعمال کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔(ہفت روزہ’’ہم شہری‘‘ لاہور25دسمبر2010 صفحہ46)۔
مثال کے طور پر اسلامیہ کالج پشاور میں25نومبر 1945ء خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا’’مسلم لیگ اس بات کی قائل ہے کہ ہندوستان میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے وہاں ایسی ریاستیں تشکیل دے دی جائیں جہاں مسلمان اسلامی قانون کے تحت حکومت کرسکیں۔۔۔ آئیے ہم واپس چلیں او راپنی کتاب مقدس قرآن کریم او رحدیث او راسلام کی عظیم روایات سے رجوع کریں جن میں ہماری رہنمائی کے لئے ہر چیز موجود ہے۔ ہم اُن کی درست طور پر تاویل وتعبیر کریں اور اپنی عظیم کتاب مقدس قرآن کریم کا اتباع کریں‘‘ (قائداعظم:۔ تقاریروبیانات حصہ سوم مرتبہ اقبال احمد صدیقی صفحہ72)۔
یہ تو قائداعظم کا قول تھا اب فعل کی صورت حال جناب قیوم نظامی صاحب سے سنیے وہ لکھتے ہیں۔
’’قائداعظم نے گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے کے بعد نئی ریاست کی تشکیل کے لئے جو بنیادی فیصلے کیے’’وہ اُن کے تصور پاکستان کا عملی اظہار تھے اُنہوں نے پاکستان کی پہلی کابینہ کا انتخاب اپنی سیاسی سوچ کے مطابق کیا۔ ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنایا گیا تاکہ ایسی قانون سازی نہ ہوسکے جس سے غیر مسلموں کے حقوق سلب ہونے کا خطرہ ہو اور ایک احمدی(قادیانی) سرظفر اللہ کو وزیر خارجہ نامزد کیا۔ پاکستان کی پہلی کا بینہ کا ایک وزیر بھی مذہبی رہنما نہیں تھا۔ قائداعظم نے مذہبی وزارت بھی قائم نہ کی۔اُن کے دونوں ملٹری سیکرٹری انگریز تھے جو اُنکی وفات تک اُن کے ساتھ کام کرتے رہے۔ اُنہوں نے بری، بحری اور فضائی افواج کے چیفس انگریز نامزد کئے۔ دو صوبوں کے گورنر بھی انگریز تھے جبکہ فوج اور سول سروس کے پانچ سوا فسرانگریز تھے۔ مسلم لیگ نے پنجاب اسمبلی کے سپیکر منصب کے لئے ایک کرسچین دیوان بہادر ایس پی سنگھا کو نامزد کیا۔ معروف مورخ پروفیسر طاہر کامران کی تحقیق کے مطابق ایس پی سنگھاکو قرار داد مقاصد کی منظوری کا شدید صدمہ ہوا اور وہ حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے۔
قائداعظم نے گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے کے بعد کسی مسجد یا مزار پر حاضری دینے کی بجائے 17 اگست 1947ء کو کراچی کے ہولی ٹرینٹی چرچ کا دورہ کرکے پاکستان کے غیر مسلموں کو یقین دلایا کہ وہ پاکستان کے برابر کے شہری تصور کئے جائیں گے۔ قائداعظم نے سرکاری دفاتر او رپاکستانی سفارت خانے کے لئے اپنے جس پورٹریٹ کا انتخاب کیا وہ شیروانی او رجناح کیپ والی نہیں تھی بلکہ تھری پیس سوٹ او رہاتھ میں سگار والی تھی۔ قائداعظم کے یہ اقدامات مذہبی نہیں بلکہ سیاسی او رسیکولر نوعیت کے تھے‘‘۔(قائداعظم بحیثیت گورنرجنرل از قیوم نظامی صفحہ79)۔
قائداعظم کے قریبی ساتھی او رآل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رُکن وزیر اعلیٰ سندھ محمد ایوب کھوڑو نے کھلے لفظوں میں کہا ’’جناح صاحب اس ریاست کو مذہبی ریاست کا رنگ نہیں دینا چاہتے تھے او رنہ ہی یہ کوئی مذہبی ریاست تھی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جناح صاحب اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے وہ اُلوّْ کے پٹھے ہیں او رجو لوگ جناح صاحب کو ولی اللہ بنارہے ہیں وہ غلط ہیں۔ وہ کوئی ولی اللہ نہیں تھے۔(قائداعظم کے رفقاء سے ملاقاتیں صفحہ82)۔
ان تصریحات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ خود قائداعظم سیاست کے لئے دولت مندوں کاکام سمجھتے تھے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کو استعمال کرنا جائز خیال کرتے تھے مسلم لیگیوں نے سیاست کو دولت مندوں کا کھیل بنانا ضروری سمجھا او رکرپشن عام ہوئی اسی طرح مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بے تحاشا استعمال کرتے رہے۔
♥
4 Comments