علی احمد جان
ہمارے دلارے جنید جمشید کی شہادت اور اس کے بعد ملنے والی ریاستی عزت اور تکریم ان کے حاسدین سے برداشت نہیں ہورہی اور عجیب سوالات پوچھ رہے ہیں۔ بھلا یہ پوچھنے کی بات ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے جہاز میں سوار اڑتالیس مسافروں میں صرف ایک جنید کو ہی کیو ں یہ عزت دی جارہی ے۔ ان لوگوں کو شاید خدا کے فرمان کا نہیں معلوم کہ وہ جس کو چاہے عزت دے جس کو چاہے رسوائی دے اور وہ یہ عزت اپنے خاص بندوں کے ذریعے عطا کر دیتا ہے۔
جن لوگوں نے جنید کو یہ تکریم دی وہ اللہ تعالیٰ کے خاص الخاص بندے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہمارے دلارے کو توہین رسالت پر بد نام کرنے کی کوشش کی گئی او ر ان پر اپنی ناپاک جوتیوں سے حملہ بھی کیا ۔ مگر یہ لوگ بھول جاتےہیں کہ توہین رسالت صرف غیر مسلموں اور کمزور مسلمانوں پر لاگو ہوتی ہے جنید جیسے راسخ العقیدہ لوگوں پر نہیں۔
کیا جہاز میں سوا ر کسی اور کی جنت میں داخلے کی خبر آگئی؟ یہ صرف جنید ہی ہیں جس کے داخلے کی خبر پر تو انھوں نے بھی یقین کیا جو خود کو مماتی کہتے ہیں اور بصورت دیگر ایسی باتیں کرنے والوں کو حیاتی سمجھتے ہیں۔ ابھی دنیا میں ان کی لاش کی شناخت کا عمل جاری تھا کہ ان کے جنت میں پہنچنے کی خوشخبری ان کے مربی کو پہنچادی گئی۔ بھلا ایسے شخص کو یہ اعزاز کیسے نہ ملے؟
دل دل پاکستان کو حفیظ جالندھری جیسے مرد مومن کی ایک ہندو جگن ناتھ آزاد کے پہلے قومی ترانے کی جگہ لکھے گئے رائج الوقت قومی ترانے سے بھی زیادہ اہمیت اس لئے ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے کرکٹ کے ولڈ کپ جیتنے کے پیچھے دراصل اس ترانے کا ہاتھ ہے جس کے گانے کے بعد کھلاڑیوں میں عقابی روح بیدار ہو جاتی ہے۔ گو کہ کچھ اور لوگ بھی اس ترانے کے گانے میں شامل تھے مگر چونکہ وہ ابھی تک موسیقی کے شیطانی کام کو جاری رکھے ہوۓ ہیں اس لئے ان کا نام لینا مناسب نہیں۔ بھلا اقبال کے شاہینوں کو پرواز افق دینے والے کو اعزاز کیوں نہ دیا جاۓ۔
شلوار قمیص کو صرف غریب آدمی کا لباس سمجھا جاتا تھا۔ جنید نے ملک کے متوسط طبقے میں اپنے برانڈ جے جے کو بطور سادگی کے لباس کا متعارف کروادیا۔ سادگی اور عاجزی کے مبلغ نے لوگوں کو عملی طور پر ایسے لباس فراہم کئے کہ لوگوں نے یہ کرتے اور شلواریں قومی لباس کے طور پر اپنا لیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ جے جے کے لباس مہنگے ہوتے ہیں پر ان نادانوں نے ان ملبوسات کی برکات اور فیوض کو پیسے جیسی ہاتھ کے میل میں تولا ہے جبکہ ان ملبوسات کو پہننے کے بعد جو ایمان کو تازگی ملتی ہے اس کو بھول گئے ہیں۔ ملک کی اشرافیہ میں قومی لباس کو فروغ دینے والے اس حرفکارکو ایسا اعزاز کیوں نہ دیا جاۓ؟
ًایسا جنازہ تو بادشاہوں کا بھی نہ دیکھا ً جس میں اتنے لوگ آۓ ہوں ۔ ویسے لوگ تو بال ٹھاکرے جیسے کافر کے جنازے میں بھی لاکھوں میں آۓ تھے، جنازہ بے نظیر بھٹو ، مارگریٹ تھیچراور لیڈی ڈیانا جیسی عورتوں کا بھی لاکھوں میں تھا۔ لیکن یہ جنازے تھوڑی ہی تھے کیونکہ ان میں طارق جمیل نہیں تھے۔ طارق جمیل ہی تو جنازے کی مقبولیت کی ضمانت ہیں۔ پھر طارق جمیل کو اس جنازے پرفوجی بینڈ کے ًدی لاسٹ پوسٹ ً بجانے پر بھی اعتراض نہیں ہو ایسا جنازہ واقعی بادشاہوں کا بھی نہ دیکھا۔
شہادت کا فیصلہ بھی ریاست کرتی ہے، شہید وہ ہوتا ہے جو فوجی بینڈ کیساتھ دفن ہو جیسا کہ فاتح افغانستان جنرل ضیاء الحق ۔ بھٹو اور بگٹی جیسے لوگ جن کو رات کے اندھیرے میں شہر میں کرفیو لگا کردفن کیا جاۓ ان کو پاگل لوگ ہی شہید کہتے ہیں۔ لیکن کیا کیجئے کہ اس ملک میں پاگل لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو ان کے مزاروں میں کروڈوں کی تعداد میں حاضری دیتے ہیں جبکہ اصل شہید جنرل ضیا ء کی مزار اقدس پر ان کے روحانی اور سیاسی اولاد بھی دن کے اجالے میں جانے سے شرماتی ہے۔
اس پورے جہاز میں شہید صرف ہمارے دلارے جمشید ہی ہیں باقی جو سنتالیس لوگ ہیں وہ وفات پاگئے ہیں۔ وہ پائلٹ جس نے اس بستی کو جہاز کے گرنے سے بچا لیا تھا اس نے تو اپنا فرض پورا کیا تھا لیکن جہاز میں بیٹھے جنید ہی تو تھے جس کے ذکر سے جہاز بستی سے دور پہاڑ سے ٹکرایا تھا۔
مملکت خدا داد پاکستان کے شمال میں واقع چترال میں اب بھی کفر موجود ہے۔ جب تک ایک بھی کافر پاکستان میں میں موجود ہے اس ملک کے قیام کا مقصد ادھورا ہے۔ جنید اپنے یار غار سعید انور کے ساتھ اپنے مربی حضرت طارق جمیل رحمہ کی ہدایات کی روشنی میں چترال کے کافروں کے دل بدلنے کی راہ پر گامزن تھے۔ چترال میں جوانوں کو ان کی میزبانی کا شرف بھی حاصل تھا۔ کفار کے دل بدلنے کے مشن پر معمور ایسے مجاہد کو بھلا فوجی اعزاز کیونکر نہ دیا جاۓ۔
وہ سب لوگ ان سے حسد کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں مختلف العقیدہ لوگوں کے عقائد اور ان کی ثقافت کا دفا ع کرنا ریاستی زمہ داری ہے اور ان کے عقیدہ کو بدلنے کی کوئی بھی ریاستی اور غیر ریاستی کاوش بین الاقوامی اصولوں اور معاہدات کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بھی الزام لغو ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں۔ آج وہ اپنا عقیدہ بدل دیں وہ بھی ہم سب کی طرح اس ملک کے برابر کے شہری ہیں۔ جنید اگر اقلیتوں کو ملک کے دیگر شہریوں کے برابر لانے کے مشن پر تھا تو کون سا جرم تھا؟
جنید جب جواں ہوۓ تو ملک میں جنرل ضیاءلحق کا اسلامی دور تھا اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کے فتنے پر پابندی تھی۔ ایسی میں جنید نے اپنے گانوں سے نوجوانوں کے دلوں میں آسمان کو چھولینے کی امنگ پیدا کی اور جمہوریت اورشخصی آزادی کے تصور کو ایک قوم پرستی کے جزبے میں بدل دیا۔ آج اسی کے گانوں کا اثر ہے کہ آسمان چھو لینے والے ایک قوم بن کر سامنے آگئی ہے جس نے ملک کو ہر میدان میں واقعی آسمان پر پہنچا دیا ہے۔
لوگ حسد کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ملک میں جنرل ضیاء الحق کے بعد بد عنوانی، رشوت ستانی اور بد اعمالی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کو کیوں نظر نہیں آتا کہ نمازیوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہے، حج اور عمرہ کرنے والے کتنے زیادہ ہوۓ ہیں۔ یہ تو جنید جمشید سے کوئی پوچھتا کہ ان کی حج اور عمرہ کروانے والی ایجنسی میں اس مقدس نیت سے آنے والوں کی تعداد کتنی زیادہ تھی۔
یہ ہمارے میڈیا کا ہی اعجاز ہے کہ وہ رمضان میں لوگوں کے روزے کو بہلانے کے لئے ایسے پروگرام لے آتا ہے کہ جس میں ہر وہ چیز جائز ہوجاتی ہے جس کے جواب میں جنید اور عامر کا کرتہ انعام میں ملے۔ میڈیا نے کرتے ہی نہیں موبائل فون بھی انعام میں دینے ہوتے ہیں جن کی سند کے لئے بھی ہمیشہ ایک جنید اور عامر کی ضرورت رہیگی جو علم نہ ہوتے ہوۓ بھی عالم اور فاضل کہلایئں گے اور ان کے ناقدین ہمیشہ غلط ہی ہونگے۔
♦