واجد بلوچ
میں اس معاملے میں شدت پسندوں سے زیادہ کنفیوزہوں کہ اپنی بات شروع کرنے سے پہلے اپنی ماں کی سوغند لوں جس نے مجھے جنم دیا یا اپنی محبوبہ کی۔
ماں کا جنم دینا معمولی اور سائینٹیفک بات ہے ۔ لیکن مجھ جیسے نوجوان آدمی کا ایسی جوان عمر میں رنڈوا ہوجا نا اتنا ہی قابلِ مذمت ہے جتنا ناقابلِ فہم ہے ۔ اس لیے سوغند محبوبہ کی جسے میں کبھی ماں نہ بنا سکا۔
تو شروع کرتا ہوں اپنی محبوبہ کے نام سے جس نے بڑے ظالمانہ طریقے سے مجھے طلاق دی کہ جو کہونگا سچ کہونگا ۔اگر جھوٹ کی زرا سی لذت زبان محسوس کرے تو موت آجائے صنم کو !۔
رات اماوس کی تھی ، نہیں معلوم۔ لیکن جس دن میری پیدائش ہوئی اس وقت کراچی میں مہاجر قومی مومنٹ نامی تنظیم کے خلاف شورو سے آپریشن جاری تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ سالگرہ کے دن مجھے تحائف موصول نہیں ہوتے بلکہ سڑکوں پر یومِ سوگ منایا جاتا ہے ۔ خون انتہائی غیر معمولی رنگ لال کا ہے ۔ دو بٹن جیسی آنکھیں ، دو کن پٹی کے پچھواڑے چھپے کان ۔ ایک عدد چینی ناک اور ایک عدد زبان دراز منہ کے ساتھ میں بھی انسانی قبیلے کا ایک فرد ہوں ۔
جسمانی ساخت کے لحاظ سے مرد نما ہوں ۔ خوبصورت عورت کی جانب متوجہ ہوتا ہوں ۔ یعنی فطرتاََ تو مرد ہوں ہی اور ہارمونل معاملات کے تحت تندرست بھی!! ۔ اگر بات اندر ہی اندر رکھی جائے تو اپنی مردانگی کی دلیل پاس رکھنے کے لیے ڈومیسٹک وائیلنس کا بہترین حامی بھی رہا ہوں ۔ لیکن جب بھی کبھی مڈل کلاس سے تھوڑی اوپر کی صنِفِ نازک کی توجہ درکار ہوتی ہے تو ہلکا پھلکا فیمینسٹ بھی بن جاتا ہوں ۔
اگر بات یہاں تلک ہوتی تو پھر بھی قابلِ تعریف ۔لیکن کمبخت ان تمام خصوصیات کے ساتھ ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ میں بلوچ ہوں۔ یاد رہے کہ اس ملک میں سب سے اعلیٰ درجے کے لوگوں میں ہمارا شمار ہوتا ہے پنجاب کی نصابی کتابوں پر دھیان نہ دیں ۔ احمدی اور اہلِ تشیعوں کے بعد خدا کو اگر کسی قوم سے محبت ہے تو وہ ہم بلوچ ہیں ۔ اس لیے جب بھی احمدی اور اہلِ تشیعوں کے بعد اگر خدا کو مزید تنوع لانا ہو تو وہ پہلے ہمیں اوپر بلاتا ہے ۔
اوپر بلانے سے پہلے وہ ہمیں لاپتہ کردیتا ہے ۔یاد رہے کہ یہ لاپتہ والا شرف صرف ہمیں حاصل ہے باقی احمدی اور شیعوں کو تو وہ پہلی فلائٹ کے ساتھ عالمِ برزخ تک چند منٹوں میں منتقل کردیتا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ کہ جنابِ والا کہ ہماری جنت کی سیٹ اتنی پکی ہوتی ہے کہ لوگوں کو یقین دلانے کے لیے خدا کسی کو خواب بھی نہیں دکھاتا ۔
جی تو میں عرض کر رہا تھا کہ میں بلوچ ہوں۔ قبیلہ رند ہے ۔ بنیادی طور پر بلوچستان کے سب سے پسماندہ علاقہ مند سے تعلق رکھتا ہوں۔ لیکن مسلسل فوجی آپریشن کی وجہ سے ہمارا خاندان کچھ سال پہلے تربت منتقل ہوگیا تھا۔ اور ہوتا بھی کیوں نہ بھلا ؟ فوج اور علیحدگی پسند گروہوں کے بیچ میں ہماری حالت ایسی ہوگئی تھی جیسے کے آٹا چکی کی زد میں آگیا ہو۔ جی حضور ! خاموش رہ کر پسماندگی میں کوئی سرکاری نوکری ڈھونڈتے تو علیحدگی پسند غدار کہتے ۔ اور ہڑتالیں اور جلوسیں نکالتے تو سرکار ہمیں مودی کا یار کہتی ۔
اب یہ مودی بھی عجیب ہے ۔ جب اتنا بدنام کردیا تو کچھ فنڈنگ براہِ راست ہمیں کر بھی دے ۔ کرائے کے مکان میں رہ رہ کر سڑ سے گئے ہیں ۔ہمارا بھی دل ہے کہ ایک آدھ فلیٹ لیکر لندن متنقل ہوکر گوریوں کا ننگا ناچ دیکھیں ۔ فلموں سے آخر کب تک بہلائیں دل کو ؟ ناچ سے یاد آیا ہے کہ میں بھی بڑا نیچ انسان ہوں۔ کہ اپنے پیارے ملک کو چھوڑ کر لندن ؟ لندن میں تو شراب نوشی ہوتی ہے ؟ اور اس آب میں جو شر ہے وہی تو حرام ہے ۔ اب شراب کو بھی کبھی حلال کیا جاسکتا ہے ؟
میرے دوست شمشاد کا فلسفہ یہ ہے کہ رات کو پی کر صبح رائیونڈ کا چکر لگا لیا جائے تو گناہ اور ثواب آپ میں پلس مائینس ہوکر آپ کے اندر کے مسلمان کو زندہ رکھتے ہیں ۔ خیر شمشاد کا فلسفہ شمشاد جانے ۔ مجھے تو کم بخت جعفری سے مسئلہ ہے ۔ ایک تو زبان دراز مسلکی طور پر شیعہ ہے اور دوسرایہ کے کراچی کی اعلی صحبتوں میں بیٹھنے کا اسے شرف حاصل ہے ۔ جب صحبتیں اعلیٰ ہو تو سیاسی گفتگو بھی آہی جاتی ہے۔ تو جب بھی اس جعفری کو بلوچستان کے حوالے سے بحث میں کوئی شکست دے دیتا ہے تو کمبخت ساری رات خود کو ذولفقار علی بھٹو سمجھتے ہوئے مجھے نور جہاں کی طرح گواتا رہتا ہے ۔
ابھی کل کی بات ہے جناب گلوریا جینس میں دوستوں کے ساتھ کافی پینے گئے تھے ۔ کافی پیتے پیتے بلوچستان کے حوالے سے بحث چھڑ گئی۔ اب ایک تو یہ اعلیٰ صحبتوں کے لوگ اور دوسرا انھوں نے کبھی بلوچستان کی شکل نہیں دیکھی ۔ تو دانشور تو یہ سب تھے ہی ۔ بحث میں کوئی مدعا اٹھاتا کہ بلوچستان کا مسئلہ سرداروں کا مسئلہ ہے ۔ کوئی کہتا جی ہندوستان کو سی پیک کی ترقی سے نقصان ہوگا اس لیے وہ مداخلت کر رہا ہے اور کسی نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ بلوچ ہوتے ہی جاہل ہیں ۔ان کو کچھ بھی دے دو لڑتے ہی رہیں گے ۔ اب اس میں جعفری کا مدعا یہ تھا کہ اگر اکبر بگٹی کا قتل نہ ہوتا تو بلوچستان کے حالات اس قدر خراب نہ ہوتے ۔ جس پر اس کے تمام دوستوں نے اس سے اختلاف کر تے ہوئے اس کی خوب چھترول کی اور وہ چلا آیا میرے درگاہ۔ اب اس درگاہ میں کیا گفتگو ہوئی ۔
ملاحظہ فرمائیں
رات گیارہ بجے ۔ دروازے پے دستک ہوتی ہے اور بدقسمتی میں دروازہ کھول دیتا ہوں ۔
ارے جعفری ۔تم اس وقت ؟
ہاں تو ۔ اس وقت آنا ممنوع ہے کیا ؟
نہیں جانِ من ۔ لیکن رات کو آپ کم ہی درشن دیتے ہیں ۔ اس لیے پوچھ لیا ۔
مروت وغیرہ چھوڑو ۔ یہ بتاو کالا کتا ہے ؟
کالا کتا ؟
بلیک لیبل یار۔
ہاہاہا۔ جانی غربت میں کچی شراب مل جائے غنیمت ہے تم کتے کے پیچھے پڑے ہو ۔ وہ بھی کالے ؟ اندازہ ہے کتنا مہنگا ہے۔
یار تو کچی شراب لادے ۔ آج دماغ خراب ہے ۔
مدعا کیا ہے بھائی ۔ بتائیں تو۔
یار تم گلا تو گیلا کرو ۔ سب بتائینگے ۔
اچھا رکھو ایک منٹ !
میں نے فریج سے رات کا کوٹا نکال کر جعفری کے لیے پیک بنایا اور اسے پیش کیا ۔ کم بخت نے اتنی بے دردی سے گھٹکا کہ میرے لب ایک گھونٹ کے لیے ترستے رہے ۔
ہاں تو واجد بھائی ۔ تم بلوچوں کا مسئلہ کیا ہے ۔
ہمارا مسئلہ ؟ ہمارا تو کوئی مسئلہ نہیں۔
تم سالے بے غیرت بلوچ۔ اپنی آواز بھی نہیں اٹھا سکتے ۔ بات بھی نہیں کرسکتے ۔منافق ہو تم۔
ہاں بھائی ہم تو منافق ہیں۔ ہمیں چھوڑو۔ تمھاری طرح فسادی تو نہیں سالے کھٹمل ۔
تیرا باپ کھٹمل ۔ اس نے چلا کر کہا ۔
ہاں تم تو سالے صرف تبرا ہی کر سکتے ہو ۔ ہم سنیوں سے تو خاندانی لڑائی ہے تمھاری ۔
حرامی ! تو اب شیعہ سنی کی باتیں کریگا۔ مجھے تیرے سنی ہونے سے مسئلہ ہے ؟ رنڈوے جب تو اپنی ماں اس کھٹمل لڑکی کے عشق میں دیوانہ تھااور تیری جیب تیرے منہ پے لعنت کرتی تھی تو اس شیعہ نے گھر کی تجوری سے پیسے چرا کر تیری عاشقی کو کامیاب بنایا حرامی ۔ شیعہ سنی کی بات کریگا تو ؟ اس نے جذبات بھرے لہجے کہا۔
جعفر ی جانی۔ میں تو بس مذاق !
بھاڑ میں گیا تیرا مذاق سالے رنڈوے۔ تیرے ماں باپ بلوچستان میں ہیں نا ۔ تین سال سے پڑا ہے تو اس شہر میں ۔ محرم کی پہلی نیاز تیرے گھر آتی ہے نا ۔ تب اس کافر کا دیا حرام نہ لگا تجھے نمک حرام۔ آج تو مجھے میرے شیعہ ہونے پر طعنہ دیگا ؟
جعفری دیکھ جذباتی نہ ہو ۔ میں مذاق!۔
اپنا مذاق اپنی رانڈ کو سنا بھڑوے ۔ تجھے تو معلوم ہے نہ ایک مہینے پہلے میرے ماموں کو بیچ سڑک پہ درندوں نے ماردیا ۔ تو بھی آیا تھا نہ لاش اٹھانے ۔ سالے کیا بگاڑا تھا اس نے تم لوگوں کا ۔ ماردیا اس کو ۔ اس کی بیٹی کو دیکھا ہے نا تونے ۔ روز پوچھتی کہ اس کا بابا کہاں ہیں ۔ کیا جوا ب دوں میں اس کو ۔ کہ تم لوگوں نے ماردیا ؟ صرف ہاتھ باندھنے پر ۔ صرف تھوڑا سا اختلاف ہونے پر ۔
جعفری ! تو نشے میں ہے۔ میں نے اسے بستر پے لٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
نشہ تو آج اترا ہے بے غیرت آدمی اس نے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا ۔ میری ماں کی حالت نہیں دیکھی تو نے ؟ صبح گھر سے نکلتا ہو تو دس بار فون کرتی ہے ۔ کہ زندہ ہے کہ مر گیا ۔ دن رات مصلے پے بیٹھی رہتی ہے ۔ کیوں خوفزدہ کردیا ہے تم لوگوں نے اسے ؟ کیوں سکون چھین لیا ہے اس کا۔ نہیں دیکھی جاتی مجھ سے اس کی حالت ۔ اور اس کے خوف کی وجہ سے میں قید ہو کر رہ گیا ہوں ۔
نماز پڑھنے جاتا ہوں تو خو ف لگا رہتا ہے کہ ابھی بم پھٹے گا۔ سفر کرتا ہوں تو فکر لگی رہتی ہے کوئی شناختی کارڈ مانگ کر میرا نام دیکھ کر قتل نہ کردے ۔ ہجوم دیکھتا ہوں تو پیشاب آجا تا ہے کہ کمبخت کب کون تلوار نکالے شیعہ کافر کا نعرہ لگا کرکب میرا سر قلم کردے۔ سچ بتا جانی ۔ کل کو کوئی فساد ہوا تو مجھے ماریگا تو نہیں ؟ تو ماریگا تو نہیں مجھے ۔ دیکھ میری ماں اکیلی ہوتی ہے ۔ میں اکیلا اس کا والی وارث ہوں ۔ بچائے گا نہ مجھے ۔ بول بے غیرت بچائے گا نہ مجھے ۔
میں نے اس کے سر پے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ جب تک یہ رنڈوا زندہ ہے کوئی کچھ نہیں کریگا تجھے ۔ میں یہیں پے ہوں ۔ سب ٹھیک ہوجائیگا جعفری ۔ میں پانی لاتا ہوں تیرے لیے ۔ کچھ نہیں ہوگا۔
مت جا جانی ۔ خوف آتا ہے مجھ کو ۔ اس نے گھبراہٹ بھرے لہجے میں کہا ۔
میں یہیں ہو جعفری ۔ پانی لاتا ہوں بس ۔
میں فریج کی طرف گیا ۔ پانی گو گلاس میں انڈیلا ۔ کمرے میں داخل ہواتو دیکھتا ہوں۔
جعفری تکیے کو تھامے ایک معصوم بچے کی مانند سو رہا تھا ۔
میں جعفری کی طرف بڑا۔ اس کی صورت دیکھ کر کچھ اپنائیت سی محسوس ہورہی تھی ۔ میں نے سگریٹ سلگائی اور دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ اس کا خون انتہائی غیر معمولی رنگ لال کا ہے ۔ دو بٹن جیسی آنکھیں ، دو کن پٹی کے پچھواڑے چھپے کان ۔ ایک عددترچھی ناک ا ور ایک زبان دراز منہ کے ساتھ جعفری بھی ایک انسان ہی تو ہے ۔
♣
2 Comments