ترکی میں روسی سفیر کے قتل کو اِس ملک میں سیاسی تشدد کی طویل تاریخ کا تسلسل قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ترکی کو شام کی جنگ کے منفی اثرات کا براہ راست سامنا ہے۔
ترکی کے پرتشدد سیاسی مسائل میں سب سے اہم کردوں کی علیحدگی پسند تحریک کو قرار دیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس سے انقرہ حکومت کو اِس تحریک کے نئے مسلح حملوں کا سامنا ہے۔ اسی دوران رواں برس جولائی میں فوج کی ناکام بغاوت نے مجموعی سلامتی کی صورت حال کو مزید کمزور کر دیا ہے۔
حکومت اپنی سی کوششوں میں ہے کہ سکیورٹی مسائل کو گھمبیر ہونے سے بچایا جائے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں سے حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب تر ہو رہے ہیں۔
روسی سفیر کے قتل نے ترکی کی سکیورٹی کے ستونوں کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ اس قتل کی ترکی اور روس مشترکہ طور پر تفتیش کر رہے ہیں لیکن دونوں ملکوں کے سیاسی و سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ قتل ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔ ماسکو حکومت نے کہا ہے کہ تفتیش کار ہی طے کریں گے کہ سفیر کے قتل میں کون ملوث ہے۔
ترک حکومت اِس قتل کو امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی مزاحمتی تحریک کا شاخسانہ قرار دیتی ہے۔ گولن اس قتل میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔ دوسری جانب جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کی ذمہ داری بھی ایردوآن حکومت گولن پر عائد کرتی ہے اور ایمرجنسی قانون کے تحت ہزاروں سرکاری ملازمین کو قید کیا جا چکا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال نے ترک حکومت کی برداشت کی قوت کو بھی کم کر دیا ہے اور اِس باعث وہ کئی معاملوں میں مناسب ردعمل ظاہر کرنے میں دانش مندی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہی ہے۔ یہ بھی اہم خیال کیا جا رہا ہے کہ شام میں اسلام پسند باغی گروپوں کی عملی حمایت کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ترک نوجوانوں میں بنیاد پرستانہ رجحان سرایت کرنا شروع ہو گیا ہے۔
سویڈن میں قائم مرکز برائے ایشیا، قفقاذ اور سِلک روڈ پروگرام کے تجزیہ کار حلیل کاراویلی کا کہنا ہے کہ ترکی میں پیدا شدہ صورت حال کو انقرہ کی بعض پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کاراویلی کے مطابق ترکی کے اندر ترک قوم پرستانہ رویوں کی شدت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ سنی مسلمانوں کے بنیاد پرستانہ عقائد کے فروغ نے بعض علاقوں کے افراد کو شدید انداز میں متاثر کیا ہے اور اس باعث ایردوآن حکومت کو ان ترک باشندوں کی للکار کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ ترکی جو کہ ایک سیکولر ملک تھا میں طیب اردوآن نے سیاست میں مذہب کے استعمال کو شروع کیا اور اوراپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مذہب کا استعمال کیا۔ابتدا میں وہ سعودی عرب کے ساتھ مل کر داعش اور القاعدہ کی حمایت کرتا رہا۔ چند سال پہلے تک وہ داعش کے سب سے بڑے حامی رہے ہیں اور داعش کے پھلنے پھولنے میں ان کا اہم کردار ہے۔ داعش کو ہتھیاروں کی سپلائی بھی ترکی کے ذریعے ہوتی رہی ہے۔لیکن اب وہ روسی کیمپ میں چلا گیا ہے اور ایران کا اتحادی بن گیا ہے۔
DW/News