مجلس ِ احرار اور قیام ِ پاکستان

ڈاکٹر مرزا سلطان احمد

549bc4d62ce68

مارچ 1940کا مہینہ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگ ِ میل کی حیثیث رکھتا ہے۔ 23مارچ 1940کو آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے اجلاس میں برصغیر کے مشرق اور مغرب میں مسلمان اکثریت کے علاقوں میں علیحدہ ریاستوں کا مطالبہ کیا۔اس کے ساتھ برصغیر کی سیاست کا رخ تبدیل ہو گیا۔ اب سیاسی سرگرمیوں کا مرکز صرف آزادی کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ یہ سوال بھی ایک مرکزی حیثیث اختیار کر گیا کہ کیا پورا برصغیر ایک ملک کی صورت میں آزاد ہو گا یا علیحدہ ریاستیں جنم لیں گی۔

ہندوستان کے سیاسی منظر پر کانگرس ایک مضبوط حیثیث کی حامل تھی اور اس کی تمام قوت مسلم لیگ کے اس مطالبہ کی مخالفت پر صرف ہو رہی تھی۔اس سیاسی کشمکش میں یہ بات بھی اہمیت رکھتی تھی کہ مسلم لیگ کے علاوہ دوسری مسلمان تنظیمیں اس مطالبہ کی حمایت کرتی ہیں یا مخالفت کرتی ہیں۔یقینی طور پر کانگرس کی یہی کوشش تھی کہ مسلم لیگ کے علاوہ دوسری مسلمان تنظیمیں اس مطالبہ کی مخالفت کریں تا کہ سیاسی منظر پر مسلم لیگ تنہا نظر آئے۔اس وقت جو مسلمان تنظیمیں سرگرم تھیں ان میں سے ایک تنظیم مجلس ِ احرار اسلام بھی تھی۔

اس سیاسی مذہبی جماعت کا قیام 1929میں عمل میں آیا۔ شروع ہی سے اس تنظیم کی سرگرمیوں کا مرکز پنجاب کا صوبہ تھا۔عملاً احرار کی حیثیت ایسی تھی کہ انہیں کسی نہ کسی بڑی جماعت کے تعاون کی ضرورت رہتی تھی۔اس وقت منظر پر سب سے بڑی جماعتیں کانگرس اور مسلم لیگ تھیں۔ابتداء ہی سے احرار کی یہ کوشش تھی کہ مسلمان مسلم لیگ کی بجائے زیادہ سے زیادہ کانگرس میں شامل ہوں۔1931میں مجلس ِ احرار ِ ہند کے صدر حبیب الرحمن صاحب نے یہ پیغام دیا

غیر کانگرسی مسلمان کے سامنے سوائے ہندوؤں کو ملامت کرنے انہیں برا بھلا کہنے انگریز اور ہندوؤں سے ہمیشہ مسلمانوں کو ڈرانے کے سوا اور کوئی پروگرام نہیں۔میری خواہش ہے کہ پنجاب کے مسلمان اس کثرت سے کانگرس میں حصہ لیں کہ دوسروں کو کانگرس میں جگہ نہ مل سکے۔1۔

1953کے فسادات پر قائم ہونے والی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں احرار کے بارے میں لکھا ہے۔

۔۔وہ کانگرس سے علیحدہ ہوئے ۔گو اس کے بعد بھی انہوں نے کانگرس سے ملنے جلنے اور اس کے آگے دُم ہلانے کا رویہ جاری رکھا ۔ ان کے مسلم لیگ کے درمیان کامل مغایرت تھی2۔

مطالبہ پاکستان پر احرار کا ردِ عمل مخالفانہ لیکن دلچسپ تھا۔ انہوں نے تقسیم ِبرصغیر کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے اس کی جگہ حکومت ِ الہیہ کا مطالبہ پیش کر دیا۔ ان کا نعرہ تھا خلقت خدا کی اور حکم بھی خدا کا۔لیکن وہ اس بات کی وضاحت پیش نہیں کر سکے کہ متحدہ ہندوستان میں، جہاں پر ہندو واضح اکثریت میں ہوں گے یہ حکومت ِ الہیہ کیسے قائم ہوگی۔3۔

احرار کے نزدیک مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کا نعرہ لگانے والے تن آساناور رجعت پسند لوگ تھے 4اور جو نظام مسلم لیگ کے قائدین قائم کریں گے اس کی ہر شق کفر کے آئین سے مآخذ ہوگی۔5۔مسلم لیگ کے قائدین سے یہ اختلاف صرف علیحدہ ملک کے مطالبہ کے بعد سامنے نہیں آیا تھا۔ قرارداد ِ لاہور سے ایک سال قبل مجلس ِ احرار کے سالانہ جلسہ کے خطبہ صدارت میں افضل حق صاحب نے ان خیالات کا اظہار کیا تھا۔

لیگ کے ارباب ِ اقتدار جو عیش کی آغوش میں پلے ہیں۔اسلام جیسے بے خوف مذہب اور مسلمانوں جیسے مجاہد گروہ کے سردار نہیں ہو سکتے ۔مُردوں سے مرادیں مانگنا اتنا بے سود نہیں ۔جتنا لیگ کی موجودہ جماعت سے کسی بہادرانہ اقدام کی توقع کرنا ۔۔۔۔۔ارباب ِ بصیرت غور کریں کہ لیگ میں بجز سرمایہ کی کشش کے رکھا ہی کیا ہے ۔قربانی و ایثار سے لیگ کا جیب و دامان اب تک تہی ہے۔۔۔6۔

ان سب عوامل کے باوجود احرار کو یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ مسلمانوں میں تیزی کے ساتھ علیحدہ ملک کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے ۔ اور مسلم لیگ اور قائد ِ اعظم کی مقبولیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔اب احرار کی طرف سے اس قسم کے الجھے ہوئے بیانات جاری ہو رہے تھے۔

پاکستانی بھی سن لے ۔ اکھنڈ ہندوستانی بھی سن لے ۔ ہم احرار ہیں ۔ صرف اس کے طرفدار ہیں جو خدا کی حکومت قائم کرے۔۔۔۔ہمیں پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے دام ِ فریب میں نہ پھنساؤ۔بلکہ احرار کی سیدھی بات کا جواب دو۔7۔

ایک مرحلہ پر تو احرار نے یہ کوشش بھی کی کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہو کر اس جماعت پر قبضہ کرلیں،چنانچہ افضل حق صاحب نے 1941کے احرار کے سالانہ اجلاس کے خطبہ صدارت سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہم نے لیگ میں دو دفعہ گھسنے کی کوشش کی تاکہ اس پر قبضہ جمائیں دونوں دفعہ قاعدے اور قانون نئے بنا دئے گئے تاکہ ہم بیکار ہو جائیں۔8۔

تحریک ِ پاکستان کو بد نام کرنے کے لیے احرارنے یہ بیانات دینے شروع کیے کہ پاکستان کا مطالبہ اصل میں ہندوؤں اور انگریزوں کی سازش ہے۔افضل حق صاحب کی تقریر کے کچھ حصے ملاحظہ ہوں سوچ لو پاکستان کی تحریک بھی برطانوی جھانسہ ہی نہ ہو۔۔۔۔پاکستان کی تحریک مکانی لحاظ سے نہیں بلکہ زمانی لحاظ سے شر انگیز ہے۔۔۔مسلم انڈیا کے تخیل کا اول پروردگار یہی ہندو ہے ۔آجکل کے پاکستانی اسی ہندوانہ ذہن کی پیداوار ہیں۔۔۔پاکستانی کی خواہشات کو لے کر انگریز کے پاس جاؤ وہ اپنی خوش بختی پر ناز کرے گا کہ تم لعل کے عوض کوئلے لینے آئے ہو۔9

مسلم لیگ اور قائد ِ اعظم محمد علی جناح کی مقبولیت تیزی بڑھ رہی تھی ۔ احرار کو کو اب اپنے پاؤں تلے سے زمین نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔ اب ان کے حملوں میں صرف تیزی ہی نہیں بلکہ نیش زنی بھی نمایاں ہوتی جا رہی تھی ۔ ان کے تیروں کا سب سے زیادہ نشانہ قائد ِ اعظم محمد علی جناح کی ذات تھی۔اسی رو میں احراری لیڈر مظہر علی اظہر نے قائد ِ اعظم کے متعلق یہ شعر کہا۔ اور قیام ِ پاکستان کے بعد بھی عدالت میں اقرار کیا کہ وہ اب تک اپنے اس خیال پر قائم ہیں

ایک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا

یہ قائد ِ اعظم ہے کہ ہے کافر ِ اعظم10۔

اس سے بات نہیں بنی تو ایسی علی الاعلان ایسی فحش گالیوں پر اتر آئے جنہیں دہرانا بھی مناسب نہیں۔11 ان کا اعلان تھا کہ وہ پاکستان کو پلیدستان سمجھتے ہیں۔12 ۔ اس کے علاوہ احرار نے یہ پالیسی اپنائی قائد ِ اعظم اور مسلم لیگ کے دیگر قائدین کے خلاف غداری کے ایسے الزامات لگائے جائیں کہ کم از کم پنجاب کے مسلمان ان سے بد ظن ہوجائیں۔ چنانچہ فروری1946میں خود احراری جماعت کے امیر ِ شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے احرار کے اجلاس میں جو اقرارداد پیش کی تھی اس کا ایک حصہ ملاحظہ ہو

۔مزید برآں اب مسٹر جناح نے نواب زادہ لیاقت علی خاں کے نظریہ کو اپنا لیا ہے اور سکھوں کی علیحدہ سلطنت بنانے کا حق تسلیم کر کے پنجاب میں جمنا سے راوی بلکہ چناب تک کا علاقہ مغربی پاکستان سے علیحدہ ہونا درست قرار دیا ہے۔13 اس الزام کا واضح مطلب یہ تھا کہ مسلم لیگ مسلمان اکثریت کے علاقے سکھو ں کو دینے کی تیاری کر رہی ہے۔ اب جبکہ باؤنڈری کمیشن کی کارروائی شائع ہو چکی ہے ، یہ بات ظاہر ہے کہ یہ الزام جھوٹ سے زیادہ کوئی حیثیث نہیں رکھتا تھا۔آزادی سے قبل انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ مرکزی اسمبلی کی تمام مسلمان نشستوں پر کامیاب ہو گئی۔ احرار کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ پنجاب میں ایک بھی نشست نہ جیت سکے۔ اس عوامی فیصلہ کے بعد بھی احرار نے یہی اعلان کیا۔

۔مسلم لیگ کی قیادت قطعی غیر اسلامی ہے ۔ اس کا عمل آج تک ملت ِ اسلامیہ کے مفاد کے خلاف رہا ہے ۔۔۔مسلم لیگ کے کسی فیصلے کو اسلامی ہند کا فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔14۔

اُس وقت جبکہ تقسیم ِ ہند اور قیام ِ پاکستان کے لیے مذاکرات چل رہے تھے اس قسم کی قراردادوں کا مقصد صرف پاکستان کی آزادی کی راہ میں روڑے اٹکانا تھا۔الیکشن میں مسلم لیگ کی فتح کے بعد بھی احرار نے یہی قرارداد منظور کی کہ ہندوستان کو متحد رہنا چاہیے اور عطا اء اللہ شاہ بخاری صاحب بھی یہی بیانات دیتے رہے کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کے لیے ہلاکت آفرین اور ہلاکت خیز ہو گا۔

آخر میں اس دلچسپ بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ انتخابات میں مسلمانوں کی نشستوں پر مسلم لیگ کو فیصلہ کن کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ اور ا س کامیابی کو کانگرس بھی تسلیم کرتی تھی۔لیکن مجلس ِ احرار وہ جماعت تھی جو کہ یہ الزام لگاتی رہی کہ مسلم لیگ نے یہ کامیابی غنڈہ گردی ،دھاندلی ، اغوا تشدد اور انگریزوں کی مدد سے حاصل کی ہے ورنہ وہ کبھی بھی یہ فیصلہ کن کامیابی نہ حاصل کر سکتے۔15۔

۔1۔رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ، مصنفہ عزیز الرحمن جامعی لدھیانوی ،ص154

۔2۔رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات ِ پنجاب 1953ص272

۔3۔حیات ِ امیر شریعت مصنفہ جانباز مرزا، ناشر خالد سعید جانباز ، پبلشر مکتبہ تبصرہ لاہور، بار اول نومبر1969ص324و343

۔4۔ حیات ِ امیر شریعت مصنفہ جانباز مرزا، ناشر خالد سعید جانباز ، پبلشر مکتبہ تبصرہ لاہور، بار اول نومبر1969ص348

۔5۔ حیات ِ امیر شریعت مصنفہ جانباز مرزا، ناشر خالد سعید جانباز ، پبلشر مکتبہ تبصرہ لاہور، بار اول نومبر1969ص324

۔6۔خطبات ِ احرار جلد اول ، مرتبہ شورش کاشمیری ، ناشر مکتبہ احرار لاہور ، بار اول مارچ 1944ص22

۔7۔ خطبات ِ احرار جلد اول ، مرتبہ شورش کاشمیری ، ناشر مکتبہ احرار لاہور ، بار اول مارچ 1944ص101

۔8۔ خطبات ِ احرار جلد اول ، مرتبہ شورش کاشمیری ، ناشر مکتبہ احرار لاہور ، بار اول مارچ 1944ص95

۔9۔ خطبات ِ احرار جلد اول ، مرتبہ شورش کاشمیری ، ناشر مکتبہ احرار لاہور ، بار اول مارچ 1944ص42و43

۔10۔ رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات ِ پنجاب 1953ص11

۔11۔The Ahmadis and the Politics of Religious Exclusion in Pakistan, by Ali Usman Qasmi, published by Anthem Press London p 56

۔12۔ خطبات ِ احرار جلد اول ، مرتبہ شورش کاشمیری ، ناشر مکتبہ احرار لاہور ، بار اول مارچ 1944ص83

۔13۔ حیات ِ امیر شریعت مصنفہ جانباز مرزا، ناشر خالد سعید جانباز ، پبلشر مکتبہ تبصرہ لاہور، بار اول نومبر1969ص354

۔14۔ حیات ِ امیر شریعت مصنفہ جانباز مرزا، ناشر خالد سعید جانباز ، پبلشر مکتبہ تبصرہ لاہور، بار اول نومبر1969ص355

۔15۔کاروان ِاحرار جلد ہفتم ،مرتبہ جانباز مرزا،ناشر مکتبہ تبصرہ ص73-77

Comments are closed.