آصف جاوید
بیرسٹر محمّد علی جینا بھائی کو جناح صاحب بنانے والوں نے اصل محمّد علی جینا بھائی پر تقدّس کی وہ چادر چڑھائی ہے، جس نے بیرسٹر محمّد علی جینا کا اصل روپ ایک مہذّب، شائستہ ، سیکولر ور لبرل مزاج قانون داں سے بدل کر ان کو ایک صاحبِ کرامت ولی اللہّ بزرگ میں بدل دیا ہے۔
سکول کے سرٹیفکیٹ کے مطابق اکتوبر میں پیدا ہونے والے محمّد علی جینا بھائی کا یومِ پیدائش 25 دسمبر تبدیل کرنے والوں نےایسا کس مصلحت کے تحت کیا ، یہ ابھی جواب طلب ہے۔ مگر واقفانِ حال کے مطابق ایک اسلامی ریاست میں کرسمس کے دن کی چھٹّی کو اخلاقی جواز دینے کے لئے اِس سے بہتر کاریگری ممکن ہی نہ تھی۔
محمّد علی جینا بھائی، جدید ترکی کے کمال پاشااتا ترک کی طرز پر اپنے حاصل کئے ہوئے وطن کو اپنے لبرل اور سیکولر وژن کے مطابق ڈھالنے کی تمنّا لئے اِس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ محمّد علی جینا بھائی، پاکستان کو ایک جدیدترین عوامی جمہوریہ اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ وہ ہرگز پاکستان کو ایک عسکری ریاست اور اسلام کا قلعہ بنانا نہیں چاہتے تھے، اور نہ ہی انہوں نے ایسے کسی پاکستان کے حصول کے لئے کبھی کوئی کوششیں کی تھیں۔
بیرسٹر محمّد علی جینا بھائی کا اصل امیج تو ہندو مسلم بھائی چارے کے سفیر کا تھا، جینا بھائی پاکستان کو دقیانوسی ملّائیت سے دور رکھنا چاہتے تھے، اور اس ہی لئے انہوں نے اپنے ارد گرد سیکولر و لبرل ذہن رکھنے والے دوستوں کو اکھٹّا کیا ہوا تھا۔ محمّد علی جینا بھائی نے قیامِ پاکستان کے فورا” بعد اپنے تما م غیر مسلم دوستوں اور سوسائٹی کے ممتاز افراد کو اس وعدے پر پاکستان سے انڈیا ہجرت کرنے پر روکا تھا کہ وہ ایک ایسی ریاست بنانا چاہتے ہیں ، جہاں مہذّب دنیا کے قوانین رائج ہونگے، اور پاکستان ہر گز ہرگز ایک تھیاکریٹک مذہبی ریاست نہیں ہوگا۔ اِس ہی لئے محمّد علی جینا بھائی نے اپنے ذاتی دوستوں صنعتکار سیٹھ ڈالمیا اور ڈیلی گزٹ کراچی کے ایڈیٹر ایس ایم ایس شرما کو پاکستان میں ہی ٹھہرے رہنے پر مجبور کیا تھا۔
پاکستان بننے سے پہلے انڈیا کی مہذّب سِول سوسائٹی میں بیرسٹر محمّد علی جینا بھائی کی شہرت “ہندو مسلم اتّحاد کے سفیر” کی تھی، جینا بھائی پاکستان بننے کے بعد بھی اپنی اس شہرت کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
پاکستان میں انڈیا کے پہلے ہائی کمشنر شری پرکاش کے مطابق بیرسٹر محمّد علی جینا بھائی ، پاکستان کو ایسی ماڈل اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے، جہاں اکثریت ،اقلّیت کو پامال نہ کر سکے۔ وہ کہتے تھے کہ میں تمہیں دکھاوں گا کہ کیسے اقلّیتوں کے حقوق کا تحفّظ کیا جاتا ہے۔ سر تیج بہادر سپرو کو بیرسٹر محمّد علی جینا بھائی نے کہا تھا کہ تم نے اپنے پنڈتوں لگام دی ہے، ہم اپنے ملّاوں کو لگام دیں گے اور تم دیکھو گے کہ کیسے پاکستان مین فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہوتی ہے۔
بیرسٹر محمّد علی جینا بھائی ، پاکستان میں ایک ایسی ثقافتی اور مذہبی فضا دیکھنا اورقائم کرنا چاہتے تھے جو پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتوں کو باہم شیرو شکر کر دے اور سیکولر ریاست کے نظام کے مطابق تمام افراد بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب ،برابر کے شہری اور انسان ہوں۔ بانی پاکستان کے نزدیک مذہب یا عقیدہ پاکستانی شہری کا ذاتی مسئلہ تھا اور ریاست کے معاملات میں وہ مذہب کی مداخلت قطعاً برداشت نہیں کرتے تھے۔
جس کی ایک مثال گورنر جنرل کے لئے اٹھائے گئے حلف میں ٹیکسٹ کی تبدیلی تھی۔ بیرسٹر محمّد علی جینا بھائی نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے حلف کے لئے “پس اے خدا میری مدد فرما ” کے الفاظ بھی حلف کے ٹیکسٹ سے نکلوادئے تھے۔ جبکہ یہ الفاظ انڈیا میں پٹیل اور نہرو نے گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن کے حلف کے لئے من و عن قبول کرلئے تھے۔
پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے 10اگست کے افتتاحی اجلاس،11اگست کے پہلے باقاعدہ اجلاس، جس میں جناح نے سیکولر ریاست کا روڑ میپ بیان کیا تھا۔ اور 14اگست کے اجلاس جس میں ماؤنٹ بیٹن نے تقریر کی تھی ، ان میں سے کسی اجلاس کی کاروائی کا آغاز تلاوت کلام پاک سے نہیں کیا گیا تھا۔ جب کہ شیخ الاسلام مولانا شبّیر احمد عثمانی بھی اسمبلی کے ان اجلاسوں میں بہ نفسِ نفیس موجود ہوتے تھے ۔ ان کے علاوہ مولوی تمیز الدین خان بھی موجود ہوتے تھے۔
بیرسٹر محمّد علی جینا بھائی اپنی پرائیویٹ لائف میں ویسے نہیں تھے ، جیسا کے ان کو بانیِ پاکستان حضرت مولانا محمّد علی جناح رحمت اُللہّ علیہ کے روپ میں ایک ولی ِ کامِل اور متّقی و پرہیزگار شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ بیرسٹر محمّد علی جینا بھائی ،عام انداز کی طرزِ زندگی سے الگ تھلگ ،بمبئی کی انتہائی اعلی‘ اور مہذّب سِوِل سوسائٹی کے ایک نمایاں فرد اور کامیاب وکیل تھے۔ جناح صاحب اپنی پرائیویٹ لائف میں مغربی طرزِ زندگی کے دلدادہ تھے، انگریزی بولتے تھے، کتّے پالتے تھے، ریس کورس گراونڈ میں گھوڑوں کی ریس پر باقاعدہ جوا کھیلتے تھے، سور کا گوشت کھاتے اور وہسکی اور شیمپین شراب کے دلدادہ تھے۔ اور یہ کوئی عیب کی بات نہیں تھی، معزّز اور اعلی‘ طبقات کے لوگوں کا یہی طرزِ زندگی تھا۔
بیرسٹر محمّد علی جینا بھائی کو قائدِ اعظم کا روپ دینے والے خود اُن کے اپنے رفقاء نے بھی قائداعظم کے تصوّرات پاکستان سے کبھی وفا نہیں کی اور نوابزادہ لیاقات علی خان نے جو کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے 11اگست 1947ء والی قائداعظم کی تقریر کو مبیّنہ طور پر سینسر کروادیا، اور متذکرہ تقریر کا یہ حصہ اخبارات تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا، صرف ڈان اخبار میں ہی چھپ سکا، قائداعظم کی تقریر کا یہ حصہ منظر عام پر آجانے کے بعد اسے مسخ کرنے اور اس کے معنی بدلنے کی مذموم کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔ قائداعظم کی زندگی میں ہی قائداعظم کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
قائدِ اعظم نے ایک موقعہ پر کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکّے ہیں، اور یہ کھوٹے سکّے وہی عناصر تھے جو قائدِ اعظم کو ایک سیکولر عوامی جمہوریہ بنانے کے عمل میں درپردہ آڑے آرہے تھے، اور قائد کی وفات کے بعد ان ہی عناصر کی سازشوں سے قرارداد مقاصد بھی گھڑی گئی تھی۔
یہ مضمون پڑھنے کے بعد مجھ پر ناراض ہونے والے پہلے اپنے حکمرانوں سے پوچھیں کہ قائد کی وفات کے بعد ریاستی محقّق شریف المجاہد کے علاوہ آج تک پاکستان کی کسی بھی جامعہ میں قائد کی زندگی، حالات اور شخصیت پر پی ایچ ڈی لیول کی تحقیق پر غیر اعلانیہ پابندی کیوں لگی ہوئی ہے؟
قارئین کو یاد دلا تا چلوں کہ جناح صاحب کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے انگریزی میں ایک کتاب لکھی تھی ۔ جس کا نام تھا “مائی برادر” مگر اس کتاب کی اشاعت سے قبل اُن کی تحریر کا بیشتر حصہ قائد اعظم اکادمی کے سربراہ جناب شریف المجاہد کے ذریعہ سے غائب کروا دیا گیا تھا، اس وقت کے صحافیوں نے جب شریف المجاہد سے استفسار کیا تو انہوں نے توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ چوں کہ یہ صفحات نظریہ پاکستان کے خلاف تھے اس لیے ہم نے کتاب سے حذف کر دیے۔
تو قارئین اب آپ خود ہی اندازہ کرلیں کہ قائد اعظم پر ریسرچ کس بنا پر ممنوع قرار دی گئی ہے۔ صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ قائد کی زندگی، حالات اور شخصیت پر اگر تحقیق کا دروازہ کھول دیا گیا تو نظریہ پاکستان کا سحر ٹوٹ جائے گا اور ریاست کا گھڑا ہوا جھوٹ سامنے آجائیگا، اور پھر قائد پر اوڑھا ئی گئی تقدّس کی چادر بھی تار تار ہو جائے گی۔
♦
8 Comments