آصف جیلانی
امریکا کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران یہ اعلان کر کے ہل چل مچا دی تھی کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ تمام مسلمانوں پر امریکا کے دروازے بند کر دیں گے ، لیکن جب اس پر ہر طرف سے شور اٹھا تو انہوں نے ، اعلان قدرے نرم کردیا لیکن اب انہوں نے اپنی کابینہ میں جن وزیروں کو شامل کیا ہے ، وہ ان سے بھی زیادہ کٹر اسلام دشمن اور مسلمانوں کے مخالف ہیں۔ یہی نہیں ، منتخب صدر کی کابینہ ، بھان متی کا کنبہ نظر آتی ہے۔
ستم ظریفی ہے کہ ٹرمپ جو 1968 میں ایڑھی کی ہڈی میں نقص کا بہانہ بنا کر جبری فوجی بھرتی سے بچ گئے تھے اور ویت نام کی جنگ سے جان چھڑا لی تھی ، اب سابق فوجی جرنیلوں کے ایسے دلدادہ بن گئے ہیں اور ان پر ایسے نچھاور ہیں کہ انہوں نے اپنی کابینہ میں سابق جرنیلوں کو بھر لیا ہے۔ کابینہ میں تین اعلی ترین عہدوں پر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق جرنیلوں کو مقرر کیا ہے۔ میرین کور کمانڈر جیمس میتیس کو جو سخت گیر مشہور ہیں وزیر دفاع کا عہدہ دیا ہے۔ دوسرے میرین کور کمانڈر جنرل جان کیلی کو ہوم لینڈ سیکورٹی کا وزیر مقرر کیا ہے اور جنرل مایکل فلن کو قومی سلامتی کے مشیر کا عہدہ دیا ہے۔ فضایہ کے سابق افسر اور ٹیکساس کے سابق گورنر ، رک پیری کو انرجی کا وزیر نامزد کیا ہے۔ وزیر داخلہ کے عہدہ پر ، ریٹایرڈ نیوی سیل کمانڈر ، رائین زنکے کو مقرر کیا ہے۔
ٹرمپ کی کابینہ میں سب سے کٹر اسلام دشمن،قومی سلامتی کے مشیر ، جنرل مایکل فلن ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ اسلام کوئی مذہب نہیں ہے ۔ پچھلے دنوں امریکا کی اسلام دشمن تنظیم ایکٹ فار امریکہ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل فلن نے کہا تھا کہ اسلام ایک سیاسی نظریہ ہے جو مذہب کی آڑ میں چھپا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام ایک کینسر ہے ۔جنرل فلن کہتے ہیں کہ ہم کس طرح ریڈیکل اسلام اور اس کے اتحادیوں کے خلاف عالمی جنگ جیت سکتے ہیں۔جب کہ ان کی رائے میں ،مسلمانوں نے سچ کی تلاش ممنوع قرار دے دی ہے کیونکہ وہ صرف اپنی مقدس کتاب قرآن پر یقین رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کی کابینہ کے واحد افریقی امریکی ، بین کارسن ہیں جنہیں ہاوسنگ اور شہری ترقیات کا وزیر مقرر کیا گیا ہے۔ یہ مسلمانوں اور اسلام کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران کارسن کا کہنا تھا کہ امریکی مسلمانوں کو صدر کے عہدہ پر فائز ہونے کا نا اہل قرار دیا جانا چا ہئے کیونکہ ان کے نزدیک اسلام ، امریکا کے آئین سے مطابقت نہیں رکھتاہے۔ ان کا اصرار ہے کہ ایک امریکی مسلمان صرف اسی صورت میں صدر کے عہدہ پر فائز ہو سکتا ہے اگر وہ اسلام کا عقیدہ ترک کرنے کا اعلان کر دے۔
بہت سے امریکی مسلمانوں کو توقع ہے کہ سینٹ میں جب کارسن کی تقرری کی توثیق کے سماعت ہوگی تو ان سے اس بارے میں سوالات کئے جائیں گے کہ کیا ان کا موقف امریکی آئین کے خلاف نہیں جس کے تحت مذہب کی بنیاد پر کسی کو صدر کے عہدہ پر فائز ہونے کے لئے نا اہل نہیں قرار دیا جا سکتا ہے ۔
ٹرمپ کی کابینہ کے سب سے زیادہ انتہا پسند وزیر اسٹیو بینن ہیں جن کو وائٹ ہاوس میں حکمت عملی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ یہ سفید فام نسل پرست مانے جاتے ہیں جو آن لائین میگزین براٹبرٹ ڈاٹ کام کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ اسٹیو بینن ، یورپ کے نسل پرستوں کے قریبی رابطہ میں ہیں اور خاص طور پر ہالینڈ کے اسلام دشمن رہنما گریٹس وایلڈر کے قریبی ساتھی ہیں۔ اسٹیو بینن اس میگزین میں بڑی باقاعدگی سے اسلام کے خلاف ، وایلڈر کے مضامین شائع کرتے رہے ہیں۔ وایلڈر کا موقف ہے کہ اسلام ، مغربی آزادی اور عیسائی اور یہودی تہذیب کی بقا کے لئے خطرہ ہے۔
ایک اور کٹر اسلام دشمن خاتون ، کیتھرین گورکا، ہوم لینڈ سیکورٹی کی ٹیم میں شامل کی گئی ہیں جو کونسل آن گلوبل سیکورٹی کی سربراہ ہیں ، جو،اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے لئے قانون سازی میں پیش پیش رہی ہیں۔
ٹرمپ کی کابینہ میں وزیر دفاع جنرل جیمس میتیس عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کی کمان کے فرایض انجام دے چکے ہیں ، صدر اوباما کی مشرق وسطی کی پالیسی کے سخت مخالف رہے ہیں ۔ وہ مسلمانوں کے تئیں سخت گیر پالیسی کے حامی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ امریکیوں نے سیاسی اسلام کے نظریہ کے قلع قمع کے لئے موثر اقدامات نہیں کئے۔
ایک اور سخت گیر موقف کے حامل ، مایک پومپیو کو CIAکا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ ان کا تعلق بھی فوج سے رہا ہے اور برلن میں تعینات امریکی فوج میں فرایض انجام دے چکے ہیں اور خلیج کی پہلی جنگ میں لڑ چکے ہیں۔ مایک پومپیو نے گوانتا ناموبے کو بند کرنے کی صدر اوباما کی تجویز کی سخت مخالفت کی تھی۔ یہ نیشنل رایفل ایسوسی ایشن کے ممبر ہیں اور بندوقوں پر پابندی کے سخت خلاف ہیں۔
ٹرمپ نے ، سینیٹر جیف سیشن کو اٹارنی جنرل مقرر کیا ہے جنہیں صدر ریگن نے 1986 میں جج نامزد کیا تھا لیکن فیڈرل جوڈیشری نے ان کا نام مسترد کر دیا تھا۔ سینیٹر سیشن عام طور پر امیگریشن اور خاص طور پر مسلم امیگرنٹس کے داخلہ کے خلاف ہیں ۔ عام خیال ہے کہ سینیٹر جیف سیشن ، ا میگریشن کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسیوں کو بھر پور طور پر عملی جامہ پہنائیں گے جس کی بنیاد پر ان کی اقلیتوں سے معرکہ آرائی جاری رہے گی۔
ٹرمپ کی کابینہ میں سب سے زیادہ متنازعہ تقرری ، ایکسن موبیل آئل کے چیف ایگزیکٹو ، ریکس ٹلر سن کی ہے جنہیں وزیر خاجہ کا عہدہ تفویض کیا گیا ہے۔ اس تقرری پر سب کو تعجب ہوا ہے، جب کہ اس عہدہ کے لئے نیویارک کے سابق مئیر روڈی جولیانی ، صدارتی نامزدگی کے مقابلہ میں ٹرمپ کے سابق حریف مٹ رومنی ، جنرل پیٹریاس اور اقوام متحدہ میں امریکا کے سابق مندوب جان بولٹن امیدوار تھے۔
تعجب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریکس ٹلر سن ، روسی صدر پوتین کے بہت قریبی دوست ہیں۔ پوتین سے ٹلرسن کے تعلقات 1990سے ہیں ۔2011میں ٹلر سن نے روسی سمندر میں تیل کی تلاش کا 500ارب ڈالر کی مالیت کے اشتراک کا سودا کیا تھا۔ اس کے ایک سال بعد پوتین نے ٹلرسن کو روس کا سب سے بڑا اعزاز آرڈر آف فرینڈ شپ سے نوازا تھا۔
ٹلر سن کو حکومت کا کوئی تجربہ نہیں۔ ساری عمر انہوں نے ایکسن میں گذارا جہاں وہ 1975میں ایک انجینر کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے اور 2006میں سربراہ مقرر ہوئے تھے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر پوتین سے گہری دوستی کی وجہ سے ٹلر سن کو امریکی خارجہ پالیسی کے سلسلہ میں بہت دشوار مسائیل کو سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو سینیٹ میں ان کی تقرری کی منظوری بہت مشکل ثابت ہوگی ، خود ریپبلیکن پارٹی کے بعض اہم رہنماوں کی طرف سے ریکس ٹلر سن کی مخالفت کا خطرہ ہے ۔
بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ بھان متی کے اس کنبہ کے ساتھ ٹرمپ کس طرح اپنی پایسیاں وضع کرتے ہیں اور ان پرکس طرح کامیابی سے عمل کر پاتے ہیں۔
♦
One Comment