آصف جیلانی
ہندوستان کی فوج کے نئے سربراہ کی تقرری پر سیاسی ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت نے لیفٹینٹ جنرل بپن راوت کو ہندوستان کی 13لاکھ فوج کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے جو موجودہ سربراہ جنرل دلبیر سنگھ کی جگہ یکم جنوری کو اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے ، جنرل راوت کو دو اعلی سینیر افسروں ، لیفٹینٹ جنرل پی محمد حارث اور لیفٹینٹ جنرل پروین بخشی کی سینیارٹی کوپس پشت ڈال کر، فوج کا سربراہ مقرر کیا ہے۔
میکانیایزڈ انفٹری کے جنرل محمد حارث کو جن کا تعلق کیرالا سے ہے ، حال میں جنوبی کمان کے سربراہ کے عہدہ پر ترقی دی گئی تھی۔ لیفٹینٹ جنرل بخشی ، جن کا تعلق آرمڈ کور سے ہے ، مشرقی کمان کے سربراہ ہیں۔ حزب مخالف کانگریس نے وزیر اعظم مودی سے سوال کیا ہے کہ آخر کس بنیاد پر انہوں نے دو اعلیٰ سینیر افسروں کی سینارٹی کو نظر انداز کر کے جنرل راوت کو فوج کا سربراہ مقرر کیا ہے ۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ یہ صریح طور پر فوج کے معاملات میں سیاسی مداخلت ہے۔ کمیونسٹ پارٹی انڈیا نے بھی جنرل راوت کی تقرری کو متنازعہ قرار دیا ہے۔
سنہ1983کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت نے فوج کے سربراہ کی تقرری میں سینارٹی کو نظر انداز کیا ہے۔ آخری بار یہ اقدام ، اندرا گاندھی نے لیا تھا جب انہوں نے فوج کے سب سے سینیر جنرل، ایس کے سنہا کی جگہ جنرل ویدیا کو فوج کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اس فیصلہ کے خلاف بطور احتجاج جنرل سنہا نے استعفی دے دیا تھا۔
تین دہائیوں کے بعد دو اعلیٰ افسروں کی سینارٹی کو نظر انداز کرکے جنرل بپن راوت کو فوج کا سربراہ مقرر کرنے کا اقدام بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت کی کھلم کھلا ایک چالاک چال قرار دیا جارہا ہے جس کا اصل مقصد ایک مسلمان جنرل کو فوج کے سربراہ کی حیثیت سے تقرری سے محروم کرنا ہے۔ جنرل محمد حارث کی سینارٹی جنرل پروین بخشی کے برابر ہے ۔ جنرل بخشی مشرقی کمان کے سربراہ ہیں اور جنرل حارث جنوبی کمان کے سربراہ ہیں۔ مودی حکومت نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ اقدام جنرل حارث کے خلاف نہیں ہے ، ان کے ساتھ جنرل بخشی کو بھی نظر انداز کیا ہے۔ ویسے یہ خبریں ہیں کہ عنقریب جنرل بخشی کو ملک کا پہلا چیف آف ڈیفنس اسٹاف مقرر کیا جائے گا۔
یہ بات اب چھپی نہیں رہی ہے کہ جنرل راوت کو فوج کا نیا سربراہ مقرر کرنے کے اس فیصلہ کے پیچھے در اصل وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے نہایت با اثر مشیر ، اجیت دووال ہیں ۔ جنرل راوت ، اجیت دووال کے گہرے دوست ہیں اور دونوں کا تعلق گڑھوال سے ہے یہ بات بھی کم تعجب کی نہیں ہے کہ خفیہ ایجنسی را کے نئے سربراہ ، انیل دھسمانہ کا بھی تعلق گڑھوال کے ضلع کے گاوں پوری سے ہے۔
جنرل راوت کے انتخاب کے سلسلہ کہا گیا ہے کہ 2007میں کشمیر میں ان کی کارکردگی اور دھشت گردوں کے خلاف کاوائی کے بارے میں ان کے تجربہ کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ جب کہ وہ وہاں راشٹریہ رایفلز کی کمان کر رہے تھے۔ فوجی امور کے جانکاروں کا کہنا ہے کہ جنرل راوت کی کشمیر میں کارکردگی کے بارے میں مبالغہ آمیزی سے کام لیا جاتا ہے۔ اور اس سلسلہ میں قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کو کافی دخل ہے۔
اس زمانہ کے بارے میں بھی جب جنرل راوت انڈین ملٹری اکیڈمی میں ایک کیڈٹ کی حیثیت سے زیر تربیت تھے اقربا پروی کی کہانی مشہور ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ انڈین ملٹری اکیڈمی میں تربیت کے دوران بپن راوت ،اعلی اعزاز جیتنے والے کیڈٹس میں پانچویں نمبر پر تھے لیکن ان سے سبقت لے جانے والے چار کیڈٹس کو نظر انداز کر کے بپن راوت کو سورڈ آف آنر کا اعزاز دیا گیا۔ یہ ایوارڈ دینے والے ، ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ ، گنجو راوت تھے ۔ گنجو راوت ، بعد میں وائس چیف آف اسٹاف مقرر ہوئے ۔ گنجو راوت اس ۵ گورکھا بٹالین میں تھے جس میں جنرل بپن راوت کے والد شامل تھے ۔ گنجو راوت کا بھی تعلق گڑھوال سے تھا۔ غرض جنرل راوت ، زیر تربیت کیڈٹ کے زمانہ سے اب تک اقربا پروری ، دوست نوازی اور گڑھوالی ہونے کے ناطے ترقی کے زینے چڑھتے آئے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کا نیا عہدہ ان کے لئے سنگین آزمایش ثابت ہو۔
مبصرین نے بھارتیا جنتا پارٹی کی اس دلیل پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ جنرل بپن راوت کو فوج کا سربراہ کشمیر اور لائین آف کنٹرول پر دہشت گردی کے خلاف ان کے تجربہ کی بنیاد پر مقرر کیا گیا ہے ۔ مبصرین یہ سوال کرتے ہیں کیا کشمیر میں ان کی تعیناتی اور ان کی کاروائی، کشمیریوں کی حریت کی تحریک کے سیل رواں کو روکنے میں کامیاب رہی ہے اور کیا اب ، ہندوستانی فوج کی تمام تر کاروائی دہشت گردی کے خلاف مرکوز ہوگی۔ جنرل بخشی جن پر جنرل راوت کو ترجیح دی گئی ہے وہ بھی شمالی کمان کے سربراہ رہ چکے ہیں اور اس وقت چین کی سرحد پر مشرقی کمان کے سربراہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا چین کے سرحدی محاذ کے مقابلہ میں ،کشمیر میں لائین آف کنٹرول زیادہ اہم ہے؟ ۔
♥
One Comment