فلسفہ کو اگرنظریہِ حیات کے طور پر لیا جائے تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کا کوئی نہ کوئی نظریہِ حیات یعنی فلسفہ ضرور ہوتا ہے۔ انسان اپنے اُسی نظریہِ حیات کے تابع زندگی گزارتا ہے۔ آدمی خواہ پڑھا لکھا ہویا ان پڑھ وہ شعور کی منزلیں طے کرنے کے بعد زندگی گزارنے کے کوئی نہ کوئی اصول طے کرلیتا ہے۔
فلسفہِ حیات کے حوالے سے پڑھے لکھوں اوران پڑھوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ فلسفہِ حیات کے حوالے سے ان پڑھ ، جنہیں پڑھے لکھے جاہل اور گنوار خیال کرتے ہیں، اپنی شعوری عمر تک پہنچتے ہی زندگی کے کچھ زمینی حقائق کو سمجھ لیتے ہیں ۔ اپنی عملی اور مادی زندگی کے کچھ اصول طے کرلیتے ہیں۔ سماجی، سیاسی، مذہبی اورعلمی حوالوں سے ان کا انحصارایسے “دوسروں” پر ہوتا ہے جنہیں وہ “پڑھا لکھا” اور “عالم و فاضل” سمجھتے ہیں۔ ان کے موجودہ سماج اور ماحول میں انہیں جس قسم کے “پڑھے لکھے” (خواہ وہ روایتی مُلا ہو، سکول، کالجز کے اساتذہ ہوں یا کوئی سماجی غیر رسمی حلقے) وہ انہی سے جتنا کچھ سمجھتے ہیں اُسی کو سچ مان لیتے ہیں اور انہی نظریات کے ذرئعے سے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔
اُن کے پاس نہ اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ ایسے نظریات کے تضادات اور ان کی وجوہات تلاش کرتے پھریں۔ البتہ وہ ایسے نظریات کو “علما” یعنی “دوسروں” سے مستعار لئے ہوئے نظریات کہتے ہیں۔ اپنے ان نظریات کے حوالے سے وہ ضدی ہوسکتے ہیں لیکن یہ ماننے میں کہ ان کے یہ خیالات “دوسروں” ہی سے مستعار لئے ہوئے ہیں وہ عموماً ضدی نہیں ہوتے۔ وہ اپنے ایسے نظریات کو “دوسروں” کے نظریات کہنے میں کوئی زیادہ باک بھی محسوس نہیں کرتے۔
اس کے برعکس عام پڑھے لکھے اس حوالے سے کچھ زیاد خود پسندی اور خود فریبی کا شکاررہتے ہیں۔ اُن کی یہ خود فریبی اورخود پسندی کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ ان کا نظریہِ حیات بھی ان کا اپنا تخلیق کردہ نہیں ہوتا بلکہ مستعار لیا ہوا ہوتا ہے لیکن یہ اپنے اس مستعار لئے گئے نظریے کو ساری عمر اپنا نظریہِ حیات سمجھ کر جیتے ہیں اور اسی خوش فہمی میں زندگی بسرکرتے رہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی اپنے ایک نظریئے کے تحت گزار رہے ہیں۔ اپنے اس نظریئے کی بدولت وہ زیادہ اڑیل اور ضدی واقع ہوتے ہیں۔
پڑھے لکھوں کی دوسری قسم حد سے زیادہ منافقتوں پر مبنی ہوتی ہے۔ ایسے پڑھے لکھوں کا نظریہِ حیات صرف دنیوی اور مادی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے اس لئے یہ کبھی کسی بھی نظریہ یا فکر کے ساتھ مخلص ہوتے ہی نہیں ہیں۔ انہیں صرف اپنے ذاتی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ جہاں ان کا ذاتی مفاد ہوگا وہاں یہ اپنے نظرئیے کو موقع محل کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ “پڑھے لکھوں” کی تیسری قسم کو مزید دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک قسم ایسے “پڑھے لکھوں” کی ہوتی ہے جو ہوتے تو بہت ذہین و فطین ہیں۔ نکتہ آفرینی کا فن بھی جانتے ہیں لیکن اپنے ذاتی، شخصی یا گروہی مفادات کے لئے ہی اپنا سارا علم وہنر خرچ کرتے ہیں یا انہیں ایسا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور وہ کسی نہ کسی بڑے نظریہ کے تحت ایسا کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ یعنی ایسے لوگ اپنے استعمال ہونے کی بھی کوئی نہ کوئی قیمت وصولتے ہیں اور نظریات کی اس متنوع دنیا میں کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی نظریئے کے ساتھ جڑجاتے ہیں۔
اگر مختلف مکاتیبِ فکر اور نظریہ حیات کی کوئی کلاسیفیکیشن کی جائے تو سارے کے سارے فلسفے دو بنیادی فلسفوں کے گرد گھومتے ہیں۔ عام الفاظ میں ایک کو “مثالیت پسندی کا فلسفہ” کہا جاسکتا ہے اور دوسرے کو “مادیت پسندی کا فلسفہ” کہا جاتا ہے۔
ایسے اذہان اپنی افتادِ طبع کا جائزہ لیتے ہوئے خود کو کسی نہ کسی نظریہ میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ وہ ایسے افراد اپنے ان نظریات سے براہِ راست ہوں۔ ان سے کچھ تو براہِ راست مستفید ہوتے ہوجاتے ہیں وہ اپنے مخصوص انداز میں استدلال گھڑتے ہیں جو ایسے نظریات سے بالواسطہ طور پر مستفید ہونے والوں کے لئے بھی ہوتا ہے اور ان پڑھوں کے لئے بھی۔ لہٰذا ایسے نظریات سے باالواسطہ طورپر مستفید ہونے والوں کو ایسے نظریات کی صداقت کی مشق کرائی جاتی ہے تاکہ وہ اس یقین کے ساتھ کہ وہ بھی زندگی میں کبھی نہ کبھی ان نظریات کے مادی اور دنیوی مفادات سے مستفید ہونے کے قابل ہوجائیں گے۔ یہ کام وہ بڑی چابکدستی سے کرتے ہیں۔
ایسے ہی نظریات کی ترویج اور اشاعت کے لئےمغرب نے برِصغیر میں اپنا تعلیمی نظام جو بعد ازاں پبلک سکولز، مونٹسری سکولز اور دیگر انگریزی میڈیم سکولوں کی شکل میں سامنے آیا متعارف کرایا۔ مغرب میں تعلیم پانے والے برصغیر کے کچھ ہونہار طالبعلموں کی تربیت بھی انہی خطوط پر کی گئی۔ انہوں نے ایسے نظریات کی ترویج میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ان میں سے گنتے کے چند افراد ہوں گے جنہوں نے کوئی اپنا نظریہ تخلیق کیا ہو یا پھر اپنے ماحول کا باقاعدہ مطالعہ کرکے اس کے مطابق کوئی اپنا علاقائی نظریہ اپنے لوگوں کو دیا ہوَ۔
ایسے اذہان اپنے علم وفن کو انہی استحصالیوں کے ہاتھوں فروخت کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اسی کو ہی اپنا سلسلہِ روزگار بھی بنایا اور اسی سے اپنی تسکینِ قلب اور خوشی بھی اکسیر کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ خود نظریہ دان یا نظریہ ساز نہیں ہوتے۔ یہ دوسروں کے نظریات کے شارح ہوتے ہیں۔ ان کی تشریح اور توضیح پراکتفا کرتے ہیں۔ اغلب خیال تو یہی ہے کہ ایسے لوگوں کی ابتدائی اُٹھان تو فلسفیانہ ہوتی ہے۔ ان کی افتادِ طبع بھی کچھ اس قسم کی ہوتی ہے اور اپنی اس افتادِ طبع کے ہاتھوں مجبور یہ لوگ کسی نہ کسی مستعمل نظریئے کے تابع رہ کراس نظریہ کی عمر بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
کچھ عرصہ کے بعد یہ اپنے اس ہنر میں اس حد تک طاق ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں اپنے سکونِ قلب کےلئے بھی “فلسفہ فلسفہ کھیلنا” ہی زیادہ مزہ دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ “آرم چیئر” یا “کیفیٹریا کے فلسفی” بن کر رہ جاتے ہیں اور عملی زندگی کی تلخیوں اور حقیقتوں کا خود سامنے کرسکتے ہیں اور نہ عامِ آدمی کی حقیقی مشکلات کو سمجھتے ہیں بلکہ بس اپنے زیرِ نظر فلسفے کی ترویج اور توثیق کا باعث بنتے ہیں۔
اس کی مثال تو ایسی ہے جیسے ہر محبت شروع تو جنسی خواہشات کے تحت ہو لیکن تحلیقیِ فن میں ڈھلتے ہوئے خود کو “عشق” کی شکل میں ڈھال لے۔ آرام دہ کرسی کے یہ فلسفی عام آدمی کی زندگی کو تلخیوں میں کمی لانے میں مثبت کے بجائے منفی کردار زیادہ ادا کرتے ہیں۔
♥
One Comment