برما میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کا ذمہ دار کون؟

پچھلے چند سالوں سے مسلم دنیا میں یہ پراپیگنڈہ زور و شور سے جاری ہے کہ میانمار( برما) میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں ۔ان مظالم کی حقیقت کیا ہے؟

بحرانوں پر نگاہ رکھنے والے ایک تھنک ٹینک کے مطابق میانمار کی پولیس پر رواں برس اکتوبر میں حملہ کرنے والے روہنگیا افراد کے دو مسلمان ملکوں پاکستان اور سعودی عرب میں رابطے پائے جاتے ہیں۔

سادہ لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے جہادی تنظیمیں اپنی نفرت آمیز تعلیمات کے ساتھ برما بھی پہنچ گئی ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں میں غیر مسلموں کے خلاف نفرت انگیز جذبات پیدا کرتے ہوئے ان کے خلاف کاروائیوں پر اکسایا ۔ نتیجتاً چند مسلمانوں کی جہادی کاروائیوں کا خمیازہ برما کے مسلمانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اس وقت پاکستان، کشمیر،افغانستان یا عرب دنیا میں مسلمانوں کی قتل و غارت کی وجہ یہی جہادی گروپ ہیں۔

روہنگیا مسلمانوں کے شدت پسندوں نے رواں برس نو اکتوبر کو ایک حملے میں میانمار پولیس کے نو اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے کے حوالے سے انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے واضح کیا ہے کہ حملے کی قیادت وہ لوگ کر رہے تھے جن کے پاکستان اور سعودی عرب میں مسلح انتہا پسندوں سے روابط ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں نے یہ حملہ میانمار کی مسلمان اکثریت والی شمالی ریاست راکھین میں کیا تھا۔

نو اکتوبر کے حملے کی ذمہ داری ایک غیرمعروف عسکری گروپ حرکۃ الیقین نے قبول کی تھی۔ برسلز میں قائم انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے اِس حملے کے بعد اِس گروپ کے چار افراد کے ساتھ گفتگو کی۔ اُن کے بیانات کے بعد ہی گروپ نے دو ملکوں میں اُن کے رابطوں کو اپنی رپورٹ میں بیان کیا۔ جن عسکریت پسندوں کے ساتھ گفتگو کی گئی، اُن میں سے دو میانمار اور دو دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں۔

گروپ کی رپورٹ کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے بعض افرادکچھ اور مسلح تنازعات میں بھی شریک رہ چکے ہیں اور ایسے تربیت یافتہ شدت پسندوں نے راکھین ریاست کے ایک خفیہ علاقے میں اپنے روہنگیا برادری کے چند افراد کو دو برس کے دوران مختلف اوقات میں چھپ چھپا کر ہتھیار چلانے کی تربیت دیتے ہوئے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

حرکۃ الیقین کے لیڈر کے طور پر عطا اللہ کا نام سامنے آیا ہے، جو پاکستانی شہر کراچی میں روہنگیا والدین کے گھر پیدا ہوا تھا۔ عطا اللہ کی ولادت کے چند برسوں بعد اُس کا والد اپنے بچے کے ہمراہ سعودی عرب کے شہر مکہ منتقل ہو گیا تھا۔

جوان ہونے کے بعد عطا اللہ کے پاکستان لوٹنے کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے جہاں متوقع طور پر اُس نے گوریلا جنگ اور ہتھیار سازی کی تربیت حاصل کی۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لیڈر اُن بیس روہنگیا انتہا پسندوں میں شامل ہے، جو سعودی عرب سے راکھین ریاست میں مزید حملوں کی پلاننگ کرنے کی کوشش میں ہیں۔

میانمار میں نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت کی حکومت نے بھی اِس حملے کے تناظر میں کہا تھا کہ اس میں ممکنہ طور پر غیرملکی عناصر ملوث ہیں۔ حملے کے بعد میانمار کی حکومتی فوج کی کارروائی میں کم از کم ستاسی روہنگیا مسلمان ہلاک اور ستائیس ہزار کے قریب اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیشی سرحد کی جانب منتقل ہو گئے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ حرکۃ الیقین کا قیام سن 2012 میں آیا تھا لیکن اِس نے عسکریت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ لیکن اس نے نفرت کے بیج ضرور پھیلائے جس کا نتیجہ قتل و غارت کی صور ت میں سامنے آیا اور حرکۃ الیقین کی جانب سے پہلا حملہ رواں برس اکتوبر میں کیا گیا۔

DW/News desk

4 Comments