گرفتاری سے قبل وہ جس انداز سے کراچی پریس کلب کے باہر اپنی موٹر سائیکل سے اترا اس سے نہیں لگتا تھا کہ وہ ساٹھ ستر سال کا بوڑھا پروفیسر ہے ۔ لگتا تھا کہ یہ ساٹھ کی دہائی ہے اور ظفر عارف ملک میں مارشل لاء کے خلاف احتجاج کرنےوالا ایک نوجوان طالب علم کارکن ہے۔ وہ کسی بڑی سیاسی جماعت کے راہنما کے طور پر بڑی کروفر کے ساتھ لمبی چوڑی گاڑی سے نہیں اترے بلکہ ایک کھلنڈرے نوجوان کی طرح ایک پھٹپھٹی پر آۓ اور رینجر کے شیر جوانوں کے سامنے کھڑے ہوکرکہا جو کرنا ہے کرو میں حاضر ہوں۔
پروفیسر ظفر عارف کا میں براہ راست طالب علم نہیں رہا لیکن جن سے میں نے پڑھا وہ ان کے ہمنشین تھے اور میرے ساتھیوں کے وہ استاد بھی رہے۔ کبھی ایک آدھ لیکچر اور گفتگو بھی ان سے سننے کا موقع ملا۔ وہ اساتذہ کے اس قبیل سے ہے جن کوسیاسی راہنما ہو نا چاہیے تھا مگر غلطی سے استاد ہوۓ جس طرح کچھ سیاسی راہنما ایسے ملیں گے جن کو استاد ہونا چاہئے تھا مگر غلطی سے سیاست میں آگئے ہیں۔
عمرانیات کا یہ استاد ممولے کے شہباز سے لڑنے کو ہی سماجی ترقی سمجھتے ہیں۔ میں ان کو قریب سے نہیں جانتا مگر وہ جس طرح کے نظریات رکھتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ الطاف حسین اور اس کی سیاست کے کبھی پر جوش حامی نہیں رہے ہونگے اور یہ بات بھی یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں بھی جب کبھی حالات بدل جائیں گے اور مقتدر حلقوں کے ساتھ بھائی کے کٹے رابطے بحال ہونگے تو ظفر عارف ان کے حاشیہ برداروں میں شامل نہیں ہونگے۔
گو اس کو گرفتار کرنے والوں کو مبارکبادیاں بھی ملی ہونگی اور ترقیاں بھی۔ بادی النظرمیں ایم کیو ایم کے کورآڈینٹر کو بغیر کسی مزاحمت کے گرفتار کرنا ایک کارنامے سے کم تو نہیں۔ عزیز آباد بند نہیں ہوا، گولی مار میں گولی نہیں چلی اور نہ ہی لیاقت آباد سے سہراب گوٹھ تک کوئی گاڑی جلی۔ اس قدر مستعد انداز میں ایم کیو ایم جیسی پارٹی کے راہنما کو گرفتار کرنے کی خبر پر پورے ملک میں واہ واہ ہوئی۔
ایم کیو ایم پر بھتہ، قتل و غارت اور ملک کے خلاف سازشوں اور اس کے قائد پر غداری کے مقدمات قائم ہیں۔ پورا ملک جانتا ہے کہ ان حالات میں ایم کیو ایم کے ساتھ یا تو پاگل کھڑا ہو سکتا ہے یا پھر وہ جو اپنی زندگی سے تنگ آچکا ہو۔ زندگی کے آخری لمحے تک ساتھ نبھانے کی قسم کھانے والے اور قائد کے ایک اشارہ ابرو پر جنموں ساتھ رہنے کے وعدے پر بیاہ کر لائی بیوی چھوڑ دینے والے بھی آج ان کے ساتھ نہیں۔ ظفر عارف واقعی پاگل ہے کہ زندگی کے اس حصے میں آرام سے گھر بیٹھنے، کہیں ایک آدھ لیکچر دینے اور کوئی کتاب وغیرہ لکھنے کے بجاۓ پولیس کی مار کھانے خود ہی پہنچ گیا۔
ظفر عارف نے ایم کیو ایم کا مقدمہ لڑنے سے پہلے ہی جیت لیا۔ ایم کیو ایم اگر غلط تھی اور اس کے اقدامات غیر قانونی تھے تو اس کا ذمہ دار ظفر عارف نہیں بلکہ ڈاکٹر فاروق ستار ہوسکتے ہیں کیونکہ اس وقت کوارڈینیٹر وہ تھے۔ الطاف حسین نے را کے ساتھ مل کر اگر کوئی سازش کی ہے تو اس وقت ظفر عارف ان کے ساتھ نہیں بلکہ کہیں پڑھا رہے تھے۔ اس وقت الطاف حسین کے ساتھ وہ تھے جو آج آزاد گھوم رہے ہیں اور ظفر عارف جو ان کے ساتھ نہیں تھے آج پابند سلاسل ہیں۔
نہ ایم کیو ایم پر پابندی لگی ہے اور نہ ہی ظفر عارف نے کوئی جرم کیا ہے تو وہ گرفتار کیوں ہیں۔ ایک عدالت سے دوسری عدالت اور ایک ضمانت سے دوسری ضمانت کا یہ سارا کھیل صرف ظفر عارف کو جیل میں رکھنے لئے رچایا جا رہا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو ظفر عارف کرنا چاہتے ہیں۔ ریٹائر منٹ کے بعد گھر بیٹھ کر افشار خون بڑھانے کے بجاۓ آج وہ دنیا کی نظروں کے سامنے ایک موثر کردار ادا کر رہےہیں۔
الطاف حسین کو اپنی ایم کیو ایم کے ایک سافٹ امیج کو سامنے لانے کے لئے جس چہرے کی ضرورت تھی وہ ظفر عارف کے علاوہ کسی اور کا نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک ایسا استاد جس نے کئی نسلوں کو سماجی رویوں کی تعلیم دی اور ایک با اصول اور سچا شخص جس نے پوری زندگی طبقاتی معاشرتی جبر اور استحصالی قوتوں کے خلاف جدوجہد کی آج ریاستی جبر کے خلاف اس الطاف حسین کا مقدمہ لڑ رہا ہے جس کو اس کے اپنے ساتھیوں نے چھوڑ دیا ہے۔
الطاف حسین پرایک الزام ہے کہ اس نے تعلیم یافتہ اور مہذب کہلانے والے لوگوں کو بد معاش اور بد قماش بنا دیا۔ جس قوم کی پہچان امروہی ، دہلوی، عالی اور صدیقی ہوا کرتی تھی اب وہاں سے کے۔ٹو، ٹی ٹی، مدھوری اور کانا نکلتے ہیں۔ لطاف کی سیاست نے مہاجر نوجوانوں کو تعلیم سے دور کردیا امتحان پاس کرنے کے لئے محنت کے بجاۓ نقل کے رجحان کو فروغ دیا اور گھروں میں قلم کتاب کے بجاۓاسلحہ پہنچا دیا ہے۔
الطاف حسین نے اپنی سیاسی تنظیم میں پڑھے لکھے لوگوں کے بجاۓ جن کو ترجیح دی ان کی شہرت معاشرے میں اچھی نہیں رہی۔ ریاست کے ساتھ مفاہمت کے بجاۓ ہمیشہ لڑائی اختیار کی اور اس کے نتیجے میں کراچی اور مہاجروں کو نقصان اٹھا نا پڑا۔ الطاف حسین انا پرست ہیں وہ کسی ا ور کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
ظفر عارف جیسے تعلیم یافتہ، اصول پسند، ساری زندگی محنت کشوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے مڈل کلاس کے نمائندے کو سامنے لاکر الطاف حسین نے اپنے اپر لگے الزامات کے داغ دھونے کی کوشش کی ہے۔ اب الطاف حسین کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس نے تعلیم یافتہ لوگوں کو اہمیت نہیں دی یا کسی کی بات نہیں سنی ہو۔ اس نے تو ایک پروفیسر اور ایک اچھی شہرت کے حامل استاد کو ایم کیو ایم کی نمائندی سونپ دی ۔ لیکن ریاست نے اس استاد کو بھی جیل میں ڈال دیا جس نے کبھی کسی کوتھپڑ بھی نہیں مارا تھا۔
ایک پروفیسر جس نے کبھی کوئی جرم نہیں کیا آج پابند سلاسل ہے۔ دنیا بھر میں کسی گریجویٹ کو بھی ہتھکڑی نہیں لگتی لیکن یہاں اس پروفیسر کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جس نے سینکڑوں گریجویٹس کو علم و شعور کی آگاہی دی ہے۔ جب ایک عدالت سے ضمانت ہوتی ہے تو دوسری عدالت میں پیشی ہوتی ہے۔ نہ عدالت کو معلوم ہے کہ پروفیسر ظفر عارف پر الزام کیا ہے نہ ملزم کو معلوم ہے۔
ساری دنیا ایک بات جانتی ہے کہ ہتھکڑیاں پہنے اس شخص کا جرم یہ ہے کہ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت کا رکن ہے جس پر اس ملک کے قانون کے مظابق کوئی پابندی نہیں ہ اور نہ اس ملک کے آئین کے مطابق کسی شخص کو کسی قانونی سیاسی جماعت سے وابستگی پر پابندی۔ نہ ایم کیو ایم کالعدم ہے اور نہ اس کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔ جبکہ دوسری طرف جن جماعتوں پر پابندی ہے ان کے سربراہان سے اس ملک کے قانون کا سب سے بڑا رکھوالا وزیر داخلہ دن دھاڑے مذاکرات کرکے ان کے مطالبات مانتا ہے۔ وہ لوگ جن پر درجنوں قتل کے صرف الزامات ہی نہیں بلکہ خود فخریہ طور پر قبول کرنے کے باوجود آزاد گھوم رہے ہیں۔
چاہے قانون جیسا بھی اپنا رخ اختیار کرے۔ ریاست کا جو بھی فیصلہ ہو ، ظفر عارف کو لگی ہتھکڑیاں یہ جنگ اخلاقی طور پر ہار گئی ہیں۔ ظفر عارف بغیر ایک لفظ بولے اپنا مقدمہ جیت گیا ہے۔ جیل میں رہنا اور مقدمات کی پیشیاں بھگتانا ایک عارضی عمل ہے جو جلد اپنے انجام کو پہنچے گا۔
جو مستقل فیصلہ تاریخ لکھے گی وہ ظفر عارف کے حق میں ہوگا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک پڑھے لکھے پروفیسر کو اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر اذیت کا شکار ہونا پڑا اور وہ ضمیر کا قیدی تھا۔
♦
One Comment