سائنس مذہبی نقطہ نظر سے

 

اینڈرسن شاہ

سائنسدانوں کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ وجود سے متعلق بیشتر سوالات کے حقیقی یا حقیقت سے قریب تر جوابات دے سکیں کیونکہ ان سوالوں کے جوابات کا حصول انسانیت کے لیے ضروری ہے: کائنات کیسے وجود میں آئی؟ زندگی پہلی بار کیسے شروع ہوئی؟ ہم کہاں سے آئے؟ اس مقصد کے حصول کے لیے سائنس ایسے سوال کو کوئی اہمیت نہیں دیتی کہ کیا خدا موجود ہے یا نہیں؟۔

کیونکہ یہ  سائنس کا کام ہے اور نا ہی اس کی کبھی ترجیح رہا ہے، اس کا تعلق فلسفہ سے ہے، فلاسفہ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں سائنسدان نہیں، مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض سائنسی نظریات کے فلسفیانہ پہلو ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر نظریہ ارتقاء جیسا نظریہ براہ راست مذہبی فکر سے ٹکرا گیا کیونکہ اس سے اکثر مذاہب کا نظریہ تخلیق باطل ہوجاتا ہے، اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چارلس ڈارون اپنی سالوں کی تحقیق کے دوران خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی کی تصدیق کر رہا تھا، اس کی ساری توجہ صرف ایک سوال پر مرکوز تھی جس کا خدا کے وجود سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ سوال تھا: “جاندار انواع میں اس تنوع کی وجہ کیا ہے؟۔

اسی طرح کوانٹم مکینکس انتہائی اہم فلسفیانہ نتائج وعواقب کا حامل رہا، مثال کے طور پر کوانٹم مکینکس نےمطلق عدمکے تصور کو مسترد کردیا، اس طرح سائنس کے ان شعبوں کے بعض نتائج سے فلاسفہ اپنے بعض مخصوص قضیوں کے حوالے سے اپنے نظریات از سرِ نو تشکیل دیتے ہیں، مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سائنس ایمان کی دشمن ہے یا اسے اس کی کوئی پرواہ ہی ہے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض مؤمنین اس فرق کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کے بیشتر نے سائنس کو مسترد کردیا اور سائنس کے تئیں منفی موقف اختیار کیا جو ایک خطرناک صورتِ حال ہے۔

دوسری طرف جذبہ ایمانی سے سرشار کچھ مؤمنین نے اپنے ایمان اور خدا کے دفاع کے لیے ایک بالکل ہی اچھوتا طریقہ اختیار کیا، انہوں نے سوچا کہ بجائے سائنس کے تئیں منفی موقف اختیار کرنے کے سائنس سے لڑا جائے اور سائنس سے لڑنے کا طریقہ خود سائنس ہی ہے، اس طرح یہ مؤمنین سائنس کے پُرخار میدان میں اپنے مفروضوں کو ثابت کرنے کے لیے کود پڑے جو بنیادی طور پر سائنسی ہیں ہی نہیں اور اپنے غیر سائنسی تصورات کو ثابت کرنے کے لیے علمی بحثوں سے فائدہ اٹھایا، اب بھلا خدا کے ہونے یا نہ ہونے کا سائنس سے کیا تعلق ہے؟

اور اگر سائنسی طور پر کسی طرح سے یہ ثابت ہوجائے کہ کائنات کا کوئی خالق ہے تو کیا سائنس رک جائے گی؟ اور کیا خالق کے وجود کا اثبات مؤمنین کے لیے کسی بڑی حیثیت کا حامل ہے؟ میرے خیال سے اگر سائنسی طور پر کائنات کا کوئی خالق ثابت ہوجاتا ہے تو اس سے براہ راست اور بنیادی فائدہ ملحدوں کو ہوگا، رہی بات مؤمنین کی تو اگر سائنسی طور پر خدا ثابت ہوجاتا ہے (جو کہ اصل میں سائنس کا کام ہے ہی نہیں) تو مؤمنین کو بہرحال اس خالق اور اپنے خداؤوں میں جنہیں وہ پوجتے چلے آئے ہیں تعلق تلاش کرنا ہوگا جو کہ اتنا ہی مشکل ثابت ہوگا جتنا کہ آج خدا کا اثبات ہے۔

سائنس کے میدان میں مؤمنین کی مداخلت ایک اضافی مسئلہ پیدا کرتی ہے، گویا کہ سائنسدانوں کو اور مسائل کم تھے۔ زغلول النجار اور ہارون یحیی جیسے لوگوں نے عوام الناس میں جان بوجھ کر علمی مغالطوں کا خوب پرچار کیا، سائنس کے میدان میں اگر کچھ مؤمنین آئے بھی تو وہ بھی صرف اپنا منفی تنقیدی کردار ادا کرنے کے لیے ناکہ سائنس کو کچھ دینے کے لیے، یہ لوگ بس اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ سالوں کی محنت کے بعد اگر کوئی سائنسدان کوئی سائنسی مفروضہ پیش کرے تو وہ بیک جنبشِ قلم سے اسے رد کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوں۔

خاص طور سے اگر وہ نیا مفروضہ ان کے عقیدے کو متاثر کرتا ہو، ایسی تنقیدی تحریریں مؤمنین میں بہت مقبول ہوتی ہیں جن میں سائنس کی دھجیاں بکھیری گئی ہوں، اس سے انہیں ایک نفسیاتی تسکین پہنچتی ہے، حالانکہ ایسی تنقیدی تحاریر میں ایک بھی ایسا قابلِ قبول تصدیق شدہ سائنسی حوالہ موجود نہیں ہوتا، یوں یہ علمی سند سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔

آپ کسی بھی مؤمن سے کسی سائنسی نظریے پر بات کر لیں، آپ کو فوراً کسی اسلامی سائٹ کے کسی مضمون کا ربط پکڑا دیا جائے گا جس کا عنوان کچھ یوں شروع ہوگا: “فلاں نظریہ کے شبہات کا رداور اگر آپ ہمت کر کے پڑھ بھی لیں تو آپ کوئی ایک بھی موثوق سائنسی حوالہ تلاش نہیں کر پائیں گے، مؤمنین مذہب اور سائنس کی جنگ کو اس طرح پیش کرتے ہیں، تعجب کی بات یہ ہے کہ جنگ کے ایک فریق کو پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ کسی جنگ میں فریق ہے اور نا ہی اسے پرواہ ہے!!۔

مثال کے طور پر اگر آپ ملریورے کے تجربہ کا حوالہ دے کر اتفاق کے قانون کی درستگی کی بات کریں تو آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا جائے گا کہ آپ کو سائنس کی کچھ خبر ہی نہیں ہے لہذا آپ کسی سائنسی مسئلہ پر بات کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں جس کے بعد آپ کو خود سائنسدانوں کے اعترافات پکڑا دیے جائیں گے کہ ملریورے کا تجربہ ایک ناکام تجربہ تھا، اس کے بعد آپ حیرت کے مارے یہ بھی نہیں جان پائیں گے کہ ایسی باتوں کا کیا جواب دیا جائے، سائنس کی یہ حالت ہوجاتی ہے جب اسے عقیدے کی بنیادوں پر پرکھا جائے اور اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے جیسا کہ مذہبی عقائد کے ساتھ کیا جاتا ہے، آخر کسی سائنسی تجربہ کی ناکامی سے کیا مراد ہوتا ہے؟۔

سائنس کے میدان میں کوئی تجربہ تب ناکام قرار دیا جاتا ہے جب وہ مفروضہ جس کے لیے تجربہ کیا گیا تھا ثابت نہ ہوسکے۔ ملریورے کے مشہور تجربہ میں دونوں سائنسدانوں نے زمین کا وہ ماحول بنانے کی کوشش کی جو کہ ممکنہ طور پر چار ارب سال پہلے زمین کا ہونا چاہیے تھا یعنی جس زمانے میں پہلا زندہ خلیہ وجود میں آیا، تجربہ کا مقصد یہ جاننا تھا کہ پہلا زندہ خلیہ کیسے وجود میں آیا۔

انہوں نے فرض کیا کہ اس وقت زمین کا کرہ ہوائی میتھین، ایمونیا، ہائیڈروجن اور پانی کے بخارات پر مشتمل تھا، مفروضہ اس بات پر قائم تھا کہ اگر یہ گیسیں دستیاب ہوں ساتھ ہی موافق درجہ حرارت اور برقی بار جو قدرتی بجلی کی صورت میں موجود ہوتا ہے تو اس کے نتیجہ میں نامیاتی مادے وجود میں آئیں گے جو زندگی کے لیے ضروری ہیں، اور واقعی دونوں سائنسدان کوئی 26 سے زائد قسم کے ایمائنو ایسڈ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے جو کہ پروٹین کی ترکیب کا بنیادی ڈھانچہ ہوتے ہیں۔

جبکہ اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایمائینو ایسڈ لیبارٹری میں تیار نہیں کیا جاسکتا، ان کا یہ تجربہ زمین پر زندگی کے ظہور کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ایک بہت بڑی چھلانگ قرار دیا گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہوئی مزید دریافتوں سے پتہ چلا کہ زمین کا وہ ماحول جو دونوں سائنسدانوں نے فرض کیا تھا وہ کسی طور چار ارب سال پہلے کے زمین کے ماحول سے مشابہ نہیں تھا، سائنسدانوں کو پتہ چلا کہ اس وقت زمین کے کرہ ہوائی میں تجربہ میں فرض کی گئی گیسوں سے مختلف گیسیں موجود تھیں اور جب ان گیسوں کو بنیاد بنا کر تجربہ دہرایا گیا تو زندگی کی کوئی بھی شکل پیدا نہیں ہوسکی۔

لہذا انہوں نے یہ قرار دیا کہ تجربہ اس ماحول کی شبیہ سازی کرنے میں ناکام رہا جس میں اس وقت زندگی تشکیل پائی تھی، ظاہر ہے کہ سائنسدان چار ارب سال پہلے زمین کے ماحول کے قطعی تصورات وضع کرنے میں سو فیصد کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ وقت میں پیچھے جاکر اس ماحول کی جانچ کرنا نا ممکن ہے، لہذا اگرچہ ملریوری کا تجربہ چار ارب سال پہلے کے زمین کے ماحول کی سو فیصد شبیہ سازی کرنے میں ناکام رہا تاہم ان کا مفروضہ بالکل درست ہے کیونکہ ایمائینو ایسڈ واقعی تیار ہوگئے تھے، مناسب ماحول کی دستیابی پر ایمائینو ایسڈ کا خودکار طور پر تیار ہوجانا یہ ثابت کرتا ہے کہ اتفاق کا قانون درست ہے۔

ویسے بھی یہ بات باعثِ حیرت ہوگی کہ مؤمنین اور خاص کر مسلمان ایسی کسی تحقیق کا حصہ بنیں جس میں خدا کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو، کیونکہ ایسی کوئی تحقیق مسلمانوں کے خدائی امتحان کے عقیدے کے خلاف ہوگی، کیونکہ اللہ کا لوگوں سے مخفی ہونا ان کے لیے خدائی امتحان کی حیثیت رکھتا ہے، اور اگر مسلمانوں کو اللہ کی موجودگی کے سائنسی اور مادیدلائل مل جائیں تو اس سے ان کے امتحان کا عقیدہ ساقط ہوجائے گا اور وہ خدا کو ایک دوبدھا میں ڈال دیں گے۔

دوسری طرف یہ ان کے اس عقیدے کی بھی نفی کردے گا جو بنیادی طور پر ایمان بالغیب پر قائم ہے کیونکہ ایک مسلمان سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ پر غیبی ایمان رکھے اور اگر سائنس خدا کو مادی طور پر ثابت کردے تو اس طرح خدا عالمِ غیب سے عالمِ شہادت میں منتقل ہوجائے گا اور ایمان بالغیب کے عقیدے کی دھجیاں بکھر جائیں گی۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دعا کریں کہ سائنس خدا کو سائنسی طور پر کبھی ثابت نہ کر سکے تاکہ ان کا عقیدہ متزلزل نہ ہو مگر وہ در حقیقت اس کا الٹ کر رہے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ مؤمنین کی حالت کافی نازک ہے، کیونکہ خدا کی موجودگی کے سائنسی دلائل ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنیں گے اور سائنسی دلائل کی عدم دستیاب بھی ان کے لیے شرمندگی کا باعث ہے، مؤمنین ایک ایسی پُل صراط پر چل رہے ہیں جس کے دونوں طرف آگ ہے۔

بشکریہ: جرات و تحقیق

Comments are closed.