اینڈرسن شاہ
جس طرح سیاست کو مذہب سے الگ رکھنا ضروری ہے اسی طرح سائنس کو بھی مذہب سے الگ رکھنا از بس ضروری ہے، کیونکہ مذاہب پُختہ مُتون پر مشمل ہیں جبکہ علمی دریافتیں اور نظریات ہمیشہ حالتِ تغیر میں رہتے ہیں۔
مثال کے طور پر زمانہ قدیم میں لوگ سمجھتے تھے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے تاہم اب عصرِ تنویر کے دور سے ہی ہمیں معلوم ہے کہ دراصل زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، پھر بیسویں صدی میں ہمیں پتہ چلا کہ زمین اور سورج بھی کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتے ہیں اور ہماری کہکشاں بھی دیگر کہکشاؤں کے ساتھ مل کر کائنات کے ایک ممکنہ مرکز کے گرد گھومتی ہے۔
اور شاید ترقی کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ہمیں یہ بھی پتہ آن چلے کہ ہماری کائنات کائناتوں کے جھرمٹوں کی محض ایک اوسط کائنات ہے جو دیگر کائناتوں کے ساتھ مل کر کسی مرکزی کائناتی نظام کے گرد گھوم رہے ہیں، سائنسدان اسے ابھی سے ملٹی ورس کا نام دے رہے ہیں۔
اب اگر مذہب سے سائنس کشید کرنے والے حضرات جو مذہب اور سائنس کو باہم مربوط کرنے کا فلسفہ دیتے ہیں، اگر انہوں نے اپنی مذہبی تفسیرات میں ترمیم کر کے انہیں اس نظریہ سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جیسا کہ اکثر وبیشتر وہ کرتے بھی رہتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنی مصداقیت کھو دیں گے بلکہ اپنے مذہب کی بدنامی کا باعث بھی بنیں گے کیونکہ جس مذہب کی تاویلات وتفسیرات ہر نئے آنے والے سائنسی نظریات کے ساتھ بدلتی رہتی ہوں وہ ایک مذاق تو ہوسکتا ہے مذہب نہیں۔
اسلام میں مذہب کے تاجروں نے اسے اپنا کاروبار بنا لیا ہے اور سادہ لوح لوگ ان کے پیچھے کھنچے چلے آتے ہیں کیونکہ اس سے انہیں اپنی برتری کا احساس ہوتا ہے اور لگتا ہے جیسی ساری سائنس قرآن وحدیث میں چھپی ہوئی ہے۔ حقیقت پسندی کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو درحقیقت اسلام کو سائنس کا لبادہ اوڑھنے کے لیے نام نہاد مفکرین اسلام نے اب تک اسلام کی اتنی تاویلیں کر ڈالی ہیں کہ کوئی طوائف بھی عمر بھر اتنے یار نہ بدلتی ہو۔
حقیقت پسندی اسی میں ہے “پختہ” مذہبی متون کو “غیر پختہ “ یعنی سائنس سے موازنہ کرنے کی ہر گز کوشش نہ کی جائے کیونکہ اس سے نا تو سائنس کی کوئی خدمت ہوتی ہے اور نا ہی مذہب کی۔ سائنس کی طاقت تجربہ اور مشاہدہ ہے نہ کہ پہلے سے موجود تحریروں پر انحصار جبکہ مذہب کا سارا دار ومدار ہزاروں سال قدیم تحریروں پر ہے جن کا مقصد کبھی سائنسی نہیں رہا ہے۔
اس کے برعکس ان کا زور لوگوں کی زندگی منظم کرنے پر ہے اور کسی خاص حکمت کے پیشِ نظر لوگوں کو پرانے قصے سنانا ہے، مزید برآں سائنس کے تقریری مجرد حقائق کو جو فیصلہ کن ہیں (جیسے سو ڈگری پر پانی ابلتا ہے) کو مذہبی تاویلات دینا جائز نہیں کہ نظر آنے والا مادی جو منطقیات پر مشتمل ہے (سائنس) کا روحانی وغیر مادی (مذہب) جو کہ معجزات پر مشتمل ہے پر قیاس ہی غیر منطقی ہے۔
جو سائنسدان اپنی سائنسی تحقیق وتجربات اپنے مذہب کو پیشِ نظر رکھ کر کرتا ہے وہ ان سائنسی حقائق ونتائج پر کبھی نہیں پہنچ سکتا اگر لیبارٹری میں اس کے پیش نظر محض علمی اسلوب (سائنسی طریقہ کار) ہو، اور علمی اسلوب کو اپنانے کے لیے لازم ہے کہ سائنسدان کی سوچ کسی بھی پیشگی مذہبی طرفداری سے پاک ہو، اگر سائنسدان یہ چاہے گا کہ اس کی سائنسی تحقیق اس کے مذہبی نظریات وتصورات سے ہم آہنگ نکلے تاکہ اس کے مذہب کا نام مزید روشن ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی طرف مائل ہوں تو ایسا اصرار اس کی تحقیق کے نتائج کو محدود کردے گا بمقابلہ ایسے سائنسدان کے جو ایسے پیشگی تصورات نہیں رکھتا اور محض علمی اسلوب کو ہی اپناتا ہے۔
اس کے پیشِ نظر محض انسانیت کی خدمت ہوتی ہے مذہب کی نہیں، ایسے دونوں سائنسدانوں کے علمی نتائج ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے، مثال کے طور پر جو سائنسدان اپنی تحقیق محض یہ ثابت کرنے کے لیے کرتا ہے کہ کتے کے لعاب میں کوئی مخصوص نقصان دہ مادہ ہے کیونکہ اس کے مذہب میں کتا ایک نا پاک اور مردود جانور ہے اسے دیگر ممالک میں ہوئی ایسی تحقیق کبھی نظر نہیں آئے گی جس میں بتایا گیا ہے کہ کتے کے لعاب میں بیکٹریا کی ایک خاص قسم پائی جاتی ہے جس کا استعمال کچھ مخصوص بیماریوں کے علاج میں کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح جو سائنسدان اپنے تجربات میں الکحل اور جانوروں سے کشید کردہ انسولین کو استعمال کرنے سے محض اپنے مذہبی رجحانات کی وجہ سے انکار کردیتا ہے تو وہ در حقیقت اپنے دستیاب اختیارات کو خود ہی محدود کر رہا ہوتا ہے اور بہت سارے علمی حقائق سے چشم پوشی اختیار کر رہا ہوتا ہے تاکہ مذہب کے قدیم مُتون اور مفروضوں کو درست ثابت کر سکے جنہیں سائنس پیچھے چھوڑ کر نہ جانے کب کی آگے بڑھ چکی ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سائنس کے میدان میں ہو رہی لمحہ بہ لمحہ ترقی کے پیشِ نظر یہ ضروری ہے کہ سائنسدان اپنے اندر عقلی لچک پیدا کریں اور سائنس کو کسی بھی غیر علمی ضابطے سے آزاد کریں سوائے بذات خود سائنس کے، مسلم دنیا جہاں پہلے ہی سائنس اور سائنسدانوں کا قحط ہے انہیں چاہیے۔
انہیں چاہیے کہ بجائے “قرآن اور سائنس “اور “اسلام اور سائنس” جیسی گمراہ کن کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کرانے کے حقیقی سائنس پر توجہ دیں ورنہ مستقبلِ قریب میں مسلم دنیا کی علمی پسماندگی کے دور ہونے کے قریب قریب کوئی امکانات نہیں ہیں، اور ایسے میں اس کی توقع رکھنا ہی عبث ہے۔
بشکریہ: جراءت و تحقیق