عبدالستار تھہیم
پاکستان جیسے ایک پسماندہ اور مذہبی ملک میں لفظ سیکس بولتے یا سنتے ہوئے ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ لفظ سیکس کسی گالی سے کم نہیں ہے۔ ہم اپنے گھر میں سیکس کے موضوع پر بات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ بہن بھائی ، ماں باپ تو دور کی بات ہے حتیٰ کہ اپنی بیوی سے بھی سیکس پر بات کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو سیکس کے لیے اپنی جان کی بازی تک لگانے سے دریغ نہیں کرتے لیکن سیکس کے متعلق بات کرنا ممنوع سمجھتے ہیں۔
اگر عام طور پر کوئی لڑگا کسی لڑکی سے جنسی تعلقات پر مبنی محبت کا اظہار کرے تو لڑکی فوراََ جواب دیتی ہے کہ تمھارے گھر میں ماں بہن نہیں ہے۔ اب ایسی لڑکی کو کون سمجھائے کہ جنسی جذبے کا اظہار ایک صحت مند نہ عمل ہے بلکہ جنسی عمل زندگی کو خوب صورت بنانے کلیدی کردار رکھتا ہے۔ انسان کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے جنسی عمل کے ذریعے ۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جنسی جذبات کا اظہار جرم کے زمرے میں آتا ہے ۔ جس ملک میں اظہار محبت جرم سمجھا جائے ایسے ملک مذہبی جنونی اور دہشت گرد بن جاتے ہیں۔
میں بحثیت مرد دوسرے لوگوں کی تمام بیویوں کے ساتھ جنسی تعلقات کا خواہ ہوں اگر کوئی میری بیوی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے تو میری غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ اس سے بڑی منافقت اور کمینگی کیا ہوگی ۔ جنسی تعلقات کو قائم کرنے کے لیے سماجی روایات کو پروان چڑھایا گیا ہے ،وہ روایت یہ ہے کہ لڑ کیوں و الے ساری زندگی کی کمائی جمع کرتے ہیں اور جوان لڑکی کے والدین سے اپنے لڑکے کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے یعنی شادی بذریعہ نکاح کے معاملات طے ہوتے ہیں ۔
جس طرح آپ منڈی مویشیاں یا کسی گاؤں میں گائے اور بھینس خریدنے جاتے ہیں جس کو خالصتاََ کاروبار کا نام دیا جا تا ہے۔ اگر آپ کے پاس رقم نہیں ہے اور آپ کسی لڑکی یا عورت کی تلاش میں ہیں تو دنیا میں آپ جیسا احمق کوئی نہیں ہے کیونکہ بغیر دولت کے آپ کو جنسی خواہشات اور جسمانی تعلق کے لیے کوئی لڑکی یا عورت مل جائے ۔
ہماری عظیم سماجی روایات جسے آپ سادہ زبان میں کاروبار کا نام دے سکتے ہیں یعنی جسمانی تعلقات بذریعہ پیسہ۔ ایسے جنسی تعلقات پر سرکار اپنی مہر ثبت کرتی ہے۔ تب یہ مقدس جسمانی تعلقات بن جاتے ہیں۔ جبکہ جنسی تعلقات خالصتاً دو افراد کے درمیان باہمی رضا مندی کا معاملہ ہے۔ کسی تیسرے فریق کی ہر گزمداخلت کی ہر گز ضرورت نہیں وہ چاہیے لڑکے یا لڑکی کے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں۔
پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں جنسی معاملات یا جسمانی تعلقات کو نام نہاد تقدس کی چادر پہنائی جاتی ہے اور مذہب کے اس گورکھ دھندے میں جنسی تعلقات کا دھندہ چل رہاہے ۔ یہ دھندہ (کاروبار) اس وقت تک جاری و ساری رہے گا جب تک نام نہاد مذہبی اقدار اور مقدس سماجی روایات سے ہم چمٹے رہیں گے ۔
نطشے نے کہا تھا کہ خدا مر چکا ہے ۔ ایسے بھولے شخص سے کوئی پوچھے کہ خدا کا تصور تو انسانی ذہن کی پیداوار ہے ۔ مرتا تو وہ ہے جو اپنا وجود رکھتا ہے ۔ جب خداہی نہیں تو مذہبی اور خدائی اصول کیسے ؟ ۔سماجی روایات انسان نے خود بنائی ہیں۔ وہ چاہے درست ہوں یا غلط۔ اگر ایسی سماجی روایات جس سے انسانی زندگی اذیت بن کر رہ جائے تو ایسی سماجی روایات کو اوڑھ لینا کسی طرح بھی خباثت سے کم نہیں ہے۔
لہٰذا یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم ایسی مذہبی اور سماجی روایات سے جان چھڑا لیں جس سے جنسی اور جسمانی تعلقات مصیبت بن جائیں۔ انسان بنیادی طور پر جسمانی تعلقات کی پیداوار ہے۔ اگر ایسے تعلقات کا روبار کی شکل اختیار کر جائیں تو افسوس ہے ہماری زندگیوں پر ۔ اس بے ہودہ سماج میں لیزبین اور گیز پر بندشوں کاعذاب علاوہ ہے۔
♥
6 Comments