ڈاکٹر طاہر قاضی
جناب صدر اور معزز سامعین:۔
2016 میں آج ٹورانٹو میں سبط حسن صاحب کا صد سالہ جشنِ ولادت ہے۔ اس موقع پر تحدیثِ نعمت کے طور پر آج کی تقریب میں بات کرنے کا دعوت نامہ میرے لئے بہت بڑی عزت اور سعادت ہے۔ اس عزت افزائی کے لئے میں پروگریسو رائیٹرز ایسوسی ایشن اور اس کے روحِ رواں جناب منیر سامی صاحب کا تہہِ دل سے شکر گزار ہوں۔
میں سوچتا ہوں کہ سبط حسن صاحب نے اپنی زندگی میں حکومتی استبداد کے ہاتھوں بہت سی صعوبتیں برداشت کیں جن میں قید و بند اور تشدد سہنا بھی شامل ہے جبکہ اس خاکسار کے حصے میں کالج کے جلسے جلوسوں کی چھوٹی موٹی مار کٹائی اور مستقلاًایک خوف کی فضا میں سانس لینے کا عذاب مشکل ہی سہی لیکن اس کے علاوہ کوئی اور آفت نہیں آئی تو پھر آج سبط حسن صاحب کی نسبت سے بات کرنے کی سعادت میرے حصے میں کیسے آ گئی ہے؟ پھر خیال آتا ہے کہ :۔
میں لاکھ بزدل سہی مگر میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں
جس کے بیٹوں نے جو کہا اُس پہ جان دے دی۔ ( افتخار عارف) ۔
معزز سامعین:۔
آج کی گفتگو کے لئے مجھے اپنی کوتاہ قامتی کا مکمل احساس ہے ۔ کیونکہ میں سبط حسن کو پاکستان میں علمی اور فکری روشن خیالی کا پرومی تھیس دیوتا مانتا ہوں۔ جب سبط حسن پرومی تھیس دیوتا ہیں تو کیوں نہ “طاقت” اور “تشدد” کے نادان دیوتا انہیں کے در پے ہوتے، اور یہیں فکشن یا حکا یت، حقیقت میں بدل گئی کیونکہ یہی ہوا ۔ مجھے اس وقت کلاسیکی یونانی ڈرامہ
Prometheus Bound
کی چند لائنیں یاد آ رہی ہیں۔ جب پرومی تھیس کے انسان کو “آگ” سے روشناس کروانے کے الزام میں باندھ دیا جاتا ہے تو پرومی تھیس دیوتا پکارتا ہے۔ آپ بھی سنیے :۔
اے مقدس آسمان، اے تیز ہواوَ اور اے اُبلتے چشمو
اے سمندر کی ہنستی ہوئی ان گنت موجو
اے زمین، زندگی کی ماں
تم سب گواہ رہنا ، اور سورج بھی جس کی آنکھوں سے کچھ پوشیدہ نہیں
کہ دیوتاوَں نے ایک دیوتا سے کیا سلوک کیا
دیکھو ، دیوتاوَں کے نئے آقا نے میرے لئے
کیسا قید خانہ بنایا ہے۔
نسلِ انسانی کو تحفے دینے کی پاداش میں
مجھ کو یہ اذیت ناک سزائیں مل رہی ہیں
میں وہ ہوں جس نے ” آگ” کی جگہ ڈھونڈ نکالی
اور آگ انسان کے لئے تمام فنون و ہنر کی معلم ثابت ہوئی۔
تو معزز سامعین:۔
جیسے میں نے پہلے عرض کیا تھا پاکستان کے فکری پرومی تھیس سبط حسن کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میں ذاتی طور پر اس بات کو باعثِ افتخار سمجھتا ہوں میں نے ان سے کسبِ فیض کیا ہے۔ تہذیب ، معاشرہ ، سماج اور تاریخ کے ابجد میں نے انہی کی کتابوں سے سیکھے ہیں۔
مجھے یہ ساری باتیں کرنے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ سبط حسن کی تمام کتابیں تاریخی اور سماجی تناظر میں ہیں اور اسی طرح کے مضامین اور حوالوں سے بھری پڑی ہیں۔ ان کا بنیادی فکری نقطہَ یہ ہے کہ جہاں سماج کو سد ہارنے کے لئے مارکسی فکر و عمل کی ضرورت ہے وہیں انسان کو فکر و نظر میں بھی روشن خیال ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کی کتاب نویدِ فکر سے ایک چھوٹا سا اقتباس ملاحظہ ہو :۔
۔” ۔۔۔ پرانے زمانے میں انسان قوانینِ قدرت سے بہت کم واقف تھا لہذا مظاہرِ قدرت سے ڈرتا تھا ۔ ان کی پوجا کرتا تھا اور ان کے لطف و کرم کا طالب رہتا تھا“۔
قوانیںِ فطرت کو دریافت کرنے کی سعیَ پیہم پرانے زمانوں میں مافوق الفطرت قوتوں سے التجا تھی اور آج وہی کاوشیں سائنس کہلاتی ہیں جس کے بنیادی قوانین روشن خیالی کے مرہونِ منت ہیں۔
اپنے سکول کالج کے زمانے میں روشن خیالی اور مارکسی نقطہَ نظر ہر طالبِ علم کی نوکِ زباں تھا۔ اس کے فکری خد و خال کو سمجھنے کے لئے جس وسعتِ علمی اور مدبرانہ دلیل کے جس انداز کی ضرورت تھی اس کی سبھی بنیادی باتیں اُن کی کتابوں میں ہیں۔
انسان اپنی سماجی تعمیر میں بہت سے مراحل سے گزرتا ہے اور گزر رہا ہے ۔ مختصراً میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ سماجی انصاف کا جو حکیمانہ نظریہ مارکس نے پیش کیا وہ مادی اور اقتصادی ہے اور یہ بات تو ہم سب جانتے ہی ہیں۔
اسی سلسلے کی دوسری کڑی یہ ہے کہ ہمیشہ سے نظریات کے متوازی ایک سماجی تشکیل بھی ہوتی ہے جس میں سٹیٹ یا ریاست نہایت اہم ہوتی ہے۔ یہ بات کہ ریاست کب اور کیسے وجود میں آئی اور اس کے محرکات کیا تھے اور کیا ہیں ، ایک علیحدہ موضوع ہے جسے ہم کسی اور دن پہ اٹھا ر کھتے ہیں۔ مگر تاریخی تجربے کی روشنی میں موجودہ زمانہ جو جمہوری دور کہلاتا ہے، اس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سٹیٹ دراصل انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ ہیں اور یہ ترتیب درست بھی ہے۔ تاہم ، میں سماج کو ایک مختلف زاویے سے آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سماج کے اندر سوسائٹی ، گورنمنٹ اور سٹیٹ ہیں۔
سوسائٹی ، معاشی مفادات کے لئے انسانوں کا اکٹھے ہونا ہے اور گورنمنٹ ان مفادات کی محافظ اور منتظم ہوتی ہے۔ میں سٹیٹ جانب جلد ہی واپس آوَں گا مگر یہ بتاتا چلوں کہ اِس نوع سے درجہ بندی کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ مارکس کے افکار کی روشنی میں جب تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آج کے دور میں “سوشل جسٹس” یا سماجی انصاف کے راستے میں جو چیز دیوار بن کر کھڑی ہے وہ سٹیٹ ہے۔لیکن سٹیٹ آخر کیا ہے؟ اس سوال کو سب سے پہلے طے کرنے کی ضرورت ہے ۔
تاریخی شواہد کی بات تو لمبی ہے اور اس کی بہت سی تشریحات ہیں مگر مارکس کا یہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے کہ سٹیٹ اپنی ساخت اور طریقہَ کار سے پہچانی جا سکتی ہے۔ لہذا یہ سمجھنا آسان ہو گیا کہ “سٹیٹ” ایک منظم سماجی طاقت ہے ۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سٹیٹ کبھی کبھی ایک قوم کی دوسری قوم پر حاکمیت مسلط کرتی ہے۔ پرانے زمانوں میں یہ کام سیدھی لشکر کشی سےہوتا تھا۔ آج کے دور میں لشکر کشی روزانہ کا کام نہیں ہے۔ آج کے دور میں حاکمیت کو بڑی پُر کاری سے مسلط کیا جاتا ہے اور اس کے لئے نت نئے طریقے وضع ہو چکے ہیں۔ تا ہم جو کا م ریاست پرانے زمانوں سے تسلسل سے انجام دیتی چلی آئی ہے وہ پیداواری ذرائع کو منظم کرنے کا ہے اور اس کے لئے سٹیٹ اپنے فیصلے جبری قوت کے ساتھ نافذ کرتی ہے۔ بقول ہینا ارینڈ ” — تشدد کو طریقہَ کار کے طور پر استعمال کے لئے انسانوں کی کچھ تعداد کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے مگر اصلی بات تشدد کو روبہ عمل کرنا ہے” ۔ بے شک یہ بات انہوں نے تشدد کے موضوع پر لکھتے ہوئے کہی تھی مگر ریاست کے طریقہَ کار کو سمجھنے کے لئے بھی اتنی ہی ضروری ہے۔
دوسرا تاریخی مشاہدہ یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام میں سٹیٹ ہمیشہ طاقت ور طبقے کے مفادات کی حفاظت کے لئے مستعد رہتی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ مشہورِ زمانہ فلسفی ہیگل نے سٹیٹ کو اتنی رومانوی نظروں سے کیوں دیکھا جب وہ کہتا ہے:۔
State … “The realization of the ethical idea”
سٹیٹ اور اخلاقیات کی محافظ ؟ ۔۔۔ میرے خیال میں یہ ایک رومانوی خوش خیالی ہے جسے
Young Hegelians
نے اُسی زمانے میں بڑی اچھی طرح محسوس کر لیا تھا۔ انہوں نے اس کی تشریح یوں کی کہ سٹیٹ اپنی عملی کمزوریوں کے باوجود ضروری ہے ۔ اس کی کمزوریاں بجا لیکن یہ عملی کمزوری نظریہ اور اس کی پریکٹس میں تفاوت کی وجہ سے ہے۔ نظریہ اور پریکٹس میں تفاوت دراصل ایک مستقل خصوصیت ہے جو ہر جگہ موجود ہوتی ہے ۔ مگر یہ اس طرح کی کمزوری ہے جو سماجی ارتقاء کا حصہ ہے۔ اس کمزوری کو جمہوریت اور جمہوری طریقہَ کار سے پاٹا جا سکتا ہے۔
سامعین ۔۔۔ حقیقت یوں ہے کہ یہ تشریح بھی خام خیالی پر مبنی ہے۔ مارکس کہتا ہے ، دراصل سماج کو بدلنے کے لئے ریاست کے نظام کو بھی از سرِ نو تشکیل دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام انقلاب کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی معاشرے میں انقلاب کے علم بردار عام انسان ، مزدور ، کسان اور استحصال زدہ طبقہ ہوں گے جن کا اکٹھے ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ سب مشترکہ طور پر تاریخ کا مخفی ہاتھ ہیں۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ انقلاب سے مراد عوامی جمہوریت کو تاراج کرنا نہیں بلکہ انقلاب اُس سٹیٹ کے خلاف ہے جس نے عوامی جمہوریت کو تہہ و بالا کر رکھا ہے ۔ مجھے یاد آیا کہ بہت سی ریاستوں کے غیر جمہوری طریقہَ عمل کو فرید زکریا نے کچھ سال پہلے ” اِل–لبرل ڈموکریسی ” کا نام دیا تھا۔
“ال–لبرل ڈیموکریسی” تو کیا ، وہ ممالک جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ لبرل جمہوریت کا راج ہے وہاں بھی سماجی انصاف کلاس یا طبقاتی بنیادوں پر بٹتا ہے۔ طبقاتی بُعد دو طرح کا ہوتا ہے:۔
Relational and Distributive
جب ریاست مختلف طریقوں سے طبقاتی حقوق(بلکہ حقوق کی بجائے ” تعصبات” کہنا چاہئےٗ) کی محافظ ٹھہری تو اس سے طبقاتی تفاوت اگر زیادہ نہیں ہوتی تو کم ہونے کا نام بھی نہیں لیتی۔ اور یہ بات تو بالکل طے ہے کہ طبقاتی تقسیم سماج میں نظامِ اقتدار کا منطقی نتیجہ ہے۔ اس کے لئے ریاست اپنے تمام وسائل تصرف میں لاتی ہے۔ جس میں قانون، انتظامیہ اور پراپیگنڈہ وغیرہ سب ھی کچھ شامل ہے۔ سرمایہ داری نظام کے حوالے سے سبط حسن کی کتاب موسیٰ سے مارکس تک میں سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے:۔
“بعض علمائے دین دولت اور افلاس کی ذمہ داری خدا پر سونپ دیتے ہیں۔ ان کے بقول خدا جس کو چاہتا ہے دولت مند بنا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے مفلس و محتاج۔ لٰہذا امیر غریب کی تفریق مشیتِ ایزدی ہے اور کوئی شخص نوشتہِ تقدیر کو بدل نہیں سکتا۔ یہ حضرات قابلِ معافی ہیں کیونکہ ان علما کو اقتصادیات کی ابجد کا بھی علم نہیں مگر ان علما اقتصادیات کو کیا کہیےَ جو دولت اور افلاس کی تشریح انسانی فطرت کے حوالے سے کرتے ہیں۔ اُن کے بقول دنیا میں ابتدا ہی سے دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
ایک وہ جو محنتی ، ہوشیار اور کفایت شعار ہوتے ہیں اور کوڑی کوڑی جوڑ کر سرمایہ دار بن جاتے ہیں ۔ دوسرے وہ لوگ جو طبعاً کاہل ، نکمے اور کام چور ہوتے ہیں لٰہذا ہمیشہ دوسروں کے دست نگر رہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہر معاشرے میں ہم کو دونوں قسم کے افراد ملتے ہیں لیکن سرمائے کے ارتکاز کی تاریخ جو نقشہ پیش کرتی ہے اُس میں دولت کے سفینے محنت کشوں کے خون میں رواں نظر آتے ہیں اور سرمائے کے پور پور سے مظلوموں کا لہو ٹپکتا دکھائی دیتا ہے” ۔
مجھے ہمیشہ اس بات کا افسوس رہتا ہے کہ ابھی بھی ہمارے بہت سے دوست طبقاتی تقسیم کو فطری سمجھتے ہیں ۔ آخر یہ بات سمجھنا مشکل کیوں ہے کہ یہ غربت ہے جو امارت کو جنم دیتی ہے اور یہ امارت ہے جس کی رگوں میں غربت کا خون دوڑتا ہے۔ نوعِ انساں میں برابری اور آزادی کے خواب کی تعبیر میں اگر کوئی مشکل حائل ہے تو وہ خود انسان ہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ روشن خیال قوتیں کسی نہ کسی دن ضرور کامیاب ہوں گی اور نوعِ انسانی کا روشن مستقبل جو اس وقت دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ، انسان کی فتح کی تنویر ہو گا۔ میں اپنی بات فیض کی دعا کے ساتھ ختم کرتا ہوں:۔
آ ئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں ۔
آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِ امروز میں شیرینیَ فردا بھر دے
وہ جنہیں تابِ گراں باریِ ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے۔
♦♦
اس مضمون کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں سے مدد لی گئی ہے:۔
-
موسٰی سے مارکس تک – سبط حسن
-
نویدِ فکر – سبط حسن
-
پاکستان میں تہذیب کا ارتکا – سبط حسن
-
مہرِ دو نیم – افتخار عارف
-
On Violence – Henna Arendt
-
Social Inequality – Andre Beteille
-
Towards Understanding Karl Marx – Sidney Hook
-
Oxford English Urdu Dictionary
-
Formation of the Secular – Talal Asad
-
کتاب مقدس
-
نسخہ ہائے وفا – فیض
Dr. Tahir Qazi is a Neurophysiologist and Neuromuscular Diseases specialist.
One Comment