پچیس دسمبر کو حسب معمول بانئ پاکستان کا یوم پیدائش رسمی طور پر منایا گیا اور اس موقع پر ہمارے حکمران اخباری بیانات جاری کرتےہیں جن کے مطابق وہ ان کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا اعادہ بھی کرتےہیں ۔ چونکہ روشن خیالی کا زمانہ ہے اس لیے سیکولر ازم اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے بیانات بھی جاری ہوتے ہیں ۔
دوسر ی جانب روشن خیالی کے دشمن جو پاکستان میں شریعت نافذ کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ اسلام ہی وہ مذہب جہاں اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ جبکہ عملی طور پر صورتحال ان بیانات و دعووں کے برعکس ہے۔
سرحد پار، بھارت کے درالحکومت نئی دہلی میں پاکستان میں ہندووں کے ساتھ سلوک پر لے دے ہو رہی ہے۔ نئی دہلی میں کشمیری جہدکار سشیل پنڈت نے ہفتہ کے روزپاکستان میں قرض کی عدم ادائیگی پر ایک لڑکی کے اغوا ء کی اطلاعات پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاکہ مسلم اکثریتی ملک میں جہاں ہند و اقلیت میں ہیں ہندو لڑکیوں کا اغوا کے واقعات ایک معمول بن گئے ہیں۔
روزنامہ سیاست حیدر آباد انڈیا کے مطابق سشیل پنڈت نے اے این ائی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ پاکستان میں ہندو اقلیت میں ہونے کی قیمت ادا کررہے ہیں۔انہیں جس جبر کا سامنا ہے وہ ایک نسل کشی ہے۔کسی قیمت پر بھی وہ کسی ایک کی بھی تلاش سے قاصر ہیں اور ہندوستان میں رہنے والے ہمارے لوگوں کے لئے یہ انتباہ ہے‘‘۔
پنڈت نے کہاکہ یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ مرکز ی حکومت، ہندوستان سے کچھ فاصلہ پر واقع ہمسایہ ملک میں رہنے والے ہندؤں کی حفاظت نہیں کرسکتی۔سال2005میں ایک14سالہ لڑکی جیواتی کو یہ کہہ کر اغواء کرلیاگیا تھا کہ اس کے گھر والوں نے 1000امریکی ڈالر کا قرض لیاتھا۔
لڑکی کی ماں امیری کاشی کوہلی کو یقین ہے کہ اس کی بیٹی نے کبھی ختم نہ ہونے والے اس قرض کی ادائیگی کردی ہے۔رپورٹس کے مطابق‘ جنوبی پاکستان میں ہندو عورتیں آسانی کے ساتھ قرض کی ادائیگی اور مسئلے کے حل کے لئے پیش کی جاتی ہیں۔
عالمی سلیوری انڈیکس 2016کے مطابق دو ملین پاکستانی ’’ عصری قیدخانوں‘‘ میں زندگی گذار رہے ہیں۔ساوتھ ایشیاء پارٹنر شپ آگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ایک اندازے کے مطابق ہر سال 1000جوان عیسائی اور ہندو لڑکیاں جن میں اکثر کم عمر اور غریب ہیں اپنے گھروں سے اغوا کرلی جاتی ہیں‘ جنھیں زبردستی اسلام قبول کروا کر ان سے شادیاں کی جاتی ہیں اور اعلیٰ عدالتیں بھی انہیں انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
برسر اقتدار پارٹی مسلم لیگ نواز کے ہندو رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے قومی اسمبلی میں بتایا کہ اس وقت سالانہ پانچ ہزار ہندو پاکستانیوں کے ظلم کی وجہ سے ہندوستان ہجرت کرنےپر مجبور ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آئینی طور پر ہمیں اپنے ملک میں آزادی سے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہےمگر حالات ایسے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور انہیں زبردستی اسلام قبول کروایا جاتا ہے اور عدالتیں بھی انصاف فراہم نہیں کرتیں۔ کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں؟
پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی لال ملہی نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے اڑسٹھ سالوں سے تعلیمی اداروں میں جو نصاب پڑھایا جارہا ہے اس میں ہندووں کو ایک انتہائی چالاک اور مکار قوم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہماری رسوم و رواج کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے۔ ہمارے دیوی دیوتاوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔اگر ہم گائے کی پوجا کرتے ہیں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ہمارا مذاق اڑائے۔اور اگر کوئی ہندو اسلام کی کسی رسم پر بات کرلے تو ان کے گھر جلا دئے جاتے ہیں۔
کیا اڑسٹھ سال بعد ریاست اپنی ترجیحات تبدیل کرنا چاہتی ہے؟ حالات و واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ابھی ایسا کچھ تبدیل نہیں ہونے والا۔
♦
One Comment