آصف جاوید
طلع البدرعلينا یہ وہ مشہورطربیہ استقبالی عربی نغمہ ہے جو مدینتہ المنوّرہ کی ان معصوم بچّیوں نے رسولِ مقبول حضرت محمّد کے استقبال کے موقعہ پر اُس وقت گایا تھا جب رسول مقبول حضرت محمّد صلعم کفّار کے ظلم و ستم اور دشمنی سے تنگ آکر مکّہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تھے۔ اور اہلِ مدینہ نے خوشی اور مسرّت کے جذبات سے سرشار ہوکر مدینہ میں ان کا استقبال کیا تھا ۔ مدینہ شریف کے معصوم بچّوں نے والہانہ انداز میں لہک لہک کر گایا تھا “طلع البدرعلينا“۔ اس کے بعد اسلامی تاریخ میں یہ نغمہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک تقدّس کا درجہ حاصل کرگیا۔
کینیڈین ایک زندہ دل قوم ہیں، کینیڈا پوری دنیا میں کثیر الثقافت اور کثیر القومی موزائک کا ایک مثالی نمونہ ہے۔ کینیڈا کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے، ملک کی اکثریت آبادی کا مذہب عیسائیت ہے، جس کو کسی قسم کی سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہے، کیونکہ کینیڈا میں مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے، کاروبار حکومت و مملکت سے مذہب کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، کینیڈا ایک سیکولر اور لبرل ملک ہے، عوام با شعور اور مہذّب ہیں۔
کینیڈین معاشرہ اعلی‘ ترین معاشرتی اقدار کا علمبردار ہے، اس تناظر میں ،ہم کہہ سکتے ہیں کہ “انسانیت” ہی کینیڈا کا غیر سرکاری مذہب ہے۔ انگلش اور فرنچ عام بول چال کی زبان ہے۔ فرنچ کے مقابلے میں انگلش کا چلن بہت زیادہ ہے، صوبہ کیوبک کے علاوہ تقریباً تمام کینیڈا میں ، کینیڈین رابطے کے لئے انگلش ہی بولتے ہیں۔
کینیڈا میں بمشکل ایک ، دو فیصد افراد سے زیادہ لوگ عربی نہیں جانتے۔مگر گذشتہ سال ، 10 دسمبر، 2015ء جمعرات کے دن کینیڈا کے مین اسٹریم میڈیا پر یہ عربی نغمہ ” طلع البدرعلينا” بار بار بج رہا تھا اور تقریباً ہر بڑے اور چھوٹے ٹی وی چینل اور ملک کے تمام ریڈیو اسٹینشز سے نیوز بلیٹن کے دوران یہ نغمہ بار بار انتہائی خوشی اور مسرّت کے جذبات سے سنایا جارہا تھا ۔
اُس شام ٹورونٹو کے پیئرسن انٹرنیشنل ائرپورٹ پر بڑی گہما گہمی تھی، خصوصی طور پر مختص کئے گئے استقبالیہ لاونج پر جشن کا سا سماں تھا، جمعرات کی رات کینیڈین ائر فورس کا ایک طیّارہ ان 25 ہزار شامی مہاجرین کے پہلے قافلے کو لے کر ٹورونٹو میں اترا تھا ، جن کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کینیڈا میں آباد کرنے کے لئے حکومت کینیڈا نے بڑی فرخ دلی اور جذبہ کے ساتھ عملی مظاہرہ کیا تھا، شامی مہاجرین کے اس پہلے قافلے میں کل 163 افراد شامل تھے، جو بیروت کے ایک مہاجر کیمپ سے کینیڈا پہنچے تھے۔
وزیرِ اعظم جناب جسٹن ٹروڈو، صوبہ اونٹاریو کی پریمئیر یعنی وزیر اعلی‘ محترمہ کیتھلین ون صاحبہ، قومی و صوبائ وزراء ، کینیڈا کی مختلف سماجی اور ویلفیئر تنظیموں کے سربراہان، نے ائر پورٹ پر استقبالی کیمپ میں جمع ہو کر شامی مہاجرین کے پہلے قافلے کا شاندار استقبال کیا تھا۔پچھلے کرسمس سے پہلے دس ہزار شامی مہاجرین کو کینیڈا لا کر آباد کیا گیا، اوررواں سال سنہ 2016 ء میں مزید 25 ہزار شامی مہاجرین کو کینیڈا میں آباد کیا گیا،
یوں ان شامی مہاجرین کی تعداد 35 ہزار ہوگئی، جن میں وہ دس ہزار شامی مہاجرین بھی شامل ہیں جو پرائیویٹ سپانسر شپ پر کینیڈا آئے ۔ ان مہاجرین کو ائرپورٹ پر ہی سوشل انشورنس کارڈ، اور پرمانینٹ ریزیڈینس کارڈ جاری کردئے گئے تھے ۔ ان مہاجرین کو پہلے دن سے ہی تمام تر طبّی سہولتیں ، مناسب رہائش، زندگی گزارنے کے لئے مناسب گزارہ الائونس اور تمام تر وہ سہولتیں جو کہ کینیڈین شہریوں کو حاصل ہیں بلا امتیاز دی گئیں۔
ان مہاجرین کی آباد کاری ، تربیت کے لئے اور کینیڈین معاشرے میں کامیابی سے ضم کرنے کیلئے مختلف سماجی اور معاشرتی تنظیموں نے اپنے پروگرامز پہلے سے ہی تیّار کرلئےتھے ، بچٗوں کو اسکولوں میں داخلے، نوجوانوں ، عورتوں اور مردوں کو تعلیم و تربیت اور ہنر سکھانے کے لئے مختلف کالجز کی طرف سے پروگرامز ترتیب دے دئے گئے تھے، انگریزی زبان سکھانے کے لئے ٹیچرز اور انجمنیں رضاکارانہ طور پر دستیاب تھیں ۔ کینیڈا کی عوام اور حکومت نے اپنے ان پناہ گزین بھائیوں میں کوئی خیرات تقسیم نہیں کی تھی ، بلکہ اپنی روٹی، اپنے وسائل، اپنی زمین، اپنا پیار سب کچھ ان کی نذر کردیا تھا۔ اور بڑی عزّت اور احترام سے یہ سب کچھ دیا تھا ۔ کسی مذہب کے نام پر نہیں، کسی عقیدے کے نام پر نہیں۔ بلکہ صرف اور صرف انسانیت کے نام پر۔ اور ایسا صرف کینیڈا میں ہوتا ہے ۔
مسلمان علماء کہتے ہیں کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، مگر ہم نے شامی مہاجرین کے بارے میں دنیا کے کسی مسلمان ملک کی جانب سے کسی ایسے بھائی چارے کا مظاہرہ نہیں دیکھا، ہم نے تو یہ دیکھا کہ ہر پڑوسی مسلمان ملک کے دروازے ان شامی مہاجرین پر بند تھے۔ سعودی عرب جو مسلم امّہ کا بہت ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔ اُس نے تو شامی مہاجرین پر اپنی سرحدیں خصوصی طور پر بند کر دی تھیں۔
اِنسانی اخوّت کی مثال صرف کینیڈا میں ہی نظر آتی ہے، وہ بھی مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر، اگر آپ کینیڈین عوام اور حکومت کے اس طرزِ عمل کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور دنیا کا عالمگیر مذہب صرف انسانیت ہی ہے۔ مذہبی غلبے تنگ نظری اور انتہا پسندی پر منتج ہوتے ہیں۔ انسانی رویّوں میں توازن قائم رکھنے کے لئے ، انسانی معاشرے مذہبی ہدایات پر نہیں ،بلکہ اعلی ترین معاشرتی اقدار اور انسانی نفسیات کی بنیاد پر بنائے گئے ،معاشرتی قوانین پر چلائے جاتے ہیں۔
مذہب کا تعلّق عقیدے سے ہوتا ہے، اور عقائد انسانوں سے جڑے ہیں، جب کہ کسی بھی ملک، زمین اور معاشرے کے لئے انسانی رویّوں میں توازن قائم رکھنے کے لئے ایسے معاشرتی قوانین کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ انسانوں میں امتیاز اور فرق رکھنے کی صلاحیت سے معذور ہوں۔
انسانی رویّوں کو تنگ نظری اور شدّت پسندی سے بچانے کے لئے مذہب کو ریاست اور ریاست کو سیاست سے علیحدہ رکھنا ہوتا ہے، کینیڈین اس فلسفے کو بہت پہلے ہی اپنا چکے ہیں ، سیکیولر اور لبرل کینیڈین معاشرے میں اعلی‘ ترین معاشرتی اقدار کا چلن ہے۔ کینیڈین معاشرہ روادار معاشرہ ہے، ہر سال پوری دنیا سے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ تارکین وطن کینیڈا میں ایک خوشحال زندگی کا خواب آنکھوں میں لے کر کینیڈا آتے ہیں اور سب کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے۔
اور یہ اعجاز ہے، کینیڈا کے انسان دوست معاشرے کا ،اسی لئے تو میں بار بار کہتا ہوں کہ انسانیت ہی پوری دنیا کا عالمگیر مذہب ہے اور میرا کینیڈا مہان ہے۔
♥
One Comment