محمد مصطفی علی سروری
نو؍دسمبر 2016ء کو الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس سنیت کمار کے حوالے سے ملک بھر کے میڈیا نے خبر دی کہ ہائی کورٹ نے تین طلاق کو غیر دستوری قرار دے دیا۔ اُردو اخبارات ہی نہیں ملک کے بڑے بڑے انگریزی اخبارات نے بڑے ہی معنی خیز انداز میں جسٹس سجیت کمار کے حوالے سے ایسی ہی خبریں شائع کی۔ اخبارات ہی نہیں ، ٹیلی ویژن چینل بھی اس خبر کو نشر کرنے میں پیش پیش تھے۔
بڑے بڑے صحافی، سیاست داں اور دانشور حضرات بھی یکے بعد دیگرے بیانات دینے لگے۔ خواتین کے لئے خاص طورپر نکلنے والے ایک آن لائین میگزین دی لیڈی فنگر میں مایا پلیٹ نے لکھا ہے کہ بہت سارے لوگوں نے عدالت کے فیصلے اور عدالت کے مشاہدے (Court میں فرق کو بغیر سمجھے کہ واقعات کو سنی خیز انداز میں پیش کردیا ۔ خود کے شمارے میں اے آدتیہ نے وضاحت کی کہ طلاق ثلاثہ پر الہ آباد ہائی کورٹ نے کوئی فیصلہ نہیں دیا اور تین طلاق کے مسئلے پر سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنا ہے۔
یہ ملک کے اُن بڑے بڑے میڈیا اداروں کا حال ہے جو اپنی حسب مرضی جس کسی کو چاہے حب الوطن اور وطن دشمن کا صداقت نامہ بانٹنے رہتے ہیں۔ خیر سے آج اس کالم میں میرا موضوع میڈیاء کی غیر ذمہ داری یا مسلم دشمنی نہیں ہے میں دراصل قارئین کو اس سارے مسئلے کے اصل سبب کی جانب توجہہ دلانا چاہتا ہوں کہ آخر الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سنیت کمار کو ایسا کیا ہوگیا تھا کہ انہوں نے اپنے مشاہدے میں تین طلاق کو موضوع بحث بنادیا۔
سبھی مسلمانوں کی طرح میرے لئے بھی یہ آسان کام ہے کہ میں یہ کہہ دوں کہ کہ ہندو بنیاد پرست اب زندگی کے ہر شعبہ میں داخل ہوگئے ہیں اور شائد یہ مشاہدہ بھی ایسی ہی کسی شخصیت کے ذہن کا عکاس ہے یا میں یہ کہہ دوں کہ چوں کہ اب نریندر مودی کی حکومت مرکز میں ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو جینا حرام کرنے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں۔ چھوڑی جارہی ہے کیا میرے ایسا کہنے اور سوچنے سے مسئلہ ختم ہوجائے گا؟
جسٹس سنیت کمار کون ہیں یہ بھی جان لیجئے ۔ انھوں نے 1989ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے لاء کا کورس مکمل کیا۔ 1992ء میں ایڈوکیٹ کے طورپر کام کرنا شروع کیا۔ سال 2013 میں انھیں الہ آباد کورٹ میں جج مقرر کیا گیا۔ انھیں اچانک بخار نہیں چڑھا کہ انھوں نے طلاق ثلاثہ پر رائے دے دی۔ دراصل (53) سال کے ایک مسلمان صاحب نے جن کا تعلق اترپردیش کے بلند شہر ڈسٹرکٹ سے ہے نے اپنی عمر سے (30) سال چھوٹی لڑکی 23 سالہ حناء سے شادی کرلی۔ حناء کی اس شادی کے خلاف حناء کی ماں نے پولیس میں شکایت درج کروائی۔ پولیس کی کاروائی سے پریشان ان صاحب نے الہ آباد ہائیکورٹ میں ایک رٹ پٹیشن داخل کی۔
جس کے مطابق انھوں نے (23) سالہ حناء کے ساتھ با ضابطہ شادی کی ہے لیکن حناء کی ماں اور پولیس ان کو مسلسل ہراساں کررہی ہے۔ انھوں نے ہائیکورٹ سے درخواست کی کہ وہ حناء کی ماں اور پولیس کو ان کی ذاتی زندگی میں دخل دینے سے باز رہنے کا حکم جاری کرے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ (بحوالہ ہندوستان ٹائمز 9؍دسمبر 2016) جسٹس سنیت کمار کی بنچ پر اس کیس کی سنوائی کے دوران جب جسٹس سنیت کمار کو معلوم ہوا کہ (53)برس کے ایک مسلمان نے ایک (23) سالہ لڑکی سے شادی کرنے کے لئے اپنی پہلی بیوی اور دو کم سن بچوں کو طلاق دے کر علحدگی اختیار کرلی ہے۔
ایک (53)سالہ مسلم شخص کی جانب سے اپنی عمر سے 30سال چھوٹی لڑکی سے شادی کیلئے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے کر دو کم سن بچوں کے ساتھ چھوڑ دینے کے واقعہ کو جب جسٹس سنیت کمار نے عدالت میں سنا تو تبھی اُنھوں نے اپنے مشاہدے میں یہ سوال اُٹھایا کہ ’’ہندوستان میں جو مسلم قانون پر عمل کیا جاتا ہے وہ نبی کریم صلعم کی تعلیمات اور قرآن کے بھی منافی ہے۔‘‘ (بحوالہ روزنامہ دی پایونیر 9؍دسمبر 2016ء)
صرف جسٹس سنیت کمار کو ہی نہیں جس کسی کو بھی اس بات کا علم ہوگا کہ ایک (53) سالہ شخص نے ایک (23) لڑکی سے شادی کیلئے اپنی بیوی اور اس کے دوچھوٹے بچوں کو چھوڑ دیا ہے۔ غصہ تو ضرور آئے گا۔ اب جسٹس سنیت کمار کی غلطی ہے کہ انھوں نے مسلم پرسنل لاء پر سوال اُٹھادیئے یا اس (53)سالہ بلند شہر کے مسلم شخص کا بھی کچھ قصور ہے؟ جب کوئی بھی شخص عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے گا تو عدالت تو فیصلہ بھی دے گی اور تبصرہ و مشاہدہ بھی بیان کرے گی۔
جس قدر بلند آواز میں ہم حکومت سے مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں کیا اسی قدر سنجیدگی کے ساتھ ہمیں بحیثیت مسلمان خود اپنا بھی محاسبہ کرنے کی ضرورت نہیں؟
عدالت سے کوئی آر ایس ایس کا کارکن رجوع نہیں ہوا ہمارے ہی ایک مسلمان دینی بھائی نے عدالت کو موقع فراہم کیا کہ وہ تبصرہ کریں کیا یہ ایک صرف بلند شہر یو پی کے (53) سالہ مسلمان کی کہانی ہے جو مسلم پرسنل لاء میں عدالت کی مدافعت کی راہ ہموار کررہا ہے نہیں یہ سچ نہیں اگر یقین نہ آئے تو کسی بھی انگریزی اخبار کا شمارہ اُٹھاکر دیکھ لیجئے۔ ایسی بے شمار خبریں بھری پڑی ہیں۔ جہاں پر ہم مسلمان حضرات مسلم پرسنل لاء پر انگشت نمائی کیلئے اوروں کو موقع فراہم کیا ہے۔
تین ؍ نومبر 2016 جئے پور سے اخبار ٹائمز آف انڈیا کے رپوٹر شعیب خاں نے جودھپور کے مسلمان نے سڑک پر کھڑے کھڑے طلاق دے دی کی سرخی کے تحت خبر دی کہ جودھپور کی فرح خان نے مہیلا تھانے میں ایک درخواست داخل کی کہ اس کی شادی کو بحال کیا جائے۔ اپنی شادی کو بحال کرنے کیلئے فرح خاں اپنے سابقہ شوہر عرفان خان کے گھر کے باہر مسلسل دھرنا دے رہی ہے۔ اخباری رپوٹ کے مطابق عرفان خاں نے اپنی بیوی کو اپنے گھر کے باہر تماشائیوں کی موجودگی میں طلاق دے دی اور اس ساری کاروائی کو موبائیل کے ذریعہ بطور ثبوت ریکارڈ کروایا ۔
اسی اخبار کی 23؍ اکتوبر کی اشاعت میں پونا سے رادھے شیام جادھو کی ایک رپوٹ 18 کی سرخی کے تحت شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق (16)سالہ عائشہ کی شادی ترکاری کا کاروبار کرنے والے ایک والے ایک مالدار شخص محمد کاظم باگوان سے ہوئی تھی شادی کے دو برسوں بعد ہی کاظم نے عائشہ کو تحریری طلاق دے دی مگر عائشہ اس طلاق کو ماننے تیار نہیں ہے۔ عائشہ نے وزیراعظم مودی کو ایک خط لکھ کر مدد مانگی ہے کہ وہ اس جیسی عورتوں کی مدد کیلئے آگے آئیں جن کی زندگی طلاق کے سبب تباہ ہوگئی ہیں۔ عائشہ نے ٹائمز آف انڈیا کو بتلایا کہ اس کے شوہرنے اس کو جو طلاق دی ہے۔ وہ اسے نہیں مانتی ہے اور کورٹ میں چیلنج کرنے جارہی ہے ساتھ ہی عائشہ نے وزیراعظم سے اپیل کی ہے وہ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔
تئیس؍تاریخ کے میں ہی مظفر نگر اترپردیش سے ہمانشو دھون کی ایک رپوٹ شائع ہوئی ہے ۔اس رپوٹ کے مطابق مظفر نگر کے ایک گاؤں کی خاتون اسماء کو اس کے شوہر شاہنواز حسین نے ریاض سعودی عرب سے فون پر طلاق دے دی۔ اب نہ تو اسماء اس طلاق کو ماننے تیار ہے اور نہ اس کے گاؤں والے گاؤں کے پردھان کے ساتھ مل کر سبھی لوگوں نے تین طلاق کے خلاف مہم شروع کردی۔ ٹائمز آف انڈیا نے دسمبر کی 9؍تاریخ کو ارونا سہناء کی ایک رپوٹ شائع کی جس کے مطابق انڈین آرمی کے ٹریبونل نے آرمی کے ٹیلر لانس نائیک محمد فاروق کی جانب سے اپنی پہلی بیوی کو دی گئی۔ طلاق کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اس مطلقہ خاتون کو فیملی بینیفٹ جاری کرنے کا حکم دیا۔
تیس ؍نومبر 2016ء کو ہی ہندی روزنامہ دینک بھاسکر میں مدھیہ پردیش کی ایک مسلم خاتون کی خبر شائع ہوئی جس کو اس کے شوہر نے طلاق دے کر دوسری شادی کرلی۔ شبانہ نامی خاتون نے چیف جسٹس آف انڈیا کو اپنے خون سے ایک درخواست لکھ کر روانہ کی اور کہا کہ وہ تین طلاق پر پابندی لگادیں کیونکہ اسی تین طلاق کے سبب اس کی اور اس کی چارسالہ لڑکی کی زندگی تباہ ہوگئی یہ تو دو ایک اخبارات میں شائع ہونے خبروں کا ذکر ہے۔ ایسے بے شمار معاملات ہیں جہاں مسلم خواتین پولیس اسٹیشن اور وہاں سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں۔ جب تک مسلم عورتیں طلاق کے مسئلے پر، نا انصافی کے حوالے سے عدالتوں سے رجوع ہوتی رہینگی تب تک ایسے یا اس سے بھی اور بدتر فیصلے، تبصرے اور مشاہدے سامنے آتے رہیں گے۔
اس سارے مسائل کا حل کیا ہے؟ ایک تو وہ جنگ ہے جو اسلام دشمن عناصر سے دستور ہند کے دائرے کار میں رہتے ہوئے لڑنی ہے جو مذہب کے نام پر مسلمانوں سے تعصب برتتے ہیں اور ان سے ان کا اسلامی پرسنل لاء چھیننا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے ہمیں اچھے سے اچھے قانون دانوں کی ضرورت ہے صرف وکالت کی ڈگری رکھنے والوں کی نہیں بلکہ ایسے قانون دانوں کی جو نچلی عدالت سے لیکر عدالت العالیہ تک ہر ناانصافی کے خلاف دستور ہند کے دائرے کار میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو انصاف دلاسکیں۔ مسلمانوں کو ان کے اسلامی پرسنل لاء کی روشنی میں معاملات طئے کرنے کی سہولت فراہم کرسکیں۔
دوم اور سب سے اہم کام مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم دینا کہ بحیثیت مسلمان ان کی زندگی میں اسلامی تعلیمات ان کا اوڑھنا بچھونا ہونا چاہئے دینی تعلیم صرف دینی مدارس کے طلباء کیلئے ہی نہیں۔ ہر مسلمان کیلئے فرض ہے جب ہم بھارتی مسلمان اسلام کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرنا ترک کردیں تب ہی ہماری نجات ہوگی۔
ورنہ دوسری شادی کرنے کیلئے اسلام کا نام لیکر طلاق دینے کے لئے اسلام کا نام لیکر ہم نہ تو اپنے لئے ہی کچھ اچھا کررہے ہیں اور نہ ہی اسلام کی صحیح تصویر پیش کررہے ہیں جتنی توجہہ ہمیں اسلام دشمن طاقتوں اور قوتوں سے نمٹنے کیلئے صرف کرنی ہے اتنی بلکہ اس سے بھی زیادہ ضرورت ہمیں اپنی صفوں کو بھی درست کرنے اور درست رکھنے کیلئے وقت اور توانائی صرف کر نے کی ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کو مجھے پہلے اپنا احتساب کرنا ہوگا اور آپ کیا سمجھتے ہیں نریندر مودی کی حکومت پر تنقید کرنے سے آپ کے مسائل ہوجائیں گے۔ ذرا سوچئے گا تھوڑا غور کیجئے گا۔
روزنامہ سیاست، حیدر آباد انڈیا