امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم نوازشریف سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی خواہش پر تصفیہ طلب مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف بہترین ساکھ رکھتے ہیں اور زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کے اثرات ہر شعبہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے دورہ پاکستان کی دعوت پر امریکہ کے منتخب صدر نے کہا کہ وہ شاندار ملک کے بہترین لوگوں اور خوبصورت مقامات کا دورہ کرنا پسند کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم نواز شریف سے کہا کہ آپ کا ملک بہت حیران کن ہے اور پاکستانی ذہین ترین لوگوں میں سے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم نواز شریف سے بات چیت میں ان سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ‘ وزیراعظم آپ سے بات کرتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ ایک ایسے شخص سے بات کر رہا ہوں جسے کافی عرصے سے جانتا ہوں‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم نواز شریف سے کہا کہ وہ 20 جنوری کو عہدہ صدارت سنبھالنے سے پہلے بھی جب چاہیں انھیں فون کر سکتے ہیں۔اس سے پہلے امریکی انتخاب میں صدر منتخب ہونے پر وزیر اعظم نوازشریف نے ٹرمپ کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ ‘ آپ کا انتخاب یقیناً امریکی عوام اور جمہوری اقدار، آزادی، انسانی حقوق اور آزادانہ کاروبار میں عوام کے دیرینہ یقین کی فتح ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ آپ کی یادگار فتح اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ امریکی عوام کو آپ کی قیادت، بصارت اور اپنے عظیم ملک کی خدمت کے جذبے پر کتنا اعتماد ہے۔‘
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان اور اس کے عوام کے لیے خیر سگالی کے جذبات قابل تعریف ہیں اور ان کی طرف سے پاکستان کے تصفیہ طلب مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش بھی قابل تحسین ہے ۔
مگر سوال یہ ہے کہ پاکستانی ریاست خود کیوں نہیں اپنے مسائل حل کر سکتی؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مسائل کسی بیرونی طاقت کی طرف سے نہیں صرف اور صرف پاکستانی ریاست کے پیدا کردہ ہیں۔ اگر پاکستان میں جمہوری عمل کو تسلسل سے جاری رہنے دیا جائے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کر لیا جائے تو پاکستان کے مسائل ایک ایک کر کے حل ہوتے جائیں گے۔
جب پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں پارلیمنٹ کی بجائے فوجی ایسٹیبشلمنٹ طے کرے گی تو پھر ان کا نتیجہ یہی کچھ نکلے گا جس کا شکار پاکستان ہے۔دہشت گردوں کی حمایت کی وجہ سے پاکستان نہ صرف سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے بلکہ معاشی و سماجی طور پر بھی پسماندگی کا شکار ہو چکا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی ریاست کو پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ دہشت گردوں کی حمایت جاری ر کھنا چاہتی ہے یا ان سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے۔ امریکی حکومت نے تو نائن الیون کے بعد پاکستان سے بارہا مطالبہ کیا ہے ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنا بند کردے۔ مگر پاکستانی ریاست نےامریکہ سے دہشت گردی کے خلاف رقم تو وصول کر لی مگر دہشت گردوں کی حمایت سےباز آنے کے لیے تیار ہی نہیں۔
امریکی حکومت نے بارہا پاکستان سے مطالبہ کیاکہ وہ بھارت کے ساتھ نہ صرف تعلقات بہتر کرے بلکہ دو طرفہ تجارت کا آغاز کرے۔لیکن جب بھی پاکستان کی سویلین حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانا شروع کرتی ہے تو فوجی اشرافیہ ان تمام اقدامات کو سبو تارژ کردیتی ہے۔
پاکستان کی فوجی اشرافیہ نے پچھلے سولہ سالوں سے تو امریکہ کی کسی بات کو تسلیم نہیں کیا اب کیوں کرے گی۔
یہ امریکہ ہی ہے جس نے ڈرون کے ذریعے طالبان کے اہم رہنماوں کو ختم کیا جو اس خطے میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں مگر پاکستانی ریاست مسلسل دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ حقانی نیٹ ورک ہو یا لشکر طیبہ ،جیش محمد ہو یا حزب المجاہدین یا اسی قبیل کے دوسرے گروہ پاکستان میں بیٹھ کر اپنی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
ان حالات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کی کیا مدد کریں گے؟
BBC/News Desk