سچ اور جھوٹ کی جنگ بہت پرانی ہے۔یہ لڑائی مختلف زمانوں اور تہذیبوں میں مختلف طریقوں اور ناموں سے لڑی جاتی رہی۔اس طویل لڑائی میں کبھی سچ فتح یاب ہوا۔ کبھی جھوٹ جیت گیا۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، اور شاید ہمیشہ جاری رہے۔تاریخی اعتبار سے پاکستان کے اقتدار کے ایوان اس لڑائی کے بنیادی قلعے رہے ہیں۔ان قلعوں میں بیٹھ کر سچائی کے خلاف تسلسل سے جنگیں لڑی گئی۔
اقتدار کے ان ایوانوں میں بیٹھنے والوں نے ہر دور میں اپنے عوام اور دنیا سے سچائی کو چھپانے کے لیے کئی حربے اختیار کیے۔ان میں اظہار رائے پر پابندی سے لیکر قید و بند اور تشدد جیسے حربے شامل ہیں۔اس سلسلہ عمل کے دوران اگرچہ وقتی طور پر ہی سہی مگر سچائی کو کامیابی سے دبایا اور چھپایا گیا۔اس سچائی کا ایک اظہار پاکستان میں بننے اور ٹوٹنے والے تحقیقاتی کمیشنز کی تاریخ سے ہوتا ہے۔
پاکستان میں جب بھی کبھی کوئی اہم واقعہ ہوا اس کی فوری اور غیرجانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ سامنے آیا۔ظاہر ہے ملک میں رونما ہونے والے بیشتر اہم واقعات کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے جا کر ارباب ختیار سے ہی جڑتا ہے۔ان واقعات میں کہیں ارباب اختیار کی نا اہلی ہوتی ہے اور کہیں غفلت۔کہیں ذاتی مقاصد، معاشی یا سیاسی فوائد چنانچہ وہ ایسے تحقیقاتی کمیشنز کی تشکیل سے کنی کتراتے رہتے ہیں۔اگر کہیں دباؤ بہت زیادہ بڑھ جائے تو کمیشن بنا دیا جاتا ہے۔
اور جب دباؤ تھوڑا کم ہوتا ہے تو اسے توڑ دیا جاتا ہے۔اور کہیں اگر نا گزیر ہو تو کمیشن کی رپورٹ دبا دی جاتی ہے۔کمیشنز کی اس تاریخ کی ایک بڑی مثال حمود الراحمن کمیشن ہے جس کو سخت دباؤمیں آکر بنایا گیا اور پھر اس کی رپورٹ دبا دی گئی۔بنگلہ دیش کی آزادی سے لیکر اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے تک حکمرانوں نے اپنا ایک جھوٹا بیانیہ تخلیق کیا۔ اور اس جھوٹ کو عوام سے منوانے کے لیے پورے ریاستی وسائل استعمال کیے۔اور جس وقت یہ رپورٹ باہر ائی اس وقت تک عوام میںیہ جھوٹا بیانیہ اس قدر مقبول ہو چکا تھا کہ کسی نے حمود الراحمن کمیشن کی رپورٹ پڑھنے کی بھی زحمت نہ کی۔
یہ سچ اور حقیقت نا قابل تردید ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے بڑے ذمہ دار زخود پاکستان کے حکمران طبقات اور یہاں کے رجعت پسند بنیاد پرست تھے جنہوں نے تشدد کے ذریعے 1971میں اس فیصلے پر عمل کروایا جو حکمران کئی سال پہلے کر چکے تھے۔اور پھر ریاستی وسائل اور طاقت کابے تحاشا استعمال کر کے عوام میں اس واقعے کو ایک عظیم المیہ بنا کر پیش کیا۔دنیا کی سیاسی تارریخ میں جھوٹ اور سچ کی شاید ہی کوئی اور لڑائی ہو گی جہاں سچ کو اتنی بے درددی سیذبح کیا گیا۔
یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔پشاور میں آرمی پبلک سکول کا واقعہ، ایبٹ آباد کمیشن وغیرہ اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔ان واقعات میں حکمران طبقات کی نا اہلی، غفلت یا ملی بھگت میں سے کسی چیز کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔اس کی تازہ ترین مثال کوئٹہ کے واقعے پر قائم ہونے والے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ ہے۔ جسٹس عیسیٰ کی سربراہی میں قائم اس کمیشن نے گزشتہ ہفتے یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی ہے۔خلاف روایت اس رپورٹ کو عام کر دیا گیا۔
یہ رپورٹ میری مذکورہ بالا معروضات کی تائید کرتی ہے ۔ یہ پاکستان کے حکمران طبقات اور اداروں کی منافقت اور ان کے دوہرے معیاروں کو کھول کر بیان کرتی ہے جو انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اختیار کیے رکھے۔یہ رپورٹ ایک لحاظ سے ایک سو دس صفحات پر مشتمل ایک ایف آئی آر ہے جو بعض اداروں کی بے عملی، غفلت اور کوتاہیوں کا پردہ فاش کرتی ہے۔جھوٹ اور سچ کی اس لڑائی میں سچائی کے حق میں ایک اہم دستاویز ہے۔
یہ نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد اور اس کے تحت اٹھائے جانے والے اقدامات پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔اس سے اس حقیقت کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ بنیاد پرست دہشت پسند گروہوں کو اب بھی سٹریٹیجک اثاثے تصور کیا جاتا ہے۔اور ان اثاثوں کو ملک کے اندر اور باہر استعمال کیا جاتا ہے۔ملک کے باہر سے اس حوالے سے مسلسل یہ الزام دہرایا جا تا رہا ہے۔ملک کے اندر سے بھی اس حواالے سے کئی سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔
اے این پی کے لیڈروں کا قتل عام اور ان کو انتخابی مہم کے دوران عوام سے دور رکھنے کی کوشش کے واقعات تو اب پرانے ہو چکے ہیں مگر حال ہی میں اس حوالے سے آزاد کشمیر، سندھ اور بلوچستان سے کچھ نئے اور سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔ان الزامات کے تحت بنیاد پرست کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔جسٹس عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کو پیش کی جانے والی رپورٹ سے ایسے واقعات کی طرف توجہ دلانے میں مدد ملے گی۔