آصف جیلانی
دنیا میں جہاں جہاں مستحکم جمہوریتیں ہیں وہاں یہ دیرینہ روایت ہے کہ سابق صدر اور سابق وزیر اعظم ، اپنے عہدہ سے دست بردار ہونے کے بعد دوبارہ پارلیمنٹ کا انتخاب نہیں لڑتے ۔ اپنے عہدہ سے سبک دوش ہونے کے بعد وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں ۔ حال ہی میں برطانیہ میں ریفرنڈم میں شکست کے بعد ڈیوڈ کیمرون نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دینے کے بعد فی الفور پارلیمنٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔
ان سے قبل ،2010میں عام انتخابات میں شکست کے بعد لیبر پارٹی کے وزیر اعظم گورڈن براون نے جو پارلیمنٹ کے رکن رہ سکتے تھے ، پارلیمنٹ کو خیر باد کہنے کو ترجیح دی۔ اور ان سے پہلے ٹونی بلئیر ، گورڈن براون کے حق میں وزارت اعظمی سے دست بردار ہونے کے بعد ، پارلیمنٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ اب تک کہیں یہ نہیں سنا گیا کہ صدر اپنے عہدہ سے سبک دوش ہوکر دوبارہ اس پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے انتخاب لڑنے کے بعد میدان میں اترا ہوجس کو وہ صدر کی حیثیت سے خطاب کر چکا ہواور جس میں بیٹھے وزیروں سے وہ حلف لے چکا ہو۔
بے نظیر بھٹو کی نویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش کے جلسہ سے خطاب میں آصف علی زرداری کا یہ اعلان کہ وہ نواب شاہ سے موجودہ قومی اسمبلی کے رکنیت کے لئے انتخاب لڑیں گے ، سب کے لئے حیرت کا باعث ثابت ہوا ہے۔ یہ بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئی روایت ثابت ہوگا ۔ بہت سے لوگوں کی رائے میں اس وقت آصف علی زرداری کے لئے بہترین موقع تھا کہ وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو کر ، اپنے فرزند بلاول کو جو اپنی والدہ کے قتل کے بعد ، پر اسرار وصیت کے ذریعہ پیپلز پارٹی کے قائد مقرر ہوئے ہیں ، سیاسی تربیت دیتے اور انہیں مفاہمت اور مصالحت کے نام پر سیاسی جوڑ توڑ کا جو تجربہ ہوا ہے اس کے راز سے بلاول کو فیض یاب کرتے۔
یہ بڑا اچھا موقع تھا کہ زرداری سیاسی جماعتوں کی سیاست میں الجھنے کے بجائے ، سیاسی مرشد یا گرو کا کام انجام دیتے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سابق صدر کو اپنے خلاف کرپشن کے سنگین الزامات کا حصار تنگ ہونے کا خطرہ ہے ۔ان کے سابق وزیر پیٹرولیم اور قریبی ساتھ، ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف سنگین کرپشن کے الزامات کے چھینٹے برابر سابق صدر پر پڑ رہے ہیں۔ پھر حال میں ان کے قریبی معتمد انور مجید کے دفتر پر چھاپے اور اسلحہ برآمد ہونے کے بعد گرفتاری سے زرداری بے حد خائف نظر آتے ہیں۔
آصف علی زرداری اٹھارہ ماہ کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد جب وطن لوٹے تھے تو ان کا انداز ، اپنے فرزند بلاول کے مقابلہ میں بہت مفاہمتی تھا۔لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وطن واپسی سے تھوڑی دیر پہلے انور مجید اور ان کے ساتھیوں کی گرفتار ی کے بعد ، سابق صدر کا انداز یکسر بدل گیا ہے۔ انہوں نے گڑھی خدا بخش کے جلسہ میں، وزیر اعظم نواز شریف کو مغل بادشاہ قرار دیتے ہوئے انہیں للکارا ہے کہ ہم آپ کی بادشاہت کو نہیں چھوڑیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ افسوس ہے کہ میاں صاحب نے’’ ہماری ‘‘جمہوریت کا خانہ خراب کردیا ہے۔ زرداری کا کہنا تھا کہ وہ اس وجہ سے پارلیمنٹ میں نہیں آرہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی کرسی کھینچنی ہے ۔ ’’ نہ آپ کی حکومت رہنی ہے اور نہ کرسی رہنی ہے۔ ہر چیز کو زوال ہے‘‘خود ساختہ جلا وطنی کے بعد زرداری میں یہ تبدیلی نمایاں ہے ۔ دبئی جانے سے پہلے انہوں نے اس زمانے کے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے کہا تھا کہ وہ صرف تین سال کے لئے آئے ہیں اور ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اس موقع پر سابق صدر نے فوج کی اینٹ سے اینٹ بجا نے کی بھی دھمکی دی تھی ۔
واپسی پر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ میاں صاحب ہم نے ایسی ایسی جیلیں کاٹی ہیں کہ آپ وہاں جائیں تو اندازہ ہوجائے گا۔ شاید زرداری اٹک کی سنگین جیل کا جہاں میاں نواز شریف جدہ جلا وطنی سے پہلے پا بند سلاسل رہے تھے، موازنہ کراچی میں ڈاکٹر عاصم کے ضیا ء الدین ہسپتال سے کر رہے تھے جہاں انہوں نے علاج کے بہانے ’’قید‘‘ کاٹی تھی اور اپنے آپ کو پاکستان کا نیلسن مینڈیلا کہلاتے ہیں۔
پھر بہت کم لوگ آصف علی زرداری کے اس دعوے سے اتفاق کریں گے کہ ’’ ہم وقت کے آمروں سے لڑے ہیں لیکن فوج کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی‘‘۔ شاید وہ بھول گئے کہ دبئی جانے سے پہلے انہوں نے فوج کے بارے میں کیا کہا تھا۔
گڑھی خدا بخش کے جلسہ میں آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو بادشاہ سلامت کا جو طعنہ دیا ہے اسکا مقصد ،بھبکی کے سواکچھ اور نظر نہیں آتااور جس کے پیچھے واضح طور پر ان کے خلاف کسی بڑی کاروائی کا خوف جھلکتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی رائے میں اسی خوف کی بناء پر آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ نے اور پارلیمنٹ کی پناہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو پارلیمنٹ کی مراعات کے پیچھے وہ چھپ سکیں گے ۔بہر حال بہت جلد سابق صدر کی حکمت عملی واضح ہو جائے گی کہ دوبارہ قومی اسمبلی میں آنے کا ان کا اصل مقصد کیا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ والد اور فرزند دونوں ایک ہی ایوان میں ایک ہی پارٹی کے رہنماؤں کی حیثیت سے بیٹھیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں منتخب ہونے کے بعد آصف علی زرداری ، شریک چیئرمین کی حیثیت سے حزب مخالف کے قائدکی نشست سنبھالیں گے یا ان کے فرزند بلاول ، پارٹی چیئرمین کی حیثیت سے اس نشست کے دعوی دار ہوں گے ۔ اوراگر بلاول حزب مخالف کے قائد بنے تو کیا والد صاحب وفا داری کا پاس رکھتے ہوئے، ان کے پیچھے بیٹھیں گے۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ انوکھی بات ہوگی جس کی دنیا کی کسی پارلیمنٹ میں نظیر نہیں ملتی ہے۔ بلا شبہ یہ اقتدار کی ہوس کی جنگ کی نقیب ہے اور ملک کی سیاست کے ستارے ایک نئی گردش میں نظر آتے ہیں ۔
♣
One Comment