دنیا میں ہر رشتہ ایک جذبہ اور احساس سے وابستہ ہوتا ہے ،چاہے وہ رشتہ خون کا ہو یا پھرایک نظریے کا ۔اور وہ رشتہ انسان کو انفرادیت سے اجتماعیت تبدیل کر دیتا ہے ۔وہ انسان جو انفرادیت سے بالاتر ہوکر اجتماع کے لئے سوچتے ہیں وہ عظیم کردار کے مالک ہوتے ہیں ۔ دنیا میں ہر شحص کا اپنا ایک الگ کردار ہوتا ہے۔ذہین اوربہادر شخص اپنے عظیم مقاصد کا تعین کرنے انہیں حاصل کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ دنیا میں ایسی ہزاروں شخصیات گزری ہیں جو کہ اپنے کردار کی وجہ سے بڑی بڑی تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہوچکی ہیں ۔
آج میں بھی ایک ایسے شخص کے کردار کو سامنے لانا چاہتی ہوں ،جس سے مجھ سمیت ہزاروں لوگ اس کے کردار سے واقف ہیں ۔وہ عظیم کردار کے مالک ڈاکٹر دین محمد بلوچ ہیں،جو اپنی قومی آزادی کی خاطر آج پورے آٹھ سالوں سے اذیت گاہوں میں پابند سلاسل ہے۔ دین محمد بلوچ ایک سیاسی لیڈر ہے اور وہ اُسے جدوجہد کی پاداش میں یہ سب کچھ سہنا پڑ رہا ہے۔
ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 28جون 2009کو خضدار کے علاقے اورناچ سے رات کے نصف میں سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے لوگوں کے سامنے تشدد کا نشانہ بنا کر اپنے ساتھ لے گئے اور آج اُن کی گمشدگی کو آٹھ سال مکمل ہونے کو ہے ۔تاحال اُن کی خاندان کو اُس کے حوالے سے کوئی خبر نہیں ہے۔اہل خانہ نے پاکستانی آئینکے عین مطابق سب سے پہلے FIRدرج کروائی ہے۔پھر ڈاکٹر دین کی بہادر بچیوں نے اپنے والد کی بازیابی کے خاطر انصاف کے تمام دروازوں کو کھٹکھٹانا شروع کیا، تاکہ کوئی بااختیار انہیں انکے والد کے بارے میں کچھ بتا کر تسلی دے سکے۔
ڈاکٹر کی بہادر بیٹیاں کراچی ، کوئٹہ اور اسلام آباد پریس کلبوں میں کئی دفعہ پریس کانفریس کرچکی ہیں اور ہنوزیہ سلسلہ جاری ہے ۔ڈاکٹر کی 20سالہ بیٹی سمی بلوچ نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کے کیمپ کو اپنا گھر بنا دیا اس امید کے ساتھ کہ وہاں روزانہ انسان دوست لوگ کیمپ میں اظہار ہمدردی کے لیے آتے ہیں کچھ لوگوں کی دعا اور کچھ لوگوں کی دوسرے انسانی حقوق کے اداورں تک رسائی شاید میرے والد کی بازیابی کے لیے کچھ کر سکیں ۔
کہتے ہیں کہ دنیا امید پر قائم ہے ،آج بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد لوگ اس امید میں بیٹھیہیں کہ انکے پیارے بازیاب ہوکر آئیں گے۔سمی بلوچ نے اپنے والد کی بازیابی کے خاطر وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کی تاریخی لانگ مارچ میں حصہ لیکر کوئٹہ سے اسلام آباد تک سفر کیا مگر آج تک بھی ڈاکٹر کی کوئی خبر نہیں ہے۔
بلوچستان وہ زمین ہے کہ جو سمندر پار لوگوں کو اپنی کشش کی وجہ سے کھینچتی ہے لیکن اس زمین کے اپنے باشندے لاپتہ ہوجاتے ہیں۔ یونانی،فارسی،عرب،انگریز نے دن رات ایک کر کے اس زمین کو اپنے قبضے میں لینا اور قبضہ برقرار رکھنا چاہا، لیکن ہر بار اُن کو ناکامی ہوئی ۔ آج پاکستان کے حکمران بھی انہی پالیسیوں پر کاربند ہوکر بلوچستان کو ایک مفتوحہ علاقے کی حیثیت سے لوٹ رہے ہیں ۔اس زمین کے باشندوں کو لئے ریاست کا قانون ہی الگ ہے ۔بلوچ نے ہمیشہ اپنے حقوق کا دفاع کیا ہے ، حقوق لوٹنے والوں کے خلاف بلوچ کی مزاحمت کی تاریخ طویل ہے اور آج بھی یہ جنگ جاری ہے ۔ حق حاصل کرنے کی اس جدوجہد میں اب تک ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں اور 20ہزار سے زائد لاپتہ ہیں۔ ان گمشدگان میں ڈاکٹر دین محمد بلوچ بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر سمیت تمام جبری طور پر لاپتہ لوگوں کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں پر ناانصافیوں اور ظلم اور جبر کے خلاف بولتے تھے۔ بولنے کی آزادی دنیا کے تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے ۔دنیا کے تمام قانون، عقائد اور روایات کسی کویہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ انسانوں سے انکے بنیادی حقوق چین لے ۔مگر پاکستان میں انسانی بنیادی حقوق کو پاؤں تلے روندا جارہا ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کا مطالبہ سادہ ہے، وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے پیاروں کو ریاست مروجہ قوانین کے تحت عدالتوں میں پیش کرے، اگر وہ مجرم ٹھہرے تو جو سزا ہوگی وہ خاندان کو قبول ہے۔
لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ لاپتہ افراد کو قانونی چارہ جوئی کی آزادی نہیں ملتی۔ بہت سے لاپتہ افراد کی بازیابی مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں ہوتی ہے جو کہ اس صورت حال کو مزید سنگین بناچکی ہے۔ بلوچستان کے لاپتہ افراد کے مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ متعلقہ ادارے ان لوگوں کو عدالتوں میں پیش کرکے انہیں قانون کے تحت اپنی صفائی کو موقع دیں۔ دوسری صورتوں میں مزید کئی خاندان مہلب و سمی کی طرح پریس کلبوں اور بھوک ہڑتالی کیمپوں میں نظر آئیں گے۔
♦