کابل اور نئی دہلی نے ایک فضائی تجارتی راہداری کا افتتاح کیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد بھارت افغانستان تجارت کے لیے پاکستان پر انحصار کو کم کرنا ہے۔
پیر 19 جون کو افغان صدر محمد اشرف غنی نے کابل کے حامد کرزئی ایئر پورٹ پر پانچ ملین ڈالر مالیت کی 60 ٹن جڑی بوٹیوں اور دیگر قیمتی زرعی اجناس سے بھرے ایک طیارے کو نئی دہلی کے لیے روانہ کیا۔ ان کے ہمراہ ہندوستان کے سفیر من پریت ووہرا اور افغان کابینہ کے متعدد ارکان بھی موجود تھے۔
اس پیشرفت کو ایک اہم سنگ میل کا نام دیا گیا۔ خشکی میں گھرا افغانستان ہمیشہ سے ہی ٹرانزٹ تجارت کے لیے پاکستان کی کراچی بندرگاہ پر انحصار کرتا آیا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات میں حالیہ کشیدگی اور سرحد پار دہشت گردی کے الزامات نے جو متعدد بار سرحدی بندش کا بھی سبب بنے، کابل کو متبادل ڈھونڈنے پر مجبور کردیا۔
یاد رہے کہ افغانستان نے کئی دفعہ واہگہ بارڈر کے راستے بھارت سے تجارت کرنے کی کوشش کی لیکن ایسی تمام کوششوں کو پاکستان نے ماننے سے انکار کر دیا۔
دہلی اور کابل نے گزشتہ برس ستمبر میں آگرہ میں منعقدہ ہارٹ آف ایشیا سمٹ میں اس ’’ایریئل کوریڈور‘‘ کے قیام کا فیصلہ کیا تھا اور اب بالآخر اسے عملی جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ اسی سلسلے کی اگلی پرواز آئندہ ہفتے جنوبی شہر قندہار سے نئی دہلی کے لیے روانہ ہوگی۔ اسی طرح ہندوستان سے بھی تجارتی پروازیں شیڈول ہیں۔
افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر خان جان الکوزئی تسلیم کرتے ہیں کہ زمینی راستے کے مقابلے میں فضائی راستے سے تجارت خاصی مہنگی پڑتی ہے تاہم افغان تاجر پاکستانی راہداری کی متعدد بار اچانک اور طویل بندش سے تنگ آچکے ہیں، ’’ابھی ہمارے اور ہندوستان کے مابین جو معاہدہ طے پایا ہے اس کے مطابق افغانستان کی برآمدات پر بیس سینٹ فی کلو گرام اور بھارت سے درآمدات پر چالیس سینٹ فی کلوگرام کی لاگت آئے گی‘‘۔
یاد رہے کہ افغانستان اور پاکستان کے مابین فری ٹریڈ ایگریمنٹ موجود ہے۔ کابل اور نئی دہلی متعدد بار اسلام آباد سے اس معاہدے میں بھارت کو بھی شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈال چکے ہیں مگر بے سود۔ موجودہ مفاہمت کے مطابق افغان تاجر اپنی ایشیا پاکستان کے راستے بھارت بھیج سکتے ہیں مگر واپسی میں بھارت سے سامان نہیں لاسکتے۔
افغانستان سے تجارت کی راہ میں پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو بھارت دشمنی کی وجہ سے اس خطے کی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔ جبکہ پاکستان اس خطے میں تنہا ہوچکا ہے۔ پاکستان کے اس وقت تینوں ممالک، افغانستان، بھارت اور ایران سے تعلقات تلخی کا شکار ہیں۔تینوں ممالک پاکستان پر دہشت گردوں کی مدد کا الزام لگاتے ہیں لیکن پاکستانی ریاست ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کے رویے سے تنگ کر افغانستان اور بھارت نے ایران کے ساتھ مل کر ایک نیا تجارتی سمجھوتہ کیا جس کے تحت بھارت نے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور چاہ بہار سے افغانستان تک ریلوے لائن کی تعمیر بھی مکمل ہو چکی ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دونوں ممالک کی سالانہ تجارت قریب تین ارب ڈالر سے گھٹ کر پانچ سو ملین ڈالر تک رہ گئی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر پاکستان، افغانستان اور بھارت کو واہگہ بارڈر کے ذریعے تجارت کی اجازت دے دے تو اس سے پاکستان راہدری کی مدد میں کئی ملین ڈالر کما سکتا ہے۔پاکستان کی خوشحالی تینوں ممالک سے دوستی میں ہی مضمر ہے۔
کابل میں پاکستانی سفارتخانے نے حسب معمول ایک روایتی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب سے تجارت کے فروغ میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
پاکستان کی فیڈرل چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر غلام علی مانتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت گزشتہ دو برسوں میں کافی کم ہوئی ہے، ’’بہرحال فضائی تجارتی ایک مہنگا آپشن ہے، طویل مدت تک اسے جاری رکھنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا‘‘۔
DW/News desk
♦