پاکستان میں شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک شہری تیمور رضا کو توہین مذہب کے الزام کے تحت سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ فیس بک پر مبینہ طور پر متنازعہ مواد شائع کرنے والے رضا کو گزشتہ برس گرفتار کیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے دفتر استغاثہ کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ تیمور رضا پر توہین مذہب کا الزام ثابت ہو گیا تھا، اس لیے اسے سزائے موت سنائی گئی ہے۔ تیمور پر الزام تھا کہ اس نے سوشل میڈیا پر مذہب اسلام سے متعلق توہین آمیز مواد شیئر کیا تھا۔
پراسیکیوٹر شفیق قریشی نے بتایا ہے کہ جج شبیر احمد نے دس جون بروز ہفتہ جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور میں تیس سالہ تیمور رضا کو یہ سزا سنائی۔
عدالت کو بتایا گیا تھا کہ تیمور نے سنی مسلم رہنماؤں اور پیغمبر اسلام کی بیویوں کے بارے میں ’توہین آمیز کلمات‘ سوشل میڈیا کی ویب سائٹ فیس بک پر شیئر کیے تھے۔
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام اور اسلام سے متعلق توہین آمیز مواد کو روکنے کا حکم دیا تھا۔ کئی سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر مبینہ طور پر توہین آمیز اس مواد کے خلاف ملک بھر میں مذہبی حلقوں میں بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔
پاکستان میں مذہبی جماعتیں ،اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈہ میں مصروف ہیں۔ مسجد کا منبر ہو یا ان کا تبلیغی لٹریچر ، ہر دو جگہ شیعوں اور احمدیو ں کے خلاف نفرت کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ بلکہ انتہا پسند مذہبی جماعتیں تو اپنے مذہبی نصاب مخالف فرقوں کےخلاف نفرت کی باقاعدہ تعلیم دیتے ہیں۔ٹی وی چینلز پر میزبان مخالف فرقوں کے خلاف قتل کے فتوے جاری کرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہٴ پاکستان میں 1980ء کی دہائی سے توہین مذہب سے متعلق قوانین نافذ ہیں، جن کے مطابق اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی توہین کی صورت میں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں توہین مذہب کا قانون انتہا ئی متنازعہ ہے۔بنیادی طور پر یہ قوانین سیاسی کارکنوں کو خاموش کرنے کے لیے بنائے گئے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں نے اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔عام طور پر معاشرے میں ان کا استعمال مذہبی اور ذاتی دشمنیوں میں بدلہ لینے کے لیے کیا جاتا ہے۔
توہین رسالت یا مذہب کے نام پر اقلیتوں خا ص کر مسیحیوں اور احمدیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ان کی بستیوں ،آبادیوں اور ان کی عبادت گاہوں کو آگ لگادی جاتی ہے لیکن ابھی تک کسی کو سزا نہیں ہو سکی بلکہ الٹا مذہبی جماعتوں کے ارکان جو اس دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں وہ کھلے عام معاشرے میں نفرت آمیزپراپیگنڈے میں نہ صرف مصروف ہیں بلکہ ان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے گلگت اور بلوچستان میں بسوں کو روک کر مسافروں کے شناختی کارڈچیک کرکے چن چن کر شیعوں کا قتل عام کیا گیا ہے لیکن مجال ہے کہ ریاست نے کسی کالعدم مذہبی جماعتوں کے خلاف کوئی کاروائی کی ہو یا کسی کو سزا دی ہو۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق پاکستان میں اب تک پچاس سے زائد ایسے شہری، جن پر کسی نہ کسی فرد، گروہ یا طبقے کی طرف سے توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے تھے، کسی بھی عدالت میں پیش کیے جانے سے پہلے ہی درجنوں مختلف واقعات میں مشتعل شہریوں کے بپھرے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں، وہ بھی اس طرح کہ قتل کے بعد کسی کی لاش کو روندا گیا تو کسی کو زندہ جلا دیا گیا۔
پاکستانی ریاست ایک متشدد ریاست ہے جہاں تعلیمی نصاب( چاہے وہ مدارس کا ہو یا حکومتی تعلیمی ادارے ) میں نفرت پر مبنی تعلیم کا پرچار کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ معاشرے میں انتہا پسندی اور متشدد رویوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ رویے پاکستانی سیکیورٹی ایسٹیبشلمنٹ کی ضرورت ہیں اور وہ ان کے ذریعے ایسےانتہا پسند منتخب کر لیتی ہے جو ریاست کے دفاعی اثاثے ہوتے ہیں۔
DW/News Desk
One Comment