اوشو نا صر
ایک چھوٹا سا کمرہ جس میں نہ کوئی کھڑ کی نہ روشن دان ہاں البتہ دروازہ ایسا جس میں آنے جانے والا کوئی بھی جھانک کر کمرے کااندورنی منظر دیکھ سکتا ہے۔کمرے میں ایک عدد چار پائی جس پر صدیوں کی میلی چادربچھی تھی اور اسی طرح میلا کچیلا تکیہ رکھا تھا۔چار پائی کے علاوہ کمرے میں ٹوٹے ہوئے لکڑی کے میز پر ایک پانی کا کو لر رکھا تھا جو اتنا گندہ تھا جس میں انسان تو کیا کو ئی جانور بھی پانی پیے تو بیمار ہو جائے۔کمرے میں گر می اور حبس اپنے پورے جوبن کے ساتھ موجود تھی۔
میں اس کمرے میں موجودتھی۔میرے ساتھ ایک جوان لڑ کی بیٹھی تھی جس نے جدید انداز کا لباس زیب تن کیا تھا؛جیز اور ہاف بلاوز، بڑے سلیقے سے میک اپ کیا ہوا تھا اور لڑ کی بار بار مجھے یہ باور کرانے کی کوشش کررہی تھی کہ میں بہت ضرورت مند ہو ں۔ یہ وفاتی دارا لحکومت کے علا قہ کراچی کمپنی میں ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کا ملکیتی کمرہ تھا جس میں؛روڈ ہو سٹس؛ لڑ کیوں کو ر ہا ئش دیتے ہیں میرے پہلو میں بیٹھی لڑ کی بھی دراصل ایک روڈ ہو سٹس ہی تھی۔
کسی دورمیں صرف ہو ا ئی جہازوں میں خوبصوت ہو ائی میزبان خو ا تین ہوا کر تی تھیں جو سفر کر نے والے مسا فروں کی خدمت پر ما مو ر ہو تی تھیں اور اس دور میں بہت سے شو قین حضر ات ہوائی میزبانوں کا لطف اٹھانے کے لئے ہوائی سفر کیا کرتے تھے اور پھر ز مین پر آتے ہی ہوائی میزبانوں کے قصے دوست واحباب کو سنا تے نہ تھکتے تھے۔
سماج میں مردوں کی ذ ہنی پسماندگی کومد نظرر کھتے ہوئے ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے بھی میزبانی کے فرائض خواتین کو سو نپنے کی ٹھانی پہلے پہل اس کا آغاز غیر ملکی ٹرانسپورٹ کمپنی ڈائیوو سے ہوا۔ بہت سی ضرورت مند خو ا تین آئیں جنھیں محض چند ہزار پر بطور ’روڈ ہو سٹس‘ ملازمتیں دی گئیں۔شروع شروع میں ’روڈ ہو سٹس‘ صرف ’ڈائیو‘ کمپنی کی ہی بسو ں میں تھیں جس میں مہنگا ہونے کے باوجود لوگوں نے سفر کرنا شروع کیا خصو صی طور پر پسماندہ طبقہ نے جن کا مطمع نظر سفر کرنا یا اپنی منزل پر پہنچنا نہیں بلکہ خاتو ن میزبان کی میزبانی سے لطف اندوز ہو نا ہوتا تھا۔
پھر دیکھا دیکھی اس بھیڑ چال میں دیگر کمپنیاں بھی شامل ہوگئیں اور پھر نو جوان لڑکیوں کو میزبان رکھنے کا رواج عام ہو گیا۔ مگر ’ڈائیو‘ کے علاوہ دیگر کمپنیوں نے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے ’میرٹ‘ نام کی کسی چیزکی پرواہ نہیں کی اور ’بس ہو سٹس‘ کے لئے محض لڑ کی ہونا ہی میرٹ ٹھہرا جس نے جہاں بہت سی ضرورت مند لڑکیوں کو روز گار کے مواقع فراہم کئے وہاں بہت سی سماجی برائیوں کو بھی جنم دیا۔ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے ر وڈ ہو سٹس کی ملازمت کر نے والی لڑ کیوں کا خوب استحصا ل کیا اور تا حال کررہی ہیں۔
روڈ ہو سٹس کو ۵۰۰روپے یو میہ دیا جاتا ہے لڑ کیاں زیادہ اور بسیں کم ہو نے کی وجہ سے ایک روڈ ہو سٹس کو ہفتہ میں دویا تیں دن ہی بس پر روانہ کیا جاتا ہے باقی دن یہ لڑ کیاں اڈوں پر بنے ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے کمروں میں پڑ ی رہتی ہیں اور مکمل طور پر بس انتظامیہ کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں۔معلوم کر نے پر پتہ چلا ان لڑ کیوں میں اکثریت دور دراز علاقوں کی ہو تی ہیں اور بہت سی لڑ کیاں ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے گھروں سے فرارہوئی ہو ئی ہیں جن کا اب نہ تو کو ئی گھر ہے اور نہ ہی ٹھکانہ اس لئے بس انتظا میہ جیسے چا ہے جس طرح چاہے ان کا ا ستحصا ل کرے وہ نہ تو شکایت کر سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے حقوق کے لئے کوئی آواز اٹھاسکتی ہیں۔
اکثر لڑ کیاں با لکل ان پڑھ ہیں اور کہیں اور ملازمت کے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے استحصال کا شکار ہیں ۔ بس انتظا میہ کے علاوہ بس میں سفر کر نے والے مسافربھی اسی دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں بس ہو سٹس کو مختلف حیلے بہانوں اور جملوں سے ہر اساں کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے کسی کو بار بار پیاس تنگ کرتی ہے کسی کو سیٹ بیلٹ میں مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو کو ئی خود سے ہیڈفون لگانے سے عاری ہوتا ہے اور جیسے ہی ’روڈہو سٹس‘ اپنی پیشہ وارا نہ ڈیوٹی پوری کر نے آتی ہے تو مختلف جملے اس کی سماعت سے ٹکراتے ہیں کو ئی خوبصورتی کی تعریف کرتا ہے تو کو ئی لباس کی فٹنگ پر تبصرہ کو ئی نمبر مانگتاہے تو کوئی اپنا نمبر پیش کر تا ہے۔
ا نتظامیہ کا پر یشر اور ملازمت ختم ہونے کا خوف ان لڑکیو ں کو صرف مسکرانے پر مجبور کرتا ہے ان میں بہت سی لڑ کیاں ایسی بھی ہو تی ہیں جو اخلاقی برائی میں ہی اپنی بقا سمجھتی ہیں اور مسافروں میں خو شحال نظر آنے والے حضرات کو فوراً رابط نمبر دینے یا لینے میں ذرا بھی تغا فل نہیں کر تیں ایسی روڈ ہو سٹس اپنا مقدمہ لڑتے ہو ئے کہتیں ہیں کہ جتنے پیسے ہمیں ملا ز مت سے ملتے ہیں ان میں گزر بسر نہیں ہوتا مجبوراً ہمیں یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ایسی لڑ کیاں اپنی شنا خت غلط بتاتی ہیں نام‘گھر کا پتہ سب بو گس ہوتا ہے شنا ختی کا رڈز بھی اکثر کے جعلی ہو تے ہیں۔
اس سلسلہ میں جب ہم نے بس انتظا میہ سے بات کی کہ آپ مکمل چھان بین کیوں نہیں کر تے اور جعلی شنا ختی کا رڈز ر کھنے والی لڑ کیو ں کو کیو ں ملازمت دیتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ لڑکیاں بس اٹھا کر لے جا ئیں گی ان میں اکثریت کا تو کوئی گھر ہے ہی نہیں پھر وہ کیا پتہ د یں گی اور کیا شناختی کارڈ یہ مکمل طور پر ہمارے زیراثر ہو تی ہیں ہمیں ان سے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوتا جس وجہ سے ہم ان چکروں میں نہیں پڑتے بلکہ ہم توشنا ختی کا رڈما نگتے ہی نہیں اور نہ ہی تعلیمی سرٹیفیکیٹ۔
دوسری طر ف جب ہم نے ’’بس ہو سٹس‘‘ لڑکیوں سے ان کو در پیش‘ مشکلات کے حوالہ سے پو چھا تو شکایات اور مشکلات کے انبار تھے ۔بس ہو سٹسزکا کہنا تھا سب سے بڑا مسئلہ تو ملا ز مت کی سیکورٹی نہ ہو نا ہے ایک کمپنی ما لکان کچھ عر صہ ایک لڑ کی کو ملازمت دیتے ہیں ملازمت کرنے والی لڑکی کو ملازمت کے ساتھ ساتھ بس انتظامیہ کو عیش وعشرت کے لمحا ت بھی مہیا کر نے پڑتے ہیں مگر کچھ عرصہ کے بعد پھر وہ لڑکی سکینڈ ہینڈ ہو جاتی ہے تو وہ نہ صرف انتظامیہ کے دل سے اترتی ہے بلکہ ملازمت سے بھی فارغ کر دی جاتی ہے اور اس کی جگہ کوئی نئی ضرورت مند لڑکی آجاتی ہے اور یہ کھیل سالوں سے جاری ہے۔
ایک بس ہو سٹس کا کہنا تھا ملا ز مت کے لئے آنے والی لڑکی کو پہلے بس ما لک کے دربار میں پیش کیا جا تا ہے پھر اڈہ مینجر کے ، پھر اڈہ انچارج پھر ڈرائیو ر اور اس کے بعد دیگر عملہ کی باری آتی ہے۔
♠
One Comment