اننت کرشنن
ہندوستان نے دو ٹوک انداز میں یہ واضح کردیا ہے کہ وہ چین کے غلبہ والے نظام کا حصہ نہیں بنے گا، لیکن ہندوستان کیلئے ضروری ہے کہ قابل اعتبار متبادل پیش کرے، اس کام کا وقت شروع ہوچکا ہے۔ ہندوستان اپنے وسائل کے ساتھ وہ واحد ملک ہے جو چین کے ساتھ وسیع معاشی خلیج کو پاٹ سکتا ہے۔ چین عصری مینوفیکچرینگ میں ساری دنیا میں سبقت حاصل کرنے کے مقصد سے’’ میڈ اِن چائنا 2025 ‘‘کے پلان کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
چین ایسے عصری مسافر طیارے تیار کر رہا ہے جو مارکیٹ میں بوینگ 737 اور ایر بس اے 320 کا غلبہ ختم کردیں گے۔ چین نے سری لنکا اور پاکستان اور کئی جنوبی مریکی اور افریقی ممالک کے لئے سیٹلائیٹس لانچ کئے ہیں۔ چین نے اپنے طور پر سٹیلائیٹ نیویگیشن سسٹم تیار کیا ہے جو جی پی ایس کا حریف ہے۔ چین اپنے کامیاب خلائی لیب کے بعد سال 2020 تک مکمل درجہ کا خلائی اسٹیشن قائم کرلے گا۔
چین آئندہ 5 برسوں میں اپنے آپ چلنے والی پچاس لاکھ گاڑیاں سڑکوں پر لائے گا، چین میں پہلی سیلف ڈرائیونگ کار 2018 میں چلنے لگے گی۔ چینی کمپنی ڈرونز کا کمرشل استعمال کررہی ہے ، چینی ڈرونز عالمی مارکیٹ میں چھاگئے ہیں۔ چین کے نئے عزائم دنیا میں مختلف ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات میں بنیادی تبدیلی کا نقیب ہوں گے۔ امریکہ عظیم فوجی طاقت کے ساتھ دنیا کا سوپر پاور بنا ہوا ہے لیکن سمندر پار ممالک میں چین کے کمرشل مفادات تیزی سے وسعت پارہے ہیں۔
اس طرح چین دنیا کی بڑی طاقت بن کر اُبھر رہا ہے۔ گذشتہ سال چین نے سمندر پار ملک جیبوٹی میں اپنا بحری اڈہ قائم کیا ہے۔ اس طرح چین نے اپنی اس قدیم پالیسی کو ترک کردیا ہے کہ وہ بیرونی ممالک میں کوئی اڈے قائم نہیں کرے گا۔ چینی فرمز سارے بحرہند علاقے میں بندرگاہی پراجکٹس قائم کرنے والا ہے۔
انڈونیشیا ، سری لنکا، ماینمار، بنگلہ دیش اور پاکستان میں چین یا تو بندرگاہیں تعمیر کررہا ہے یا ان کا انتظام سنبھال رہا ہے۔چین کا کہنا ہے کہ یہ سارے پراجکٹس معاشی نوعیت کے ہیں لیکن یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ چین اپنے بحریہ اور طیارہ بردار جہازوں کے پروگرام کو وسعت دے رہا ہے۔ پاکستان میں چین زیادہ سرگرم ہے، چین کا بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ چین۔ پاکستان معاشی راہداری ہے۔ چین اپنے ترقیاتی ماڈل کا ہر پہلو پاکستان کو برآمد کررہا ہے۔ سڑکوں اور ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ چینی فرمز پاکستان میں زرعی اراضی حاصل کررہی ہیں اور ٹورازم اور کلچرل پراجکٹس تعمیر کررہے ہیں۔
پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں جہاں پاک ۔ چینی افواج اس وقت محدود فوجی طلایہ گردی کررہے ہیں ۔ چین اپنے اثاثوں اور افرادی عملہ کے تحفظ کیلئے بڑا اور وسیع رول انجام دینے والا ہے۔ چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کو روبہ عمل لانے کیلئے جو چوٹی اجلاس منعقد کیا تھا اس میں ہندوستان نے اس وجہ سے بطور احتجاج شرکت نہیں کی کہ مجوزہ راستہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر سے گذرے گا جو ہندوستان کا علاقہ ہے جس پر پاکستان نے طاقت کے زور پر 1948 میں قبضہ کیا۔
ہندوستان کا احساس ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ چین جمہوری طریقہ کار اختیار کرے گا، چین سب کچھ اپنے اطراف گھمارہا ہے۔ اس احساس کا اظہار چین میں ہندوستان کے سابق سفیر اشوک کانتا نے کیا ہے۔ انھوں نے نشاندہی کی کہ حالیہ سربراہی کانفرنس میں تمام اعلانات اور فیصلے چین نے کئے ہیں دوسرے تمام چین کے پیچھے چل رہے ہیں۔ ہندوستان کیلئے عظیم چینی انٹر پرائیز میں جونیر پارٹنر کی طرح اُبھرنا مشکل ہے۔چین اگر بیلٹ اینڈ روڈ پراجکٹ کو کامیابی کے ساتھ روبہ عمل لاتا ہے تو ہندوستان کو اڑوس پڑوس میں تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چین کی معاشی سرگرمیوں سے پہلے ہی ہندوستان کو مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں۔
ماہرین کا احساس ہے کہ ہندوستان کو اپنے قریبی پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے مفادات کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ افریقہ یا جنوب مشرقی ایشیاء میں چینی مفادات کا توڑ کرنے کی بجائے ہندوستان کو اڑوس پڑوس میں اپنے مفادات کے تحفظ کی فکر کرنی ہوگی۔ چین نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں ہندوستان کی رکنیت میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ چین سلامتی کونسل میں پاکستانی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ مبصرین کا احساس ہے کہ اس کے باوجود ہندوستان کو چاہیئے کہ چین کے ساتھ تعلقات بالکل خراب نہ کرلے کیونکہ ہندوستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
گوا میں 2016 میں برکس چوٹی کانفرنس میں چین کے سربراہ زی جن پنگ نے شرکت کی، لیکن ہندوستانی مرکزی وزیر کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول بیجنگ کا دورہ کریں گے۔ ستمبر میں برکس کا سربراہی اجلاس چین میں ہوگا جس میں وزیراعظم نریندر مودی کی شرکت متوقع ہے۔ ہندوستان علاقہ کی سطح پر دوسرے اہم ممالک جاپان، آسٹریلیا، انڈونیشیا اور ویٹ نام سے قریبی تعلقات استوار کرہا ہے، لیکن ہر ملک کے چین کے ساتھ الگ الگ نوعیت کے معاشی اور سیاسی تعلقات کے اُتار چڑھاؤ ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی حکمت عملی کے ساتھ چین میں موافق ہند فضاء بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ گذشتہ سال ہندوستان میں چین کی سرمایہ کاری پہلی مرتبہ ایک بلین ڈالرز سے زیادہ ہوئی ہے۔ چین کی موبائیل کمپنیاں اور رئیل اسٹیٹ ادارے ہندوستان پر نظریں لگائے ہوئے ہیں کہ ہندوستان میں وسیع مواقع ہیں۔ ہندوستان کو اپنی ترقی پر توجہ کرنا ہے اور ہندوستان کیلئے واحد راستہ یہی ہے کہ وہ چین کے ساتھ وسیع ہوئی معاشی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کرے۔ آبادی اور وسائل کے اعتبار سے ہندوستان‘ چین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کا اہل ہے، اگر ہندوستان ‘ چین سے خلیج پاٹتا ہے تو ہر سال شرح ترقی8تا 9فیصد رہے گی۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا