سلمیٰ اعوان
یہ جولائی 2008ء کی تپتی ہوئی سہ پہر ہے میں صدر سٹی بغداد کے کرنل بصیر الحانی کے گھر اُن کی نشست گاہ میں بیٹھی ہوں۔ مجھے یہاں لانے والا میرا ٹیکسی ڈرائیور ہے۔ یہاں فارس مہدی بھی ہے۔ امریکہ میں ایروناٹیکل انجینئرنگ میں تربیت یافتہ ۔ پہلے جماعت الفاتحین میں شامل مزاحمت کی تاریخ مرتب کر رہا تھا۔بعد میں القاعدہ میں شامل ہوگیا۔ روس امریکہ جنگ میں جہاد کے جذبوں سے لدا پھندا پاکستان پہنچا تھا۔ پشاور حیات آباد میں تین ماہ کے تربیتی کورس میں شامل ہوا۔آئی ایس آئی کے چند افسروں کے نام بھی اُس نے لیے جن سے اُس کی دوستی تھی ۔
میں نے دلچسپی اور حیرت سے اُسے جو کل کا ہیرو، آج کا زیرو اور مانا ہوا دہشت گرد تھاکو دیکھا تھا جس نے اجنبی جگہ پر بیٹھ کر میرے وطن کی بات کی تھی۔وہ کِسی حوالے سے بھی تھی مجھے اچھا لگا تھا۔مثبت اور منفی کی بحث کے بغیر۔یوں شکوک و شبہات کی پرچھائیں سی میرے دماغ سے اُٹھ کر میری آنکھوں میں آگئی تھیں۔شیعہ آبادی کی اکثریت والے علاقے میں القاعدہ کا یہ سرگرم کارکن کیسے ؟ اور سوال ہونٹوں پر بھی آگیا تھا۔
جواب میں سُننے کو جو ملا وہ یوں تھا کہ وہ توخود شیعہ مسلک سے ہے پر شیعہ سُنی اتحاد کا بہت بڑا علمبردارہے۔اُس کا دشمن صرف امریکہ ہے۔
عراقی فوج کے بارے میں جو میری معلومات تھیں اُن ہی کی روشنی میں میرا سوال ہوا۔بصیر الحانی نے میرے تاثرات اور اندازوں کی نفی کی۔
سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور انتہائی جدید ہتھیاروں سے لیس عراق میں داخل ہونے والی فوج تقریباََ پونے تین لاکھ تھی۔اس کا بھلا ایک ایسی فوج سے مقابلہ کیونکر ممکن تھا جو اسلحے اور تربیت کے لحاظ سے بہت کمتر تھی۔خلیجی جنگ نے بھی خاصا نقصان پہنچایا تھا۔تاہم پھر بھی اگر غدارّی جیسا اہم عنصر نہ ہوتا تو یقیناً آنے والوں کوفوری سبق مِل سکتا تھا۔
میں آج تک اِس بات کا تجزیہ نہیں کر سکا کہ صدام کو آخر اپنی کِس فوجی قوت پر نازتھا؟جنگ سے کافی پہلے عراق کے فوجی تجزیہ نگاروں نے اپنی رپورٹوں میں بھی یہ واضح کر دیا تھا۔
مجھے وہ میٹنگز یاد ہیں۔سینئر عراقی فوجی افسروں کے ایک جنرل نے کہا ’’سر! سی آئی اے کے پاس ہماری فوج کے بارے میں بہت اہم معلومات ہیں۔فوج میں خریدو فروخت ہو رہی ہے۔ہماری منصوبہ بندیاں، تیاریاں،حفاظتی انتظامات اُس معیار کے نہیں ہیں جو ایک بڑے دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔
دبے لفظوں میں ایک کرنل نے یہ اظہار بھی کردیا۔’’آپ عراق سے محبت کرتے ہیں۔اِس محبت کا تقاضا آپ کی حکومت سے علیحدگی ہے‘‘۔
عراق بچ سکتا تھا۔
پر ہٹ دھرمی اور انا پرستی نچلا بیٹھنے ہی نہ دے رہی تھی۔ تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہوا۔
’’ڈھائی کروڑ آبادی والے مُلک کی باقاعدہ فوج کوئی چار لاکھ کے قریب ری پبلیکن گارڈز بھی ،ریزرو فوج بھی ۔ہر شہری لازمی دو سالہ فوجی تربیت کا ٹرینڈ، ہر گھر میں چھوٹا موٹا اسلحہ موجود،تو مدافعت شاندار طریقے سے کیوں نہ ہوئی؟ ‘‘
میں نے سوال کیاتھا۔
تومیں داستان سُنتی تھی اِس اتنی جلدی ڈھے جانے کی فارس مہدی سے۔
’’بغداد نے کیا مزاحمت کرنی تھی۔آپ کا دشمن عیار،ذہین، ہر کام کی وقت سے پہلے منصوبہ بندی کرنے والا۔گلف وار میں اُس نے آئل ریفائنریوں ،واٹر سپلائی پائپ لائنوں، بجلی گھروں اور مواصلات کو تباہ کردیا تھا۔کیونکہ اس کے پروگرام میں قبضہ شامل نہیں تھا۔گواس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خلیجی جنگ کے بعد بحالی کا کام ہنگامی بنیادوں پر ہوا۔ بغداد کو دیکھ کر کوئی کہہ نہیں سکتا تھاکہ اس کی اینٹ سے اینٹ سے بجانے کی کوشش ہوئی تھی۔اگر ڈیفنس منسٹری کی عمارت کو نہ دیکھا جاتا جو ابھی بھی اسی حالت میں ہے۔
لیکن جب وہ قبضے کی نیت سے آئے تو ایسی ہر چیز کو بچایا گیا جس کی انہیں ضرورت پڑنی تھی۔بجلی پوری طرح موجود تھی۔دجلہ کے کسی پل کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔ریڈیو اور ٹی وی ا سٹیشن کام کرتے تھے۔کہیں ہلکا پھلکا سا چھینٹا لگایا گیا ہوگاوگرنہ احتیاط کی گئی۔
فوج کے سرکردہ لوگ بِکے۔ ری پبلیکن گارڈز بِکے۔
دفعتاً انہوں نے مجھ سے پوچھا ’’آپ بغداد کے کِسی اسپتال میں گئیں۔ میں نے صاف گوئی سے کام لینا زیادہ مناسب سمجھا تھا ۔جواباً بتا یا کہ بغداد آتے ہی اسپتالوں میں جانے اور اُن زخموں کو دیکھنے کیلئے میں جتنی زیادہ پرجوش تھی۔ایرموک اسپتال اور المنصور چلڈرن اسپتال میں ایک ایک بار کی وزٹ نے مجھے اِس درجہ مضطرب اور بے چین کیاکہ میں نے مزید اسپتالوں کا رُخ نہیں کیا۔جنگ کے پانچ چھ سال گزر جانے پر بھی میں نے ٹیڑ ھی میڑھی ٹانگوں،پھولے پیٹوں،مدقدق چہروں ،بجھی آنکھوں اور ٹیڑھے میڑھے ہاتھوں والے بچوں کی اکثریت دیکھی تھی۔میرے تو آنسو خشک نہ ہوتے تھے۔نسلیں تباہ کردی ہیں بدبختوں نے۔
دُکھ سے لبالب بھرا بڑا لمبا سانس تھا جو اُس نے بھرتے ہوئے کہا تھا۔
’’یورینےئم شیلوں کی بھر مار نے ماحول کو،زمین کو اور پانیوں کو زہر آلود کردیا ہے۔اب غریب لوگوں نے اُس زمین میں آلو،ٹماٹر پیاز تو اُگانے ہیں ۔کھانے بھی ہیں اور شکار بھی ہونا ہے۔ اب اِس صدر سٹی کا حال سُن لیجئیے جہاں بم شیلنگ نے بڑے بڑے گڑھے پیدا کردئیے ہیں۔پینے کے پانی اور سیوریج کے پائپوں میں سوراخ ہوجانے سے دونوں کے پانی مل گئے ہیں۔اب زہر پیا جارہا ہے۔کرفیو لگتا ہے تو کھانے پینے کی چیزیں مارکیٹ سے غائب اور اگر کچھ ملتا ہے تو دس گنا زیادہ قیمتوں پر۔ایسے میں عراق کی ماہر سائنس دان مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہدا مہدی اماش جب اس پر آواز اٹھاتی تھی اِس ثبوت کے ساتھ کہ عراقی فصلوں اور بچوں میں یہ بیماریاں کبھی پہلے نہیں تھیں جتنی خلیج کی جنگ کے بعد ہوئی ہیں تو اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے اِس الزام کے ساتھ کہ وہ صدام کے سر کردہ لوگوں میں سے ہے۔یہی سلوک ہماری دوسری سائنس دان ڈاکٹر رہاب طہٰ کے ساتھ ہوا۔
اُن کی گھناؤنی حرکتیں دیکھیں تو ہم بیچارے بڑے معصوم نظر آتے ہیں۔سوال تو بہت سارے پوچھے جا سکتے ہیں ۔جائز اعتراضات کی بھی ایک لام ڈور ہے کہ آخر یہ کیمیائی مواد صدام کے ہاتھ بیچا کیوں گیا؟اُسے گیس بنانے کی اجازت کیوں دی گئی؟کردوں اور ایرانیوں کا تخم مارنے کیلئے کہ شاہ ایران کے بعد انہیں مشرق وسطیٰ میں اپنے مطلب کا بندہ چاہیے تھا۔
دسمبر 1998میں امریکہ اور برطانیہ کے فائٹر جہازوں کے پورے پورے سکورڈن شمالی اور جنوبی عراق کے نوفلائی زون پر کثرت سے پروازیں کرتے تھے۔ جوابی عذر میں اِن علاقوں کے کُرداور شیعوں کی صدام سے مخالفت اور عتاب سے محفوظ رکھنے کا بہانہ تھا ۔لیکن اقوام متحدہ آفس کی عراق کیلئے نامزد کی رپورٹ تھی کہ گائیڈڈ میزائل گرنے سے بصرے میں بیسوؤں لوگ مرے اور زخمی ہوئے۔اب پنٹاگون بکواس کرے کہ ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی تو بندہ اِن جھوٹوں کیلئے کیا کہے۔تُرکی عراق کے شمالی کُردوں پر اسی نوفلائی زون سے بمباری کرتا ہے تو خاموشی۔ترکی امریکہ کاحلیف ہے نا۔
کتنے دہرے تہرے معیار ہیں اِن بڑی طاقتوں کے۔
ذرا پل بھر کیلئے سوچئیے آپ عراقی ہیں۔ آپ کی سرزمین اور اس زمین کے باسیوں کو بے موت مارا جا رہا ہو تو آپ کیلئے ممکن ہے کہ آپ نہ بولیں ۔اپنی آواز بلند نہ کریں۔نتیجتاً گرفتاری، جیل جانا اور پھانسی کے پھندے پر چڑھنا آپ کا مقدر بنتا ہے۔آپ ہتھیار اٹھاتے ہیں بقول اِن بڑے ملکوں کی وضع کردہ اصطلاح کے دہشت گرد بن جاتے ہیں۔خود مرتے اور دس لوگوں کو مارتے ہیں۔مگر یہ سب ہوگا۔ جتنی ہمت،استعداد اور آپ جس مقام پر ہیںآپ نے اُسے استعمال کرنا ہے اگر آپ میں اخلاص ہے اور آپ کو اپنے وطن سے محبت ہے۔
’’موجودہ حالات کو کِس تناظر میں دیکھتے ہیں۔‘‘
’’بہت بکھیڑا ہے یہاں۔نہ شیعہ متحد ہیں، نہ سُنّی اور نہ کُرد۔گروپوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ۔سب سے بڑی اور طاقتور عسکریت پسند تنظیم المہدی جس کے سربراہ مقتدالصدر جو عظیم شیعہ سکالر باقرالصدر کے صاحبزادے ہیں۔دوسری ’’البدر‘‘الحکیم فیملی کی ہے جو محسن الحکیم کا خاندان ہے جن کے ہاں امام خمینی بھی سالوں رہے۔ان دونوں کا بھی آپس میں اکثر ٹکراؤ رہتا ہے۔
سُنیوں میں ایک صدام کا حامی گروپ، دوسرا کُرد سُنیوں جس کے لیڈرمُلّا کریکار ہیں۔صدام کا بدترین مخالف اور اب امریکیوں کا جانی دشمن۔ تیسرا گروپ عرب مجاہدین کا انصار اسلام کے نام سے جو چھوٹے موٹے گروپوں کے ساتھ مل کر اتحادیوں کے خلاف اپنے طور پر لڑ رہے ہیں۔مفادات میں بھی ٹکراؤ ہے۔مہدی گروپ امریکہ کے ساتھ تعاون چاہتا ہے مگر حکومت میں زیادہ حصّہ شیعوں کا ہو تقاضا کرتا ہے۔البدر گروپ امریکیوں کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔
اب ان اختلافات سے وہ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔سیاسی تنظیموں کو استعمال کِیا جا رہا ہے۔پر ہمارے ساتھ المیے بھی تو بہت سارے ہیں۔وگرنہ کسی امریکی ،کسی اتحادی کی کیا مجال کہ وہ ہمارے پیڑول پمپوں سے اپنی گاڑی کی 170لیڑ کی ٹینکی صرف تین ڈالر میں بھروائے۔
بہت سارے کیسوں میں تو امریکی فوج خو دخودکش حملے کرواتی رہی ہے۔ مجھے رابرٹ فسک (دی انڈیپنڈنٹ) کی رپورٹ یاد آئی تھی جو میں نے کچھ عرصہ قبل پڑھی تھی۔ایک تو ابھی بھی ذہن سے چِپکی ہوئی تھی۔
پولیس میں بھرتی ہونے والے افراد کو نئی گاڑیاں دے کر کہا جاتا ہے کہ فلاں بازار فلاں مسجد یا فلاں علاقے میں جاکر جائزہ لو۔ہمیں فون پر بتاؤ اور ہماری ہدایات کا انتظارکرو۔عراقی جب فون کرتا۔جواب ملتا ہے گاڑی میں بیٹھے رہو اور ہمارا انتظار کرو۔
کچھ دیر بعد گاڑی خوفناک دھماکے سے پھٹ جاتی اور عراقی کے ساتھ گردو نواح کے درجنوں کبھی سینکڑوں بے گناہ مارے جاتے ہیں اور نام لگتا ہے القاعدہ کا یا شیعہ پارٹی کا۔
♣
One Comment