عطاالرحمن عطائی
\اگر ڈھول کے کسی ایک رخسار کی پرت پھٹ جائے تو پھر اسے کتنا ہی کیوں نہ پیٹا جائے تو اس کی چنگھاڑتی ہوئی آواز کہیں غائب ہوکر فنا ہوجاتی ہے اور اس سے کسی قریب المرگ مریض کی طرح سسکاریاں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں۔
اگر پیاس کی شدت سے نڈھال شخص کو پانی کے گہرے تالاب میں پھینکا جائے تواس سے اس شخص کی پیاس نہیں بجھے گی بلکہ تالاب اس کی زندگی چھین کر اس سےاپنی پیاس بجھا ڈالے گا۔
کوئٹہ ،پارا چنار اور پورے پشتون وطن کے دھماکے (جس کے اب ہم عادی ہوچکے ہیں) اس بات کی دلیل ہے کہ محکوم اقوام کی زندگی اپنے سیاسی بیانئے کے ردعمل اور اپنے سیاسی وجود کے رد عمل سے عاری ہوچکی ہے۔ ان کے سیاسی تعلق کا خول اس ڈھول کے چمڑے کی طرح ریاست کے ہاتھوں پھٹ چکا ہے کہ دشمن چاہے اسے جتنے بھی زور سے مارے لیکن اپنے وجود سے بیگانہ اس قوم میں کوئی سیاسی ردعمل کے امکانات ظہور پذیر نہیں ہو پارہے۔ کوئی چیخ نہیں اٹھتی کوئی دیوانگی نظر نہیں آتی ۔
بس ساری قوم صرف کھسرپھسر کرتی ہوئی کبھی اپنےلاشوں کی گنتی کرتی ہے کبھی اس امید پر دوبارہ زندگی کے ڈگر چل نکلتی ہے کہ شاید ہم بم کے پارچوں سے ہم رقص نہیں ہوں گے ۔
مقصد یہ ہے کہ ریاست اور سرمایہ داریت کی چڑیل خوئے فرنگیت کی طرح بڑے ہنر سے کامیاب رہی ہے کہ محکوم ملت کو اپنی جہت ، حیثیت اور اپنےسیاسی تعلق سے پی ٹی آئی ، جمعیت اسلامی و دیگر سیاستوں کےزہر کے ذریعے بیگانہ بنا ڈالے۔ اور جب ایک بار ملت کو ان جماعتوں کے نشے مبتلا کر دیتی ہے تو پھر اس کے حواس خمسہ ناکارہ ہو کر یہ سوال بھی نہیں اٹھا سکتے کہ ہمیں پانی پلانے کی بجائے تالاب میں کیوں پھینکا جارہا ہے۔
غرض اس تمام حیوانیت کے مقابلے کے لئے ہمیں پھر سے باچاخان بابا کی سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔ جو ہمیں ایک سیاسی احساس کی لڑی میں پرو سکے جو عوام میں اتنی سیاسی ہمت پیدا کرسکے کہ عوام ایک ہجوم بزدلاں کی بجائے فاتح دوراں بن جائیں۔ احتجاج اور مزاحمت کے گر سیکھیں ۔ کیونکہ جس قوم میں بیگانگی کے رنگ میں رنگا ہوا فکری سیاسی بیانیہ نہ وہ صرف ایک ہجوم کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ بھی ہجوم بزدلان۔
♦