علی احمد جان
ایک قطر ی شہزاد ے کے لکھے خط کے بعد ہمارے یہاں یہ نام زبان زد عام ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ قطر کے شاہی خاندان نے ہمارے حکمران خاندان کی حمایت میں ایک خط تحریر کرکے اپنی دوستی نبھائی ہے اور مخا لفین کا خیال ہے کہ اس خاندان نے ایسا خط لکھ کر ہمارے وزیر اعظم اور اس کے خاندان کی بیرون ملک دولت کو جائز ثابت کرنے کی کوشش ہے جس کا فیصلہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے ابھی کرنا ہے۔
اس خط کے لکھنےکے کئی پس منظر بیان کئے جاتے ہیں جن میں سے کچھ کاروباری لین دین کے معاملات بشمول پاکستان کےقطر کی حکومت سے مائع گیس خریدنے کا معاہدہ بھی شامل ہے ۔ اس معاہدے میں بھی ان دونوں خاندانوں کے بیچ طے پائے جانے والے امور کو شفافیت کے فقدان کی وجہ سے شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اگر یہ باتیں سچی ہیں تو پھر قطر سے گیس خریدنے کا معاملہ کسی پنامہ سیکنڈل سے کم نہیں کیونکہ یہ معاہدہ عوام کی جیب پر براہ راست اثرانداز ہوتا ہے جس سے ملک میں غربت کے مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
اس پر پارلیمان میں مفصل بحث ہو اور حقائق سامنے لائے جائیں تو پتہ چل سکتا ہے یا پھر سپریم کورٹ میں ایک اور پٹیشن کے بعد اس کے پیچھے چھپے حقائق سامنے آ سکتے ہیں۔ فی الحال جرح، بحث اور فیصلے چوراہوں اور سڑکوں پر ہورہے ہیں جس میں ایسی باریک بینی کی امید نہیں۔
قطرمیں۲۰۲۲کے فٹبال کے ورلڈ کپ کا انعقاد ہونا ہے جس کی وجہ سے یہ ملک دنیا بھر کی خبروں میں ہے۔ پہلے تو ورلڈ کپ کے قطر میں ہونے کے فیصلے پر د نیا انگشت بدندان رہ گئی کہ فیفا کے ممبران نے بھاری تعداد میں ووٹ کیسے دیا۔ ایک طرف قطر موسمی حالات کی وجہ سے بھی دنیا بھرکے کھلاڑیوں اور تماشیوں کے لئے موافق نہیں اور نہ ہی قطر میں ایسی سہولیات موجود ہیں جو دنیا بھر سے جمع ہونے والے تماشایئوں کے توقعات کے مطابق ہوں۔
اس معاملے کی تحقیقات بھی کروائی گئی کہ آیا ووٹ دینے والوں کی جیب تو گرم نہیں کی گئی مگر معلوم ہوا کہ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اس فیصلے کی واپسی ممکن نہیں اس لئے اب ورلڈ کپ قطر میں ہی ہو کر رہیگا۔موسمی حالات کی وجہ سے ورلڈ کپ کو دسمبر جنوری میں کروانے کی بھی شنید ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس ملک میں مزدوروں کی حالت زار پر سخت تشویش ہوئی کہ وہاں کام کرنے والوں کے نہ ہی اوقات کار وضع کئے جاتے ہیں اور نہ ہی مزدوروں کو کسی قسم رہائشی اور صحت کی قابل قبول سہولیات دستیاب ہیں۔
جب اس معاملے کو دنیا بھرکے میڈیا نے شہ سرخیاں دیں تو معلوم ہوا کہ پورے مشرق وسطیٰ میں محنت کشوں اور مزدوروں کی حالت زار یہی ہے ۔ یہ سوچ اور سمجھ کر اس معاملے پر چپ سادھ لی گئی ہے کہ اگر فٹبال کا ورلڈ کپ یہاں منعقد نہ بھی کرایا گیا تو متمدن کہلانے والے یورپ اور امریکہ کے لئے مشرق وسطیٰ سے تیل کی برآمد چھوڑ دینا ممکن نہیں ۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی ا فواج کا ایک اڈہ قطر میں ہے جو ۱۹۹۱ سے قائم ہے۔ العدید کا یہ ہوائی فوجی اڈہ قظر نے ۱۹۹۰ میں ایک ارب امریکی ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا ہے ۔ اس فوجی اڈے کو امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور آسٹریلیا نے بھی خلیج اور افغانستان کی جنگ کے دوران جنگی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔ قطر نے امریکہ اور دیگر ممالک سے فوجی تعاون اپنے دفاع کو مد نظر رکھ کر کیا ہے جس کی فوج تقریباً بارہ ہزار نفوس پر مشتمل خلیج میں دوسری سب سے کم فوج ہے ۔ قطر نے اپنی فوج کی کم تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو جدید اسلحے سے لیس کیا ہے جس میں بارہ ارب ڈالر کی لاگت سے خریدے گئے پیٹریاٹ میزائل بھی شامل ہیں۔ قطر کے خلاف کسی قسم کی عسکری جارحیت اتنی آسان نہیں جتنی شام اور یمن میں ہے۔
سعودی عرب کےعمر رسیدہ اور بھول جانے کی بیماری کے مریض بادشاہ سلیمان کے بیٹے اور بھتیجے کو گزشتہ دنوں منعقد کی گئی اسلامی ممالک کی کانفرنس سے توانائی ملی ہے اور ان کو ڈونالڈ ٹرمپ سے اپنے نئے روابط اور خوش کلامی سے نیا اعتماد حاصل ہوا ہے کہ وہ ایک طرف اپنے محلات کے اندرونی ریشہ دوانیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہونگے اور دوسری طرف خلیج میں چھوٹی موٹی ریاستوں کو اپنی طفیلی بنانے میں۔
ان کا پہلا حملہ قظر پر ہوا ہے جس میں انھوں نے اس چھوٹے سے ملک کی معاشی اور تجارتی ناکہ بندی کی ہے۔ قطر کی اس معاشی ناکہ بندی کی جو وجوہات بتائی گئی ہیں ان میں سے نئی کوئی نہیں ہے اور نہ ہی بیان کی گئی وجوہات سے کسی ملک کو فوری طور پر کسی قسم کے خطرے کا سامنا ہے اس کے باوجود اس قدر سخت اور فوری اقدام سے محرکین کی ذہنی بالیدگی کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ بین الاقوامی تعلقات میں سفارت اور سیاست کو کتنی جگہ دیتے ہیں۔
قطر ایک جزیرہ نما ملک ہے جس کے تینوں اطراف میں خلیج فارس اور ایک طرف اس کی سرحدیں سعودی عرب سے ملتی ہیں۔ سعودی ناکہ بندی کا مطلب اس ملک کا دنیا بھر سے زمینی رابطہ منقطع ہونا ہے۔ یہ تو بتانا مشکل ہے کہ اس ناکہ بندی کے لئے قطر کی حکومت نےکیا پیش بندی کر رکھی ہے اور اپنی اشیائے ضروریہ کا کتنا ذخیرہ کیا ہے لیکن وہاں سے مارکیٹوں میں شہریوں کے ہجوم کی خبریں آرہی ہیں جس سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ قطر کی ائیر لائن جو اپنے سستی سفری سہولیات کی فراہمی کی وجہ سے مقبول ہے اب اس کے اڈان بھرنے اور متحارب ممالک کی سرحدی حدود میں داخلےپر پابندی کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کے مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
امریکہ نے تو کہہ دیا کہ وہ اپنے فوجی اڈے کو قطر سے کہیں اور منتقل کرنے کا نہیں سوچ رہا لیکن قطر پر دیرپا پابندیوں کی صورت میں سعودی عرب پاکستان پر اپنا روایتی دباؤ بڑھاسکتا ہے کہ وہ قطر کے بائیکاٹ میں شامل ہو۔ اگر پاکستان سعودی دباؤ میں آجاتا ہے تو اس کے اثرات قطر کے ساتھ ہونے والے تجارتی معاہدوں کے علاوہ وزیر اعظم کی اپنی ذات پربھی ہونگے کیونکہ ایک قطری خط ہی تو ہے جو شریف خاندان کی دولت کو جائز اور حلال ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے دیتا ہے۔ اگر قطری ناراض ہوئے تو نواز شریف کا تین پشتو ں کا حساب چکتا نہ ہوگا اور اگر سعودی ناراض ہوئے تو سرور محل میں کھائے نمک کو حلال کرنے میں دقت ہوگی ۔ شریفوں کے لئے صورت حال نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی ہے۔
قطر کی صورت حال سے فیفا کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہوگا کہ وہ فٹ بال کے ولڈ کپ کو نہ یہاں سے کہیں اور لے جاسکتے ہیں اور نہ ہی یہاں منعقد کرواکر قطر سے ناراض ملکوں کو یہاں مدعو کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں فیفا کے سپانسر کرنے والوں کی بھی تشویش بڑھ سکتی ہے۔ قطر کے لئے اچھی بات یہ ہے کہ اس پر لگائے گئے الزامات میں اتنی جان نہیں کہ وہ اس کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کی صورت میں بین الاقوامی ہمدردی کے حصول میں معاون ہوں بلکہ یہ الزامات ایک مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔
قطر کی صورت حال سے نواز شریف، فیفا کے علاوہ دنیا بھر میں سستی سفری سہولیات کی حامل قطر ائیر لائن کے مسافروں کے علاوہ کوئی پریشان نظر نہیں آتا۔ ہاں مگر قطری اس سعودی دباؤ کو برداشت کر گئے تو سدیری کے پوتوں کی پریشانی اور بڑھ جائیگی کیونکہ قطر ان کی ہی حمایت نہیں کرتا جن کے نام وہ لیتے ہیں بلکہ ان کی بھی کرتا ہے جن کے نام لینے سے ال سعود کے محلات میں بھونچال آسکتا ہے۔