افغانستان کی خفیہ ایجنسی نے شدت پسند گروہ حقانی نیٹ ورک اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو کابل بم حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بدھ کے روز ہونے والے اس خود کش حملے میں 90 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’بدھ کے روز کابل میں ہونے والے حملے کے پیچھے حقانی نیٹ ورک کا ہاتھ ہے اور حقانی نیٹ ورک نے یہ حملہ آئی ایس آئی کے تعاون سے کیا ہے‘‘۔
جبکہ پاکستان کے دفترخارجہ نے افغانستان کے اس الزام کی تردید کی ہے۔
برطانیہ میں تعینات افغان سفیر طیب جاوید نے بین الاقوامی نیوز چینل سی این این کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا،’’ ہم پاکستان کو یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ دہشت گردوں کی حمایت پاکستان اورافغانستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ امریکا، نیٹو اورافغانستان سمجھتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کی خفیہ ایجنسی کا آلہ کار ہے‘‘۔
پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’عین ممکن ہے کہ حقانی نیٹ ورک اس حملے میں ملوث ہو لیکن وہ تنہا ہی افغانستان کی سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘ طلعت مسعود کے بقول پاکستان اور افغانستان کے تعلقات انتہائی اہم ہے۔ لیکن افغانستان کو پاکستان کی نیت پر بھروسہ نہیں ہے اور افغانستان میں بھی ایسی ایک لابی ہے جو دونوں ممالک کے اچھے تعلقات کے حامی نہیں ہے۔
طلعت مسعود دونوں ممالک میں تناؤ کا حل مسلسل مذکرات کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دونوں ممالک کو مذاکرات کے ذریعے ہی شک کو دور کرنا ہوگا۔ اگر ان دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کیا اور ایسی پالیسیاں نہ اپنائیں، جو دونوں کے مفاد میں ہیں تو پاکستان اور افغانستان دونوں ہی کا نقصان ہو گا‘‘۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان بار بار عالمی دنیا کے سامنے یقین دہانیاں کرانے کے باوجود حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کو تیار نہیں تو پھر کسی لابی کو تعلقات خراب کرنے کا الزام دینا کوئی عقل مندی نہیں۔یہ درست ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان صورتحال اسی وقت بہتر ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر آئیں۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان کی طرف کئی دفعہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن انہیں مایوسی ہی ہوئی کیونکہ پاکستانی ریاست حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے گروپوں کی حمایت سے باز رہنے کو تیار نہیں۔ دہشت گردوں کی پشت پناہی کی پالیسی سے نہ صرف پاکستان مسلسل نقصان اٹھار رہا ہے بلکہ جنوبی ایشیائی خطہ بھی بدامنی کا شکار ہے۔
اس حملے کے بعد پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی کی ایک مثال افغان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ دوستانہ ٹی ٹوئٹی میچوں کو منسوخ کرنا بھی ہے۔ گزشتہ روز افغان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ایک ٹوئٹ میں لکھا گیا ،”افغان کرکٹ بورڈ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ طے پانے والے میچوں اور کرکٹ کے تعلقات کو منسوخ کرتی ہے‘‘۔
DW/News Desk
One Comment