کہتے ہیں کہ مذہب اسلام انتہائی پرامن مذہب ہے ، پرامن مذہب کے لیے ضروری ہے کہ تمام مذاہب کے افراد اسلام قبول کر لیں۔ شاید اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں نے غیر مسلم لڑکیوں کے اغوا کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور حال ہی میں ایک کم سن ہندو لڑکی کو اغوا کر کے زبردستی مسلمان کر لیا ہے ۔
سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر کی پولیس نے نو عمر ہندو لڑکی کے مبینہ اغوا کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔ ملزم علی نواز شاہ نے رویتا میگھواڑ کا مذہب تبدیل کرکے نکاح کر لیا ہے۔
ننگرپارکر تھانے پر سترام میگھواڑ کی فریاد پر اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مدعی سترام میگھواڑ نے بتایا ہے کہ چھ جون کی شب جب تمام افراد سو رہے تھے کہ کچھ لوگ ان کے گھر میں داخل ہوئے اور رویتا کو زبردستی ساتھ لے جانے کی کوشش کی۔
مدعی سترام میگھواڑ کے مطابق ’لڑکی کی چیخ و پکار پر ان کا کزن ھریش اٹھ گیا، جس نے شناخت کی کہ نواز علی شاہ ساتھیوں سمیت مسلح تھا اور اس نے دھمکایا اور لڑکی کو زبردستی اپنے ساتھ لے گیا۔
سترام میگھواڑ نے ایف آئی آر میں بتایا ہے کہ لڑکی کے اغوا کی شکایت انھوں نے علاقے کے معززین سے بھی کی تھی لیکن ابھی تک لڑکی کو واپس نہیں کرایا گیا جس کی وجہ سے وہ اب یہ مقدمہ درج کرانے آئے ہیں۔
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق عمرکوٹ ضلعے کے علاقے سامارو میں واقع خانقاہ مجدیدیہ گلزار خلیل میں رویتا کا مذہب تبدیل کیا گیا ہے اور پیر ایوب جان سرہندی کے دستخط سے مدرسے کی سند جاری کی گئی ہے، جس میں رویتا کا نام گلناز تحریر ہے۔
اس سند میں لڑکی کی عمر 18 سال ظاہر کی گئی ہے جبکہ لڑکی کے والدین کے پاس موجود پرائمری سکول کے سرٹیفیکیٹ کے مطابق رویتا کی عمر 16 سال ہے۔لیکن ایک اہم بات جو غیر مسلم ناقدین بھول جاتے ہیں وہ یہ کہ اسلام میں نابالغ لڑکی سے بھی شادی جائز ہے ۔۔
رویتا کے مذہب تبدیلی کے بعد اسی روز مدرسے میں اس کا نواز شاہ کے ساتھ نکاح پڑھایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ شادی کے دو شرعی گواہوں کے روبرو دولہا اور دلہن کی قبولیت کے بعد یہ نکاح پڑھایا گیا۔
گذشتہ سال سندھ اسمبلی نے مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف ایک قانون منظور کیا تھا، جس میں میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی صغیر (کم سن) یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے مذہب تبدیل کرلیا ہے تو اس کے دعوے کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
تاہم صغیر کے والدین یا کفیل اپنے خاندان کے سمیت مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ مذہب کی جبری تبدیلی مختلف حوالوں سے ہوگی اس کو صرف جبری شادی یا جبری مشقت تک محدود نہیں سمجھا جائے گا۔
اس قانون کے مطابق اگر کسی کا جبری مذہب تبدل کرنے کا الزام ثابت ہوجاتا ہے تو ملزم کو پانچ سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جائے گی اور یہ جرمانہ متاثرہ فریق کو دیا جائے گا۔
جماعت اسلامی، جماعۃ دعوۃ سمیت دیگر جماعتوں کے احتجاج کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اس قانون سے دستبردار ہوگئی اور سینیئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ اس قانون میں ترمیم کی جائے گی تاہم تاحال یہ ترمیم نہیں ہوسکی ہے۔
سندھ میں موجودہ وقت 18 سال سے کم عمر کی شادی پر بھی پابندی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت اس قانون پر بھی عمل کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، کیونکہ ہندو کمیونٹی کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کی نو عمر لڑکیوں کو اغوا کرکے جبری نکاح کیا جاتا ہے۔
BBC/News desk
♦
One Comment